ہو نہ عرفانِ نفس اگرانعاؔم
شاعری شاعری نہیں ہوتی
طوفاں کی نذر میرا سفینہ نہیں ہوا
طوفان خودہی میرےسفینےمیں آگیا
حضرت مولانا انعاؔم تھانوی سہارنپور، اردو فارسی کے بلند پایہ، خوش فکر، نغز گو اور قادر الکلام شاعرتھے۔ فطری شاعر ہونے کے سبب ہر عالَم میں شعر کہہ لیتے تھے۔ تاریخ گوئی میں خصوصی ملکہ رکھتے تھے۔ یہ تاریخیں فارسی میں زاید اور اردو میں کم ہیں۔ موصوف کی شخصیت و فن کو اربابِ سخن نے جس طور پر سراہا ہے وہ سطورِ زیریں میں پیش ہے۔
(1) جناب کریؔمی الاحسانی (حسن پور لوہاری) تحریر فرماتے ہیں کہ مولانا کی نظمیں بڑی معرکہ کی ہیں۔ غزلیں بھی لہلہاتی ہوئی اور سدا بہار ہیں۔
(2) سہارنپور کے مشہور اور استاذ شاعر حضرت واصؔف عابدی ارقام فرماتے ہیں کہ “مولانا ایک ذی شعور اور صاحب نظر شاعر و ادیب ہی نہیں عارف حیات و کائنات بھی ہیں۔ ان کے کلام میں خود شناسی اور خدا شناسی کا عنصر پایا جاتا ہے۔
(3) نظم کے بڑے پرگو اور بدیہہ گو شاعر مولانا ولؔی قاسمی بستوی ارشاد فرماتے ہیں ” مولانا کے کلام میں شوکت الفاظ اور عظمت معانی کے نمونے شروع سے اخیر تک بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔”
(4) علمِ عروض کے جیّد عالِم جناب سامِر کھتری (داہود) اس اہم رائے کا اظہار فرماتے ہیں “ان کی بعض نظمیں تو ایسی پُر شوکت ہیں کہ ان کو پورا پڑھ لیا جائے اور مقطع پر نظر نہ پڑے تو ایسا گُمان ہوتا ہے کہ یہ کلام جوؔش کا ہے۔”
(5) مولوی ناصر الدین لکھیم پوری استاذ شعبہ فارسی مظاہر علوم سہارنپور رقمطراز ہیں کہ “استاذ محترم مولانا انعاؔم تھانوی کا کلام ان کی دیدہ ریزی باریک بینی اور عقل و شعور کی پختگی کا عظیم شاہکار ہے۔”
مولانا انعاؔم تھانوی 1922ء میں رشد و ہدایت کی سر زمین “تھانہ بھون” میں تولد ہوئے ۔ دارالعلوم دیوبند سے 1937ء میں فارسی کی تکمیل کی جبکہ مظاہر علوم سہارنپور سے 1948ء میں عربی سے فارغ ہوئے اور یہیں کے ہورہے چنانچہ وہاں شعبہ نشر و اشاعت میں ساٹھ برس تک خدمت انجام دی کچھ عرصہ وقتاً فوقتاً فارسی بھی پڑھائی۔ 85 سال کی عمر میں 2008ء میں وفات پائی اور قبرستان قطب شیر سہارنپور میں مدفون ہوئے ۔
“ارمغانِ تخیل” نام کا شعری مجموعہ ان کی ادبی یادگار ہے۔