واشنگٹن (ملت ٹائمز؍ایجنسیاں)
ٹرمپ کو اپنی انتخابی مہم کے دوران اس بات پر عوام کی کافی زیادہ حمایت ملی تھی کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کریں گے۔ تاہم گزشتہ روز کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب میں ٹرمپ نے ایک معتدل لہجہ اختیار کیا۔ انہوں نے ری پبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں سے اپیل کی کہ وہ امیگریشن اصلاحات کے حوالے سے مل کر کام کریں۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر ری پبلکنز اور ڈیموکریٹس سمجھوتے پر رضامند ہو جائیں تو یہ ممکن ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی امیگریشن کو کم درجے کے پیشہ ورارنہ صلاحیتوں والے تارکین وطن پر انحصار کرنے کی بجائے اسے ایک میرٹ پر مبنی نظام ہونا چاہیے۔
امیگریشن کے حوالے سے تفصیلی اصلاحات کے معاملے پر دو سابق صدور، ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے باراک اوباما اور ری پبلکن جماعت کے جارج ڈبلیو بُش کے ادوار میں کوئی خاص پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ اس معاملے پر نہ صرف ری پبلکن اور ڈیموکریٹک جماعت کے درمیان تقسیم موجود ہے بلکہ امریکی عوام بھی اس سوال پر منقسم ہیں۔ ٹرمپ کا تاہم کہنا ہے کہ ان اصلاحات سے اُجرتوں میں اضافہ ہو گا اور مشکلات میں گِھرے ہوئے بہت سے خاندان متوسط طبقے میں شامل ہو سکیں گے۔
ری پبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنے خطاب میں کہنا تھا، ’’اگر ہم ان مقاصد پر توجہ مرکوز رکھیں تو مجھے یقین ہے کہ مثبت اور حقیقی امیگریشن اصلاحات ممکن ہیں: امریکیوں کے لیے روزگار کے مواقع اور اجرتوں میں اضافہ کرنا، اپنی قوم کی سکیورٹی کو مستحکم کرنا اور ہمارے قوانین کی عزت بحال کرنا۔‘‘ٹرمپ کا عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد کا پہلا مہینہ زیادہ تر اُس لڑائی میں گزر گیا جو ان کی طرف سے سات مسلمان ممالک کے شہریوں پر سفری پابندی عائد کرنے سے شروع ہوئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی مرتبہ میڈیا کے علاوہ ان ججوں پر بھی تنقید کی تھی جنہوں نے سفری پابندی پر مبنی ان کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔تاہم منگل 28 فروری کو ان کے خطاب سے کچھ یوں لگا جیسے وہ یہ ساری چپقلشیں چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’خفیف لڑائیوں کا وقت اب پیچھے رہ گیا ہے۔