غزہ میں رہائش پذیر سات بچوں کی ماں اتماد القنوع کے پاس کھانے اور کھلانے کو بہت کم رہ گیا ہے اور وہ سوچتی ہیں کہ سب نے اُن کو بے یار ومددگار چھوڑ دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق اتماد القنوع کبھی سوچتی ہیں کہ خاندان کی بھوک کا حل اب موت ہی ہے کیونکہ ایک سال سے جاری جنگ نے پورے علاقے قحط زدہ کر دیا ہے۔ تین لڑکوں اور چار لڑکیوں کی ماں کہتی ہیں کہ ’اب ہم پر ایٹم بم گرا دیں تاکہ یہ سب ختم ہو۔ ہم یہ زندگی نہیں چاہتے جو جی رہے ہیں، ہم روزانہ مرتے ہیں۔ کچھ تو رحم کریں، ان بچوں کو دیکھیں۔‘
اتماد القنوع کے ساتوں بچوں کی عمریں آٹھ سے 18 برس کے درمیان ہیں۔ اُن کے قصبے دیر البلاح میں کھانے پینے کی اشیا تقسیم کرنے والے ایک خیراتی ادارے کے باہر بچوں کا ہجوم ہے جو اپنے خالی برتنوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
خوراک کے حصول کے لیے بے چین بچوں میں امدادی کارکن برتن سے دال کا سوپ تقسیم کر رہے ہیں۔ لیکن یہ سارا انتظام بھوک کو ختم کرنے اور بڑے پیمانے پر اس کے احساس کو کم کرنے کے لیے کسی طرح بھی کافی نہیں۔
اتماد القنوع کا کہنا ہے کہ اس کے خاندان کو اسرائیلی فضائی حملوں کا سامنا ہے جس میں ایک طرف دسیوں ہزار لوگ مارے گئے ہیں اور غزہ کا بڑا حصہ تباہ ہو چکا ہے جبکہ دوسری طرف بھوک ہے۔انسانی امداد لے جانے والے ٹرکوں کو پیر کو ایریز کراسنگ کے ذریعے شمالی غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔