ارتداد کا بڑھتا سلسلہ، مسلم دنیا کیلئے لمحہ فکریہ

پس آئینہ : شمس تبریز قاسمی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے ’’ حلال روزی کی تلاش فرائض لازمہ کے بعد اہم فریضہ ہے، اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلبِ معاش کی فکر کو گناہوں کا کفارہ قرار دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حیاتِ مبارکہ اور اسوۂ حسنہ کا اولین پہلو معاش کی فکر کرنا اور تجارت کرنا ہے، شام اور دیگر علاقوں کی جانب ہونے والے اسفار اس کی واضح طور پر عکاسی کرتے ہیں، پنجابی صوفی شاعر خواجہ فرید شکر گنجؒ کے بقول روٹی ایمان کا چھٹا سکون ہے۔ معاشیات کی یہ اہمیت اس بات کو بتلاتی ہے کہ جب کسی کی دہلیز پر بھوک دستک دے دیتی ہے تو دن میں بھی آسمان پر تارے نظر آنے لگتے ہیں، جس گھر میں بھوک داخل ہوتی ہے اس کی چولیں ہل جاتی ہیں، جس ملک کی اقتصادیات کمزور ہوجاتی ہے اس کا پورا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، فاقہ کشی کا سامنے کرنے والے لوگوں کے تمام جذبے اور حوصلے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، اپنے بچوں، اہل خانہ اور عزیز و اقارب کو روتا، بلکتا، پریشان اور جاں بلب دیکھ کر لوگوں کا ایمان بھی متزلز ل ہوجاتا ہے، ایک روٹی کی خاطر ایمان کا سودا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، بھوک مٹانے، زندگی باقی رکھنے اور فاقہ کشی کے عذاب سے نجات پانے کیلئے مذہب تبدیل کرنے لگتے ہیں۔ چنانچہ شام اور دیگر ملکوں کے مسلمان جو لبنان، جرمنی، یونان، سوئیڈن، آسٹریا، برطانیہ، آرمینیا، اطالیہ، بلغاریہ، کینیڈا، برازیل، رومانیہ، ارجنٹائن، روس، فرانس، مقدونیہ، پولینڈ، کولمبیا، میکسیکو، امریکا، یورا گوئے جیسے یورپین ممالک میں پناہ گزین ہیں دو وقت کی روٹی کی خاطر بڑی تعداد میں مرتد ہوکر عیسائیت قبول کررہے ہیں، معاشی کمزوری اور غربت کی دلدل میں پھنسے مسلمانوں کا ایمان عیسائی دو وقت کی روٹی کے عوض خرید رہے ہیں اور مسلمان چار و ناچار یہ سب کرنے پر مجبور ہیں۔
دی ٹیلیگراف کے حالیہ شمارے میں شائع ہونے والی رپوٹ کے مطابق شام سے ملحق لبنان میں 15 لاکھ شامی مہاجرین موجود ہیں جہاں پادری روٹی اور دیگر سہولیات کے عوض لوگوں کو عیسائی مذہب قبول کرنے پر مجبور کررہے ہیں، انڈیپینڈینٹ کی رپوٹ کے مطابق جرمنی میں بھی پناہ گزین عیسائیت قبول کر رہے ہیں، غربت، فاقہ کشی اور بھوک سے نڈھال ہوکر ایران، افغانستان اور شام سے آئے مسلم مہاجرین کو پادری معاشی طور پر مضبوط بنانے کا وعدہ کرکے عیسائی بنارہے ہیں، ورلڈ میگزین کی ایک رپوٹ کے مطابق ڈیوڈ گریزن نامی ایک عیسائی اسکالر منظم طور پر دنیا بھر میں مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے مشن پر عمل پیرا ہے، تبلیغ عیسائیت کے مشن پر مصروف ایک تنظیم سے گذشتہ پچیس سالوں سے ان کا تعلق ہے، اس مشن کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے کیلئے کڑورں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں، مہاجرین مسلمانوں پر اس تنظیم کی خاص توجہ ہوتی اور غربت فاقہ کشی کے شکار مسلمانوں کو روپے کی لالچ دیکر انہیں عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، گریزن نے ایک کتاب لکھی ہے ’’ اسلام کے گھر میں طوفان ‘‘ (A Wind in the House of Islam) جس میں اس نے اسلام کے خلاف بہت کچھ لکھنے کے ساتھ یہ دعوی بھی کیا ہے کہ گذشتہ دو صدی میں تقریباً 2 سے سات ملین مسلمانوں نے مرتد ہوکر عیسائیت قبول کیا ہے۔ ورلڈ میگزین کے رائٹر وارن کول اسمتھ نے 2014 میں ان کا انٹرویو لیا تھا جس میں ڈیوڈ نے عیسائی مشنری کے تعلق سے کئے سارے اہم انکشافات بھی کئے ہیں۔ روزنامہ خبریں نے بھی ایک ہفتہ قبل ایک رپوٹ شائع کی تھی کہ جس کے مطابق صوبہ اتر پردیش کے رامپور ضلع سے تعلق رکھنے والی خاتون نور صبا نے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ مسلم رہنماؤں کی بے توجہی سے دلبرداشتہ ہوکر میں نے یہودیت یا عیسائیت مذہب قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس خاتون کا مسئلہ یہ ہے کہ 2015 سے یہ ایک ایسے معاملے کو لیکر دھرنا پر بیٹھی ہیں جس کا سپریم کورٹ سے فیصلہ ہوچکا ہے۔
اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت قبول کرنے کی یہ رپوٹ پوری مسلم دنیا کیلئے ایک لمحہ فکریہ اور مقام غور و خوض ہے، وہ مذہب جس کا کوئی ثانی نہیں ہے، جس کے عشر عشیر کے برابر بھی کوئی اور مذہب نہیں ہوسکتا ہے، جس مذہب نے انسانیت کو ترقی کی معراج عطا کی ہے، دشمنان اسلام کی شدید مخالفت کے باوجود جس مذہب کے ماننے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے، اسی مذہب کے بعض پیروکار کیوں دوسرے مذاہب قبول کررہے ہیں، اس کے اسبا ب وجوہات پر غور کرنے اور اس خطرناک مرض کا تدارک کرنے کی اشد ضرور ت ہے، صرف یہ کہ دینا کافی نہیں ہے کہ مذہب تبدیل کرنے والوں کا ایمان مضبوط نہیں تھا، ان لوگوں کے دلوں میں ایمانی حلاوت پیدا نہیں ہوسکی تھی، وہ پیٹ کے پجاری اور ہوس کے پرستار تھے، ایسے لوگوں کا انجام جہنم ہے، حضرت بلال حبشی اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہما کے قوتِ ایمانی کو مثال میں پیش کرکے ہم اسے نظر انداز نہیں کرسکتے کہ وہ لوگ بھی مسلمان تھے جنہیں تمام ممکنہ اذیتوں سے دوچار کیا گیا لیکن ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آسکی۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ تمام تر مخالفت کی باوجود اسلام قبول کرنے والوں کا سلسلہ آئے دن بڑھتا جارہا ہے اور یہ لوگ اسلام کی آغوش میں کسی لالچ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس مذہب کی صداقت کی بنیاد پر آرہے ہیں۔
جن لوگوں نے اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت اختیار کیا ہے اس کی وجہ عیسائی مذہب میں کوئی خوبی نہیں ہے، نہ عقیدہ اور نظریہ کے اعتبار سے انہیں عیسائیت میں کوئی اچھی چیز نظر آئی ہے بلکہ غربت و فاقہ کشی اور عیسائیوں کی جانب سے ہونے والی پیشکش نے انہیں ایمان کا سودا کرنے پر مجبور کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ معاشی قلت اور اقتصادی زبوں حالی نے انہیں یہ سب کرنے پر مجبور کیا ہے، اگر ان کے حالات دگر گوں نہیں ہوتے، ان کے روتے بلکتے بچوں کو کہیں سے دودھ کا قطرہ مل جاتا، ان بے گھر مسلمانوں کو کہیں سر چھپانے کیلئے کوئی چھت میسر ہوجاتی ہے، انہیں ایک وقت کی روٹی نصیب ہوجاتی تو وہ اتنا گھناؤنا قدم نہیں اٹھاتے لیکن وہ سب کرنے پر مجبور ہوئے کیوں کہ انہیں اپنی سرزمین سے در بدر ہونا پڑا، اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا، مسلم ملکوں نے اپنے یہاں پناہ دینے سے انکار کردیا، مجبور ہوکر انہیں جرمنی اور یورپین ممالک کا رخ کرنا پڑا جہاں ان کے پاس صرف دو راستے بچے تھے یا تو ایمانی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھوکے پیاسے رہ کر اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کردیں یا پھر مجبور ہوکر ایمان کا سودا کرلیں۔
آج تین تہائی مسلم ممالک عیسائیوں کے رحم و کرم پر ہیں، ایک مشن کے تحت مسلم ممالک میں خانہ جنگی کے حالات پیدا کرکے مسلمانوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جارہا ہے، دوسری طرف انسانی حقوق کے نام پر انہیں اپنے یہاں ٹھہرا کر ان کے ایمان پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے، مسلمان بے بس اور بے سہارا ہیں، چند ممالک کے سوا کوئی بھی ان مسلمانوں کی مدد کیلئے تیار نہیں ہے، ترکی کا نام سرفہرست ہے جس نے تقریباً 27 لاکھ شامی پناہ گزین کو اپنے یہاں پنا ہ دے رکھی ہے، سعودی عرب، مصر اور الجزائر وغیرہ کا بھی نام بھی مدد کرنے والوں میں شامل ہے، لیکن جب تک مسلم ممالک متحد نہیں ہوں گے، خلافتِ عثمانیہ کی روشن تاریخ سے سبق نہیں لیں گے، ایک بلاک نہیں بنائیں گے، اقتصادی سطح پر مضبوط نہیں ہوں گے، مضبوط دفاعی قوت حاصل نہیں کریں گے، ایٹمی ہتھیار سے لیس نہیں ہوں گے اس وقت تک عیسائیوں کی جانب سے مسلمانوں پر ہونے والا یہ چوطرفہ حملہ بند نہیں ہوگا۔
stqasmi@gmail.com