شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
آج کل شہروں میں چڑیا خانے (Zoo Park) بنے ہوتے ہیں ، ان چڑیا خانوں کی تزئین و آرائش اور حفاظت و صیانت پر بہت بڑی رقم خرچ ہوتی ہے ، پورا چڑیا خانہ رنگ برنگ کے خوب صورت اور مہکتے ہوئے پھولوں ، لمبے ہرے بھرے درختوں اور پانی کی چھوٹی چھوٹی جھیلوں کی وجہ سے خوش منظر بنا رہتا ہے ، پھر انواع و اقسام کے حیوانات اور پرندوں کے لئے الگ الگ احاطے بنے ہوتے ہیں ، جانوروں کی دیکھ بھال اور آسائش کا جو انتظام ان چڑیا خانوں میں ہوتا ہے ، یقیناً وہ ان کو جنگلات میں بھی میسر نہیں ، اپنی غذا کے لئے نہ ان کو شکار تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور نہ چارہ ڈھونڈھ نے کی حاجت ؛ بلکہ خود چڑیا خانہ کا عملہ ان کی غذائی ضروریات وقت پر اور فراوانی کے ساتھ فراہم کرتا ہے ، حفظانِ صحت کی جو رعایت یہاں کی جاتی ہے ، جنگلات میں ان کا میسر آنا ممکن نہیں ، باضابطہ ڈاکٹر اور معالج متعین ہیں ؛ بلکہ ان کے علاج کی اتنی فکر کی جاتی ہے کہ انسانوں کے لئے بھی اتنی فکر نہیں کی جاتی ، جانوروں کی حفاظت و صیانت کا بھی اعلیٰ درجہ کا نظام موجود ہے ، نہ کسی جانور کو اس کا خطرہ ہے کہ اس سے زیادہ طاقت ور جانور اسے اپنی خوراک بنا لے گا ، نہ شکاریوں سے کوئی خوف ہے ، غرض حیوانات کی ضروریات کی تکمیل اور ان کے تحفظ کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو چڑیا خانے ان کے لئے ایسی راحت گاہ ہیں کہ انسانوں کو بھی ایسی سہولت و آسائش میسر نہیں ۔
لیکن اگر کسی شخص کو جانور کی زبان آتی ، وہ ان سے ہم کلام ہو سکتا اور ان جانوروں سے ان کی دلی آرزو اور سب سے پیاری خواہش کے بارے میں سوال کرتا تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوتا کہ خدارا مجھے اس خوب صورت آراستہ و پیراستہ ’’ سونے کے قفس ‘‘ سے نکال کر بے ترتیب اور انسان کے ذوق خوش آرائی سے محروم جنگلات میں پہنچا دو ، جہاں گو وقت پر کھانا نہیں آئے گا ، اپنی خوراک کے لئے دوڑ بھاگ کرنی ہوگی اور علاج کے لئے کوئی ڈاکٹر بھی میسر نہیں ہوگا ، ایسے خوش رنگ ، سجے سجائے ، سنوارے اور دلہن بنائے گل بوٹے نظر نہیں آئیں گے ، مگر پھر بھی ہم ’’آزاد ‘‘ ہوں گے ، حصار بندیوں نے مجھے قید نہیں کیا ہوگا ، میں اپنی مرضی سے ہر جگہ آنا جانا کر سکوں گا۔
جب حیوانات — جو عقل و شعور کے اعتبار سے بمقابلہ انسان بہت ادنیٰ درجہ کی مخلوق ہیں — کے اندر آزادی کی ایسی طلب بلکہ تڑپ ہے ، تو انسان میںاس کا داعیہ کتنا شدید ہوگا ، وہ محتاجِ اظہار نہیں ، اس کی ایک چھوٹی سی مثال جیل اور قید خانے ہیں ، یہاں قیدیوں کی اکثر بنیادی ضروریات پوری کی جاتی ہیں ؛ لیکن اس کے باوجود ہر قیدی رہائی کے لئے بے چین اوربے قرار رہتا ہے ، اس لئے آزاد رہنے کی خواہش انسانی فطرت کا ایک حصہ ہے ، جب کوئی قوم دوسری قوم پر غلبہ پا لیتی ہے تو اپنی غلامی کا احساس اس کو تڑپاتا رہتا ہے ، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے آپ سے محروم کر دیا گیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں آزادی کی جدو جہد اور غلامی سے نجات کی کوشش میں بے شمار اور بے پناہ قربانیاں دی گئی ہیں ، جان ومال کی ، اولاد کی ، گھر بار کی اور بعض مواقع پر عزت و وقار کی بھی ، خود ہمارا ملک ہندوستان اس کی روشن مثال ہے ، قفس چاہے سونے کا ہو ، وہ قفس ہی ہے ، وہ انسان کی طبعِ آزاد پسند کی سیری کا سامان نہیں ۔
اسی لئے اسلام نے آزادی کو انسان کا فطری اور پیدائشی حق تسلیم کیا ہے ، وہ تمام انسانیت کو بحیثیت انسان مساوی قرار دیتا ہے ، اس لئے کسی انسانی طبقہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو اپنا غلام بنالے ، رسول اللہ ﷺنے اس انقلابی تصور کا اعلان اس طرح فرمایا :
’’اے لوگو ! تمہارا رب ایک ہی ہے اور تم سب ایک ہی باپ کی اولاد ہو ، تم سب آدم سے پیدا کئے گئے اور آدم کی تخلیق مٹی سے کی گئی ہے ، تم میں اللہ کے نزدیک سب سے شریف اور باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہو ، کسی عرب کو کسی عجمی پر تقویٰ کے علاوہ کسی اور سبب سے کوئی فضیلت نہیں ہو سکتی ‘‘
یہ توحید اور انسانی وحدت کاعقیدہ وہ انقلابی عقیدہ ہے جو نسلی ، خاندانی جغرافیائی اورلسانی بنیادوں پر ایک طبقہ کے دوسرے انسانی طبقہ کو غلام بنانے ، ان کو کمتر سمجھنے اور اپنے تئیں برتری کے احساس کی بنیاد ہی کو منہدم کر دیتا ہے ۔
یہ مذہبی خوش عقیدگی او رمبالغہ آرائی نہیں ؛ بلکہ ایک حقیقت ہے کہ گذشتہ چند صدیوں میں انسان کے حق آزادی اور مساوات و برابری کا جو تصور اُبھرا ہے ، وہ در اصل اسلامی تعلیمات ہی کا اثر ہے ، اسلام جس وقت دنیا میں آیا ، اس وقت بادشاہت اور ملوکیت کا تصور ذہنوں پر چھایا ہوا تھا ، اس وقت دنیا میں جتنی قابل ذکر حکومتیں تھیں وہ سب خاندانی بادشاہت کے نظام پر مبنی تھیں ، ایران و روم کی حکومتیں اسی تصور پر قائم تھیں ، ہندوستان اور چین میں بھی ایسی ہی چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں ، لوگ اس کے اس قدر خوگر ہو چکے تھے کہ جمہوریت اورآزادی کے تصور سے بھی وہ محروم تھے ۔
یورپ افلاطون اور اس کے شاگرد ارسطو کو جمہوری طرز فکر کا بانی تصور کرتا ہے اورافلاطون کی کتاب ’’ جمہوریت ‘‘ (Republic)کو اس موضوع پر پہلی کتاب خیال کیا جاتا ہے ؛ لیکن افلاطون کے جمہوری تصور کا حال یہ ہے کہ اس کے نزدیک صرف فلاسفہ کو حکمرانی کا حق حاصل ہے اور وہ سماج کے بقیہ افراد کو فوجیوں ، کاشتکاروں اور غلاموں میں تقسیم کرتا ہے ، اس کے نزدیک ان سب کی تخلیق کا خمیر بھی الگ الگ ہے ، فلاسفہ کو خدا نے سونے سے بنایا ہے ، ان کے معاونین کو چاندی سے ، پھر کاشتکار اور دستکار وغیرہ کو لوہے اور پیتل سے ، یہ ہے جمہوریت اور انصاف کاوہ تصور جو افلاطون نے پیش کیا ہے ۔
افلاطون کے بعد مشہور فلسفی اور افلاطون کے شاگرد ’’ ارسطو ‘‘ کو نظام جمہوری کا مفکر تصور کیا جاتا ہے ، ارسطو کے یہاں سماج کی طبقاتی تقسیم اتنی نمایاں ہے کہ ایک دانشور سے ایسے غیر منصفانہ خیالات کا صدور حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے ، ارسطو کا خیال ہے کہ ’’غریب امیروں کے پیدائشی غلام ہیں ، وہ بھی ، ان کی بیویاں بھی اور ان کے بچے بھی ‘‘ ارسطو کو مساوات اورحکومت میں غریبوں کی شرکت نہایت ناگوار خاطر ہے ، جب فلاسفہ ڑوزگار اور دانشورانِ عصر کے فکر و نظر کا یہ حال ہو تو عام لوگوں کی سوچ کا اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
یہ اسلام هی ہے جس نے انسانی وحدت ، تکریم آدمیت اور هر شخص كے لئے آزادی کا انقلابی پیغام دیا اور اس کو برت کر دکھایا اور آج پوری دنیا میں آزادی کے تصور نے جو تقویت پائی ہے وہ یقیناً اسی انقلابی فکر کی بازگشت ہے ، انسانی وحدت کا تصور مسلم سماج میں ایک عقیدہ کی طرح رچ بس گیا تھا اورایک معمولی سے معمولی انسان فرماں روائے وقت کے خلاف اپنی زبان کھولنے اور اپنا مقدمہ پیش کرنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کرتا تھا ۔
حضرت انسؓ راوی ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمر ؓ کے پاس تھے کہ مصر کے ایک قبطی نے فریاد کی ، آپ ؓ نے دریافت کیا تو اس نے کہا : عمر وبن العاص ؓ نے مصر میں گھوڑ دوڑ کرائی ، جس میں میرا گھوڑا آگے نکل گیا اور لوگوں نے اسے دیکھا بھی ، مگر محمد بن عمر و بن العاصؓ کہنے لگے کہ بخدا ! یہ میرا گھوڑا ہے ، وہ جب قریب آئے تو میں نے انھیں پہچان کر کہا کہ نہیں بخدا وہ میرا گھوڑا ہے ، اس پر مجھے کوڑوں سے مارنے لگے، انھوںنے کہا کہ جانتے نہیں کہ میں ’’ ابن الاکرمین‘‘ ( شریف زادہ) ہوں ۔
اس پر حضرت عمر ؓ نے اس سے کہا اچھابیٹھو ! پھر عمر بن العاص ؓ کو لکھا کہ میرا خط دیکھتے ہی تم اور تمہارے بیٹے محمد حاضر ہو جائیں ، راوی کہتا ہے کہ عمر بن العاص ؓ نے اپنے بیٹے کو بلا کر پوچھا کہ کیا تم نے کوئی جرم کیا ہے؟ اس کے بعد وہ حضرت عمر ؓ کے پاس حاضر ہوگئے ، حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمرؓ ہی کے پاس تھے کہ عمر و بن العاص ؓ کو ایک لنگی اور چادر میں آتے دیکھا ، حضرت عمرؓ دیکھنے لگے کہ انکا بیٹا بھی ساتھ ہے یانہیں ، جو ان کے پیچھے پیچھے آرہا تھا، حضرت عمر ؓ نے مصری کو بلایا اور حکم دیا کہ درّہ لے کر ابن الاکرمین ( شریف زادہ) کی خبر لو ، راوی کہتا ہے کہ اس نے اسے اچھی طرح مارا ، پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ عمرو کے سر پر بھی گھماؤ، کیوںکہ انھیں کے سہارے پر اس نے تمہیںمارا تھا ، مصری کہنے لگا کہ میںمارنے والے کو مار چکا ، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر تم انھیں مارتے تو میں بیچ میں نہ پڑتا ، جب تک کہ تم ہی نہ انھیں چھوڑ دیتے ، پھر فرمایا عمرو ! تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنایا ؛ حالاںکہ ان کی ماؤں نے تو انھیں آزاد جنا تھا ؟ پھر مصری کی طرف متوجہ ہو کر کہا کہ اطمینان سے جاؤ ، اگر کوئی بات پیش آئے تو مجھے لکھنا ۔ (سیرت عمر لابن جوزی: ۹۷-۸۶)
دنیا نے بہت بعد کو آزادی کی لذت چکھی ہے ، روسو ۱۷۵۰ء میںبھی شکوہ سنج تھا کہ ’’انسان آزاد پیدا ہوا تھا ؛ لیکن وہ ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے ‘‘ یہ عجیب بات ہے کہ مغربی اقوام جو آج حقوقِ انسانی ، حق آزادی اور جمہوریت کا سہرا اپنے سر باندھے ہوئی ہیں ، نصف صدی پہلے تک انھوں نے ہی نصف دنیا سے زیادہ حصہ کو اپنا غلام بنایا تھا اور اب بھی دنیا کے بعض خطوں کو وہ اپنی نو آبادی بنائے ہوئے ہیں ، ۳۰ ؍ نومبر ۱۹۷۳ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نسل پرستی کو قانونی جرم قرار دینے کے سلسلے میں ایک قرار داد منظور کی ، تو چار ملکوں نے اس کی مخالفت کی اور حیرت کے کانوں سے سنئے کہ ان چار ملکوں میں جنوبی افریقہ اور پرتگال کے ساتھ امریکہ اور برطانیہ بھی تھے ، یہ ہیں آزادی اور انسانی حقوق کے عالمی ٹھیکیدار !
یہ ایک حقیقت ہے اور اس کا اعتراف کیا جانا چاہئے کہ خود ہمارے ملک ہندوستان میں آزادی کی لڑائی مسلمانوں نے شروع کی ، ہندوستان کی جنگ ِآزادی جو ۱۷۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک كے عرصه پر مشتمل ہے ، اس میں ۱۸۵۷ سے پهلے تك كا حصه زیادہ تر مسلمانوں ہی کی قربانی سے عبارت ہے اور اس عرصہ میں ملک کا کوئی چپہ نہیں، جس کو مسلمانوں نے اپنے خون اور لہو کا نذرانہ پیش نہ کیا ہو، جنگ آزادی کا یہ حصہ جس میں سب سے زیادہ خوں ریزی اورتباہی و بربادی ہوئی ، مسلمانوں کے مذہبی طبقہ کی قربانیوں اور فدا کاریوں کی تاریخ ہے ، سیداحمد شہیدؒ ، شاہ اسماعیل شہیدؒ ، ان کے عالی ہمت خلفاء ، علماء صادق پور ، مولانا فضل حق خیرآبادی اور کتنے ہی علماء و مشائخ ہیں جنھوں نے آزادی کی لڑائی میں جان و مال کی زبردست قربانیاں دی ہیں ۔
جو مسلمان جنگ ِآزادی میں شریک ہوئے ، ان میں غالب اکثریت علماء اور اہل دین کی تھی ، خلافت کمیٹی ، جمعیۃ علماء ہند ، مجلس احرار وغیرہ تو قائم ہی اسی مقصد کے لئے ہوئیں ، افسوس کہ لوگ ان تحریکوں کو فراموش کر گئے ، انھوں نے صرف کانگریس کو یاد رکھا ، جو محض انگریز کی خوشامد اور ہندوستانیوں اور انگریزوں کے درمیان روابط کو پروان چڑھانے کی غرض سے قائم کی گئی تھی ، ریشمی رومال تحریک اور ہندوستان کی جلاوطن حکومت میں بھی زیادہ حصہ علماء اور خصوصیت سے شیخ الہند مولانا محمود حسن اور ان کے شاگرد مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا تھا ، علماء اور مسلمانوں کے مذہبی طبقہ کی تحریک آزادی میں یہ پرجوش شرکت اور قربانی کچھ اس لئے نہیں تھی کہ ان کو آئندہ حکومت میں حصہ داری کی طمع تھی اور وہ وزارتوں میں اپنا حصہ چاہتے تھے ، انھوں نے یہ سب کچھ تحسین و تعریف کی تمنا اور عہدہ اور مال و زر کی حرص و طمع سے آزاد ہو کر صرف اللہ کو راضی کرنے کے لئے کیا تھا ؛ کیوں کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ آزادی ہر انسان کا فطری اور پیدائشی حق ہے اور کسی قوم کو غلام و محکوم بنا لینا ایک ایسا ظلم ہے کہ اس کے خلاف آواز اُٹھانا ’’ جہاد‘‘ اور اس راہ میں اپنے آپ کو قربان کرنا ’’ شہادت ‘‘ ہے ۔






