جامعہ ازہر ہند کا قیام ایک مستحسن قدم

مکرمی!

کچھ دنوں پہلے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ جامعہ ازہر ہند کے قیام کی خبریں نظرنواز ہوئیں، خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نا رہا، دل میں فرحت و انبساط کے غنچے کھل گئے اور ادارہ کے قائمین کے لئے دست بدعا ہوا کہ بارالٰہا! تو اس ادارے کو قائم کرنے والوں کے ارمانوں کو شرمندہ ¿ تعبیر فرما اور انہیں عزم و حوصلہ دے کہ جامعہ ازہر مصر کی طرح ایک عالمی شہرت یافتہ اور مثالی یونیورسٹی بناسکیں ، تاکہ ہندوستانی عوام بالخصوص مسلمانوں کا بھلا ہو اور ان کا تعلیمی گراف بلند ہو۔
ابھی اسی خوش فہمی میں تھا کہ چلو، کسی نے تو صوفی سنتوں کی دھرتی پر جامعہ ازہر ہند قائم کرنے کے بارے میں سوچا اور اس بات کے لئے پہل کی کہ تمام مسلک کے لوگوں کو مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے اور ملک و ملت اور قوم و سماج کی ترقی کے بارے میں سوچا جائے لیکن افسوس صد افسوس سوشل سائٹس پر کچھ ایسے دل فگار اور انتہائی اذیت ناک مراسلے، خبریں اور خطوط دیکھنے کو ملے کہ میری حیرت و استعجاب کی انتہاءنہ رہی۔ کچھ ہمارے ساتھیوں کو اس بات پر اعتراض ہوگیا کہ اس نومولود ادارے کا نام ازہر یونیورسٹی مصر کے نام سے کیوں موسوم کیا گیا؟
اعتراض کرنے والوں نے عموما یہ باور کرایا کہ ان کا تعلق رابطہ عالمیہ لابناءازھر ہند سے ہے۔اس رابطہ کے تعلق سے معلومات حاصل کرنے کی بہت کوششیں کیں تو میرے ایک پرانے ازہری ساتھی ملے جو ندوة العلماءلکھنو ¿ میں ہم سبق بھی رہے، ان سے معلوم ہوا کہ یہ رابطہ صرف اور صرف کاغذوں پر محدود ہے ۔زمین پر اس کا کوئی وجود نہیں۔انہوں نے اپنے رابطہ کے ایک ذمہ دار ساتھی سے بات کی تو معلوم ہواکہ اس رابطہ کا نا تو کوئی مستقل پتہ ہے اور ناہی کوئی آفس بلکہ کچھ لوگوں نے اپنے مفاد کی غرض سے اسے قائم کیا ہے اوروہ لوگ جامعہ ازہر مصر سے اسی دروازے سے اپنے مفادات کی برآوری کرتے ہیں۔
چلئے اب دیکھتے ہیں کہ کیا جامعہ ازہر مصر کو ازہر نام میں تفرد حاصل ہے۔ جب اس دعوی کی حقیقت کا پتا لگاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ سراسر جہالت اور نادانی پر مبنی ہے، کیونکہ فلسطین کے شہر غزہ میںجامعہ ازہر ایک عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹی ہے۔ راقم تحریر، اسی یونیورسٹی کا فارغ التحصیل ہے ۔اسی طرح طرابلس میں مدرسة الا زہر ہے۔جکارتہ ، انڈونیشیا میں بھی جامعة الا زہر قائم ہے ۔یہی نہیں، میں نے اپنے شہر بریلی شریف میں پڑتال شروع کی تو معلوم ہواکہ ازہر نام سے درجن بھر کتاب کی دکانیں، الازہر گارمنٹس، ڈھابہ وغیرہ کے نام ہیں،خودجس ادارہ کا میں ذمہ دار ہوں اس کا نام بھی ”الا زھر“ ہے اور ہمارے ملک ہندوستان کی سرزمین پر دو درجن سے زائد” الازہر“ نام سے ادارے قائم ہیں جیسے الازہری ایجوکیشن فاو ¿نڈیشن، ھدی الازہری، مدرسة الا زھر کیرالا وغیرہ قابل ذکر ہیں، دیگر ممالک میں تو پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں۔یہی نہیں، ہمارے پیارے ملک میں جامعة الازہر نام سے درجن بھر ایسے ادارے بھی قائم ہیں، جو جیبی ہیں اور رابطہ کی طرح ان کا زمین پر کوئی حقیقت نہیں ہے۔ میں جامعہ ازہر ہند کے ذمہ داران سے اپیل اور گزارش کروں گا کہ وہ اپنے ادارے کو جیبی نا بناکر جامعہ ازہر شریف کی طرح عالمی معیار کی یونیورسٹی بنائیں، نیز اس نام سے موسوم کرنے کے تعلق سے جامعة الازہر کے موقر شیخ الا زہر سے رجوع فرمالیں تو سونے پر سہاگا۔
مجھے نہیں معلوم کہ کہاں سے جامعة الا زہر مصر سے جامعة الازہر ہند ، نئی دہلی کو جوڑنے کی بات آئی ہے، کیونکہ جامعہ ازہر ہند نئی دہلی کا تعارفی کتابچہ میرے ہاتھوں میں ہے اور کہیں بھی اس کتابچہ میں جامعہ ازہر ہند کے ذمہ داران نے جامعہ ازہر شریف مصر سے خود کو جوڑنے کی کوشش نہیں کی ہے اور نا ہی شاخ بتایا ہے۔لہذا، حددرجہ حماقت ہوگی کہ ایک فکرہ ہم اپنے ذہن میں بنائیں اور پھر اس کی تردید کریں”ان القرین یقارن بقرینہ“۔
اس کے علاوہ جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں سیکڑوں ایسے ادارے ہیں جو ایک دوسرے کے نام سے موسوم ہیں۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ کی انتہائی معروف یونیورسٹی ہے۔اس نام سے پوری دنیا میں ہزاروں یونیورسٹیاں قائم ہیں۔ دیوبند میں بھی دار العلوم ہے، ندوة العلماءبھی دار العلوم ہے اور اگر میری یادداشت خطانہیں کررہی ہے تو جامعہ سلفیہ بنارس بھی دارالعلوم ہے، پھر جامعہ ازہر ہند کے قیام پر اس قدر ہوہلا کیوں؟یہی نہیں، مسلک اعلیٰ حضرت کی ترجمانی کے لئے ہمارے یہاں بھی جامعہ اشرفیہ ہے اور پڑوسی ملک میں بھی جامعہ اشرفیہ قائم ہے لیکن یہاں کسی قسم کے تفرد کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔
میں اپنے بارے میں بتاؤں تو مجھے فخر ہے کہ میں تصوف کے چاروں سلاسل پر اعتقاد ہی نہیں رکھتا بلکہ انہیں اپنے دل و جان میں بساتا بھی ہوں، لیکن صرف اس بنیاد پر کسی کی مخالفت کروں کہ وہ بظاہر ہمارے مسلک سے نہیں ہے، صحیح رویہ نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حقائق کو اپنے سامنے رکھیں اور کذب بیانی، دجل اور فریب کاری سے بچتے ہوئے جامعہ ازہر ہند کے نام سے قائم شدہ ادارے کا دامے درمے سخنے قدمے تعاون فرمائیں اور ہاں ، چلتے چلتے اس بات کی وضاحت انتہائی ناگزیر ہے کہ خودساختہ رپورٹوں میں انتہائی کذب و دروغ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور مکرو فریب کا سہارا لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ازہری برادری اس سے سخت نالاں ہے بلکہ کم و بیش دو درجن ازہری علمائے کرام سے ملاقات ہوئی اور سبھوں نے اس کوشش کو خوب سراہاہے۔
نازش ازہری
چیئرمین الازہری ایجوکیشنل سوسائٹی(رجسٹرڈ)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں