پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
15 جولائی 2016 کی درمیانی شب میں ترکی ٹائم کے مطابق بارہ بجتے ہی فوج نے بغاوت کی صور پھونک دی ،انقرہ میں فوجی طیارے اڑان بھرنے لگے ،ایشاء اور یورپ کو جوڑنے والے تاریخی باسفورس اور سلطان فاتح میہمنت پل بند کردیئے گئے ، انقرہ اور استنبول کی سڑکوں پر ٹینک اتار دیئے گئے ،استنبول کا اتاترک ایئر پورٹ ٹینکوں کا مرکز بن گیا، تمام پروازیں منسوخ کردی گئیں ،فوج جسٹس اینڈ ڈیوپلیمنٹ پارٹی کے دفتر میں داخل ہوگئی،پولس اسپیشل فوج ہیڈ کوارٹر اور پولس ایئر فورس ہیڈ کوارٹر پر فائرنگ کی گئی، باغیوں نے ترک پارلیمنٹ پر بھی بمباری شروع کردی ،صدارتی محل پربھی بم برسائے گئے ،جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیرمین ہولو اکر کو ان کے ہی سیکوریٹی دستے کے ذریعہ اغواکرالیاگیا، ایک بجے کے قریب فوج انقرہ میں واقع ترکی سرکاری میڈیا ہاؤس میں داخل ہوگئی جہاں بندوق کی نوک پر اینکر تیجن کراس کو یہ بیان پڑھنے پر مجبو رکیاگیا کہ ’’ترکی میں مارشل لاء اور کرفیو نافذ کردیا گیا ہے،ملک اب ایک امن کونسل کے تحت چلایا جا رہا ہے جو امنِ عامہ کو متاثر نہیں ہونے دے گی، موجودہ حکومت کی جانب سے ترکی کے جمہوری اور سیکولر قوانین کو نقصان پہنچایا گیاتھا اس لئے اسے برطرف کردیاگیاہے، جلد از جلد نیا آئین تیار کیا جائے گا،تمام شہریوں کی حفاظت کی جائے گی اور دنیا بھر کے ممالک سے تعلقا ت حسب سابق برقرار رہیں گے‘‘۔اس خبر کے نشر ہوتے ہی دنیا بھر میں ہنگامہ برپا ہوگیا ،مغربی میڈیا نے ترکی میں باغیوں کی فتح کا اعلان کردیا،بہت سے ممالک نے باغی حکومت کو مبارکباد کا پیغام بھی بھیج دیا ،اردگان حکومت کی خامیوں پر تبصرہ کا سلسلہ شروع ہوگیا، ترکی کی 95 سالہ تاریخ میں ایک نیا موڑ آگیا ،دنیا انگشت بدنداں رہ گئی لیکن اس کے بعد غیر متوقع طور پر جو کچھ ہوا اس نے اردگان کے مخالفوں کی نیند یں حرام کردی ،شرپسند عناصر کے ہوش وحواس اڑ گئے ،ارباب اقتدار ترکی کی سڑکوں پر عوام کے جم غفیر کو دیکھ حیران وششدر رہ گئے ۔
ان دنوں اردگان ترکی کے جنوب مغربی علاقے میں اپنی چھٹیا ں گزارہے تھے ،مرمریس ہوٹل میں ان کا قیام تھا ، جیسے ہی بغاوت کی اطلاع ملی انہوں نے عوام سے تعاون کی اپیل کی ،تقریبا ایک بجے فیس ٹائم سوشل میڈیا ایپ کا استعمال کرتے ہوئے ترکی کی عوام سے سڑکوں پر نکلنے کی کی گزارش کی اوریہ تاریخی جملہ کہا ’’عوام کی طاقت سے بڑھ کر کوئی اور طاقت نہیں ہے‘‘ ،سی این این چینل نے اسے نشر کیا اور یوں اردگان کی ایک پکار پر پورے ملک میں لاکھوں کا مجمع سڑکوں پر نکل گیا ،عوام نے ٹینکوں کا مقابلہ کیا ، ہتھیا رسے لیس افواج کا نہتے شہریوں نے دندان شکن جوا ب دیا ،وزیر اعظم علی بن یلدرم نے لوکل ٹی وی پر لائیوآکر کئی مرتبہ بیان دیا کہ باغی کچل دیئے جائیں گے ،حکومت اور اقتدار پر کسی کا قبضہ نہیں ہواہے ،انقرہ کے میئرمیہلن گوکیک نے بھی عوام کے جذبات کو ابھارنے میں خصوصی کردار اداکیا ،اسی دوران اردگان خصوصی طیارہ سے استنبول کیلئے روانہ ہوگئے ، وہ ایئر پورٹ جسے باغیوں نے اپنے قبضہ میں لے لیاتھا اسی پر ان کے حامیوں نے ان کا استقبال کیا ،چار بجے ہزاروں شہریوں کے درمیان ٹی وی چینل کے ذریعہ ذریعہ قوم سے خطاب کیا ،ادھر باغیوں نے چار بجے مرمریس ہوٹل پر زبردست بمباری کرکے اردگان کو مارنے کی کوشش کی ،سی این ایس کے دفتر پر حملہ کرکے نشریات بند کرنے کا مطالبہ کیا لیکن ان تمام سازشوں کے باوجود بغاوت کی سازش ناکام ثابت ہوئی ، صبح ہوتے ہوتے ترکی کا نقشہ بد ل گیا ،باسفور س پل پر عوام کے محاصرہ کے سامنے فو ج نے ہتھیا ڈال کر جان کی پناہ مانگنی شروع کردی ،استنبول میں ایئر پورٹ پر ساڑھ چھ بجے اردگان نے لاکھوں کے مجمع سے براہ راست خطا ب کرکے اس بغاوت کیلئے امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولن کو ذمہ دار ٹھہرایااور ملک کی حفاظت کیلئے ملک کی عوام کا شکریہ ادا کیا ،اس ناکام بغاوت میں 241 شہری شہید ہوئے جبکہ 2194 زخمی ہوئے ۔
ترکی میں پیش آمدہ یہ فوجی بغاوت کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا،یہ کوی اتفاقی امر نہیں تھا ،کئی طاقتوں کی اسے پشت پناہی حاصل تھی ،ترکی کے بڑھتے قدم کو روکنے کیلئے یہ ایک منظم منصوبہ بندی کی گئی تھی جس میں ترک افواج کے اعلی قائد ین ،ججز ،یونیورسٹیز کے سربراہان سمیت تمام شعبوں میں اعلی عہدوں پر فائز افراد شریک تھے لیکن عوام کی اپنے قائدین سے سچی محبت ،اردگان کی مخلصانہ قیادت اور اہل ترک کی ایمانی فراست کے سامنے دشمنوں کی یہ سازش کامیاب نہیں ہوسکی ،ترکی میں پیش آمدہ اس تاریخی بغاوت پر دنیا نے کوئی خاص توجہ نہیں دی ،جمہوریت اور سیکولرزم کے علمبر دار ممالک نے اس بغاوت پرکوئی خاص افسوس کا اظہار نہیں کیا ،انہوں نے ترکی کی حکومت سے اظہار یکجہتی کا وہ انداز نہیں اپنایا جو دنیا میں کسی اور ملک کے ساتھ کیا جاتاہے بلکہ پس پردہ وہ وہ ممالک باغیوں کی حمایت کرتے نظر آئے ،حقوقی انسانی کے علمبرداروں نے باغیوں کی دی جانے والی سزا پر ردعمل ظاہر کیا لیکن ان کی سازشوں پر انہوں نے لب کشائی نہیں کی ،تاہم طیب اردگان نے اس کو عالمی مسئلہ بنانے پر مکمل توجہ مرکوز رکھی ،وہ دنیا کے سامنے یہ باورکرانے میں کامیاب رہے کہ 15 جولائی ترکی کی تاریخ میں ایک ٹرننگ پوائنٹ کی حیثیت رکھتاہے جس میں فوج نے بغاوت کی لیکن عوام کی طاقت نے اسے ناکام بنادیا اور دنیاکے کسی بھی ملک میں ایسا پہلی مرتبہ کوئی واقعہ پیش آیا ۔
اس واقعہ کے ایک سال مکمل ہونے پر ترکی میں تاریخ ساز پانچ روزہ جشن کا انعقاد کیا گیاہے ،باسفوس پل کو ان شہیدوں کو نام کردیاگیا ہے جس کا شہریوں نے محاصرہ کرکے باغی فوجی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیاتھااورملک کی خاطر ٹینکوں کے سامنے سوکر اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیاتھا ،صدارتی کمپلیکس کے بالکل سامنے صدررجب طیب اردگان نے یاد گارشہدا ء کے نام سے انتہائی خوبصورت ،دیدہ زیب اور پرکشش مینارہ تعمیر کیا ہے جس پر شہیدوں کے مجسمے نصب ہیں اور سب سے بلندی پر ترکی کے پرچم کی علامت ہلال ان کی شہادت کی گواہی دے رہاہے ،اس کا افتتاح عمل میں آچکاہے اور اس کا بے مثال حسن دعوت نظارہ پیش کرتاہے،پورے ترکی میں د و دنوں تک ٹرانسپورٹ کا فری نظام تھا ،اس کے علاوہ کمیونیکیشن کمپنیاں نے بھی فری سروس مہیا کررکھی تھی، 15جولائی 2017 کی شب میں عین اسی وقت ترک صدر طیب اردگان نے باسفورس پل پر قوم سے خطاب کرنا شروع کیا جس وقت 15 جولائی 2016 کو بغاوت کا سلسلہ شروع ہواتھا ،آپ بھی ملاحظہ فرمائیں 15 جولائی 2017 کی شب میں باسفورس پل پر کی گئی اردگان کی تقریر کا ایک اقتباس:
میرے ہم وطنوں،میرے بھائیوں ،میری بہنوں ،بزرگوں ،شہر کے چارو اطراف سے شہدا کے پل پر اکھٹے ہو کر ، ہمارے اس پروگرام میں شرکت کرنے والے استنبول کے محترم غازیو !
15 جولائی کی ناکام بغاوت کے پہلے سال کے موقع پر ترکی کے تمام اطراف سے اس یاد گار پل پر تاحدِ نگاہ جم غفیر کی تعداد میں یکجا ہونے والے میری عزیز قوم اور عوام ، میں آپ سب کو دل کی گہرائیوں، محبت اور احترام بھرا سلام پیش کرتا ہوں۔ہر سال 15 جولائی کو یاد کرنا ہمیں ہمارے شہدائے قوم کی یاد منانے اور ان کے اہل خانہ کے غم میں شریک ہونے کے علاوہ غازیوں سے اظہار تشکر کا ایک وسیلہ بنے گا اور ہمیں اس بات کا احساس دلائے گا کہ وطن عزیز کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان سے کیسے نبرد آزما ہونا چاہیئے۔ ہم لوگ زندہ ، سلامت، شان و شوکت سے ترک ملت ہونے کے ناتے اپنے خطے میں اور دنیا میں اپنے بہترین مستقبل کے متمنی ہیں۔آج کے بعد ویسا کچھ نہیں ہوگا جیسا 15 جولائی سے پہلے ہوتا تھا، قوموں اور ریاستوں کی تاریخ میں اہم ٹرننگ پوائنٹ آتے ہیں جو ان کی مستقبل سازی کرتے ہیں، 15 جولائی ترکی کے لیے ایسی ہی ایک تاریخ تھی،ہمیں دہشت گرد تنظیمیں، بزدلانہ حملے اور کسی کا آلہ کار بن کر جھکنے پر مجبور نہیں کرسکتی ہے،ہمارے پیچھے ہمارا ماضی پوشیدہ ہے ہماری سینکڑوں سالہ مملکت کی روایات موجود ہیں،صدرارتی محل کے لوگو میں ایک ستارہ اس روایات کی عکاسی کرتا ہے،ہماری 1400 سالہ لاثانی تہذیب ہمیں تقویت بخشتی ہے ، ہماری پیدائش کے وقت ہمارے کانوں میں دی جانے والی اذانوں کی آواز ، وفات کے وقت پڑھا جانے والا درودو شریف ، ہماری زندگی کے تمام اوقات ہماری اپنی ممتازثقافت کی عکاسی کرتے ہیں۔وہ منظر یاد کرکے میری آنکھوں سے آنسوں روا ہورہے ہیں کہ صرف تین چار میٹر کے فاصلے پر گولی گرنے کی نوجوانوں کو پرواہ نہیں تھی ،جب کچھ غدار ان سے کہ رہے تھے کہ ’’واپس آجاؤ ورنہ مارے جاؤگے ‘‘تو انہیں یہ نوجوان ان نعروں کے ساتھ جواب دیکر خاموش کررہے تھے کہ کہ ’’اگر آج نہیں مریں گے تو پھرکب‘‘ ،ایسی قوم کے پاؤں میں بھلا کون زنجیر ڈال سکتا ہے؟اے کاش، اِس پل کی زبان ہوتی ، اس رات یہاں پر دکھائے جانے والے بہادری کے جوہر آپ کو سنانے کی اسے قدرت ہوتی ،کاش کہ اس رات شہیدوں کے خون سے رنگین ہونے والی مٹی ، پتھر اورسمندر کے پاس قوت گویائی ہوتی اور بتاتی کہ بہادری کیا ہوتی ہے، پوری دنیا کوان نوجوانوں کے ایمانی حرارت سے آگاہ کرتی۔ہم 15 جولائی کو نہ بھولیں گے نہ بھولنے دیں گے یہ ہمارا اٹل فیصلہ ہے،ہمارے ملک و حکومت کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، 250 شہری شہید ہو چکے ہیں اور 2 ہزار 193 غازی ہیں ، ہم ہنگامی حالات کا اعلان کرنے کے لئے کسی سے اجازت نہیں لیں گے،15 جولائی کی رات اس ہلال اور سرخ پرچم کی خاطر غروب ہونے والے تمام سورج ، تمام شہدا کے لیے اللہ تعالی سے مغفرت کی دعا کرتا ہوں،اس رات زخمی ہو کر بھی اپنے زخمو کی پراہ نہ کرنے والے تمام انسانوں کا شکر گزار ہوں، ان تمام ماؤں کی خدمت میں ہدیہ تشکر پیش کرتاہوں جنہوں نے وطن کی محبت کے جذبہ سے سرشا ر اولاد کو جنم دیا،آزادی، اذان، پرچم، وطن مملکت اور مستقبل کا خیال رکنے والی تمام قوم کے ایک ایک فرد کا احسان شناس ہوں ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com