پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
میری ماں اور بہن پہاڑوں میں چھپ کررہ رہی ہیں،دن میں وہ باہر نہیں نکل سکتی ہیں ،رات کی تاریکی میں وہ غار سے باہر آکر کچھ راحت کی سانس لے لیتی ہیں لیکن سورج کی کرن نکلنے سے پہلے ہی وہ واپس غار میں چلی جاتی ہیں،ایک ہفتہ سے انہیں کھانے کیلئے ایک لقمہ بھی میسر نہیں ہوسکاہے ،وہ وہاں سے نکل کر بنگلہ دیش جانا چاہتی ہیں ،لیکن اس پہاڑی سے آگے کچھ ہی دور کے فاصلے پر پولس چوکی موجود ہے ،وہ اگر دن کی روشنی میں پہاڑسے باہر نکلیں گی تو پولس اور فوج نظر پڑتے ہی میری ماں کی نگاہوں کے سامنے میری بہن کا ریپ کربیٹھے گی ۔۔۔ان کی عزت لوٹ لے گی اور پھر میری بہن کو زندہ ذبح کرد یاجائے یا گولیوں سے بھون دیا جائے گا ۔۔۔میری ماں کو بھی زندہ نہیں بخشا جائے گا بلکہ ان کے ساتھ اور برا حشرا ہوگا ۔میرے والد کو آج سے آٹھ سال قبل فوج نے میری نگاہوں کے سامنے زندہ قتل کردیاتھا،اس منظر کے بعدمیرے ہوش وحواس اڑگئے ،میرے اندر وہاں رہنے کی ہمت نہیں ہوسکی اور پھر کچھ دوستوں کی مدد سے ماں بہن کو بے یا رومدد گا چھوڑ کر آج سے 6 سال قبل بھٹکتا بھٹکتا کسی طرح ہندوستان پہونچ گیا ،جہاں قدم رکھنے کے بعد مجھے کچھ سکون ملا اور دہلی کے اس علاقے میں آکر ٹھہر گیا لیکن آج پھر خوف اور دہشت نے چاروں طرف سے مجھے گھیر لیاہے کیوں کہ یہاں کی مودی سرکار نے یہ اعلان کردیاہے کہ روہنگیا کوان کے وطن واپس میانمار بھیج دیا جائے گا، میری نگاہوں کے سامنے میری باپ کے وحشیانہ قتل کا واقعہ ہے ،گاؤں اور محلے کی عورتوں پر ہوئے ظلم اور ان کے ساتھ کی گئی عصمت دری کے خوفناک مناظر ہیں،مودی سرکار سے میری اپیل ہے کہ وہ مجھے یہیں مارد ے ،کسی جیل میں ڈال دے ،سمندر میں پھینک د ے ،زہر کھلادے لیکن خدا کے واسطے وہ مجھے دوبارہ میانمار نہ بھیجے ،جہاں جانے کے بعد مجھے زندہ جلادیا جائے گا،میری نگاہوں کے سامنے میری ماں ،بہن او ررشتہ داروں کی عصمت دری کی جائے گی ،جہاں مجھ سے کام کرایا جائے گا اور معاوضہ نہیں دیا جائے گا ،جہاں زندگی جینے کا حق مجھ سے چھین لیا جائے گا ۔خدا کے واسطے مجھ پر رحم کرو ،ترس کھاؤ ،ہم بھی انسان ہیں،ہمیں بھی جینے کا حق ہے ۔
یہ کوئی فرضی افسانہ اور کسی ناول کا اقتباس نہیں بلکہ میانمار سے ہجرت کرکے آج سے پانچ سال قبل ہندوستان آئے محمد نور کی حقیقی کہانی ہے جو اوکھلامیں کالندی کنج کے پاس مقیم ہیں ۔اس طر ح کی ایک نہیں بلکہ لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی خوفناک اور رونگتے کھڑے کردینی والی داستان ہے ، ایک اور مہاجر محمد شاکر نے بتایاکہ ان کے پاس 37ایکڑ زمین تھی ،شاندار مکان تھا،پورے علاقے میں ہماری خاندانی شرافت اور دولت کا شہر ہ تھا،1975 کے زمانے میں اچانک ایک دن پولس آئی اور گھرمیں آگ لگادیا ،تمام زمین و جائیداد پر قبضہ کرلیا اور گرجتے ہوئے کہاکہ تم لوگ ابھی اور اسی وقت یہاں سے نکل جاؤ ورنہ ایک ایک کرکے ماردیئے جاؤ گے ،اس کے بعد ہم لوگوں نے ایک پہاڑ کے دامن میں جاکر پناہ لی ،پھر جسے جہاں موقع ملا نکل گئے ،بڑی مشکلوں اور مشقتوں کے بعد 2010 میں سرحد عبورکرکے میں نے ہندوستان میں قدم رکھا ،مجھے نہیں معلوم کہ میرے ماں باپ ،بھائی بہن اور فیملی کے لوگ آج کہاں ہیں ،کس حال میں ہیں ،زندہ ہیں پھر اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں ۔
مشترکہ طور پر روہنگیا مسلمانوں کا یہی کہناہے کہ ہم پر ظلم کی انتہاء ہوچکی ہے ،روہنگیا تاریخ کی مظلوم ترین قوم بن چکی ہے ، گزشتہ ستر سالوں سے ہم ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ہیں،میانمار سے برٹش حکومت کے خاتمہ کے فورا بعداکثریتی مذہب بدھ ازم کے پیروکاروں نے مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا،حکومت نے مسلم نسل کشی پر عمل در آمد شروع کردی ،1962 میں فوجی حکومت آنے کے بعد مسلمانوں سے حق شہریت چھین لیاگیا ،شہری حقوق ،حصول تعلیم ،سرکاری اسکمیوں سے استفادہ ،آمد ورفت ،شادی بیاہ ،ملازمت ،تجارت سمیت تمام امور کیلئے ایک کارڈ جاری کیا گیا اور روہنگیا کیلئے اس کارڈ کو جاری کرنے پر پابندی لگادی گئی جس کی بنیاد پر روہنگیا تمام تر شہری حقوق سے محروم ہوگئے ،1982 میں پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کرکے یہ فیصلہ سنادیاگیا کہ1883 کے بعد میانمار آنے والے کسی بھی شخص کو یہاں کی شہریت نہیں دی جائے گی ،صوبہ راکھین کے تمام مسلمان 1883 کے بعد آئے ہیں، یہ سبھی بنگلہ دیش اور دیگر خطوں اصلی باشندے ہیں ،وہ یہ ملک چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں ، انہیں شہری حقوق نہیں ملیں گے ،سلسلہ یہیں پر نہیں رکا بلکہ اس کے بعد قتل وغارت گری شروع کرد ی گئی،فوج نے جب چاہا مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگادیا،خواتین کے ساتھ عصمت دری کرلی،ماں ،باپ اور پورے خاندا ن کے سامنے جو لڑکی سب سے خوبصورت نظرآئی برہنہ کرکے اس کی اجتماعی عصمت دری شروع کردی،بوڑھوں ،نوجوانوں اور بچوں کو موت کے گھات اٹار دیا ۔ رپوٹ کے مطابق اب تک تین لاکھ روہنگیا مسلمانوں کا قتل ہوچکا ہے ،ہزاروں بستیاں نذر آتش کی جاچکی ہیں،کئی کیلومیٹر کا علاقہ چٹیل میدان میں تبدیل کردیاگیاہے ،گاؤں کا گاؤں جلاکر خاکستر کردیاگیاہے ،گذشتہ 25 اگست 2017 کے بعد ایک مرتبہ پھر وہاں موجود مسلمانوں کا بے دریغ قتل شروع ہوگیا ہے ،اوکھلا میں موجود روہنگیا کے مطابق فوج اور پولس مختلف بہانہ لگاکر اور الزام عائد کرکے مسلمانوں کو قتل کرتی رہتی ہے ،25 اگست کو بھی اسی طرح پولس چوکی پر حملہ کا ڈرامہ کرکے مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا گیا ،اب تک پانچ ہزار سے زائد لوگوں کا قتل ہوگیا ہے ،26 سو گاؤں جلادیئے گئے ہیں،پانچ لاکھ لوگ بنگلہ دیش جاچکے ہیں ،رپوٹ میں ایک لاکھ بتایاجارہاہے میرے مطابق پانچ لاکھ سے زائد ہیں، ان روہنگیا مسلمانوں کا کہناہے کہ بڈھسٹ اور وہاں کی فوج صرف مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنارہی ہے بلکہ روہنگیا نسل سے تعلق رکھنے والے 0.5 فیصد ہندوبھی ان کے نشانے پر ہیں،90 سے زائد ہندو بھا مارے گئے ہیں،بنگلہ دیش جانے والے مہاجرین میں 500 سے زائد ہندو بھائی بھی شامل ہیں ۔ راکھین صوبہ کی مساجد اور مدارس پر تالے لگادئے گئے ہیں،بہت ساری مسجدوں کو بھی آگ لگادیاگیاہے ،قرآن کریم کی بے حرمتی کی جاتی ہے ۔ وہاں کی میڈیا کبھی بھی بڈھسٹ دہشت گردی کو نہیں دکھاتی ہے ،بین الاقوامی میڈیا کی آمد پر پابندی ہے ، اب انٹر نیٹ آنے کے بعد وہاں کے مظالم کی کچھ ویڈیوز اور تصویریں وائرل ہونے لگی ہیں لیکن گذشتہ ستر سالوں سے وہاں کی یہی صورت حال ہے ،موبائل بھی بہت کم لوگوں کے پاس ہے ،بہت سے مسلم گاؤں میں بجلی تک کی سہولت نہیں ہے ۔ہندوستان میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کو انڈین میڈیا سے بھی شدید شکایت ہے ،چالیس ہزار روہنگیا کو ہندوستان سے واپس میانمار بھیجنے کے مرکزی حکومت کے اعلان کے بعد کل سے جب میڈیا والوں کی آمد کا یہاں سلسلہ شروع ہواہے تو یہ لوگ ان سے بات کرنے سے یہ کہتے ہوئے کترارہے ہیں کہ یہاں کی میڈیا میانمار میں جاری مظالم اورتشدد کو نہیں دکھاتی ہے ،وہاں کی صورت حال کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتی ہے ۔
ان لوگوں کا مانناہے کہ ہم میانمار کے حقیقی شہری ہیں، تقریباً نویں صدی عیسوی میں ہی ہمارے آباؤ اجداد نے اسلام قبو ل کیاتھا اور تب سے ہم وہاں رہتے ہوئے آرہے ہیں،محض مسلمان ہونے کی بنا پر بدھ مذہب کے لوگ ہمیں اس دھرتی سے ختم کرنا چاہتے ہیں،ہمارا جرم صرف یہ ہے کہ ہم اسلام کے پیرو کار ہیں،عالمی اداروں ،اقوام متحدہ اور مسلم حکمرانوں نے کبھی ہمارے مسائل پر توجہ نہیں دی ،ہم چاہتے ہیں کہ میانمار میں ہمیں ایک شہری کا درجہ دیا جائے ،کسی طرح کی تفریق برتے بغیر ہمیں تمام حقوق دیئے جائیں یا پھر دنیا کے کسی بھی خطے میں ہماری رہائش کاانتظام کیا جائے ۔
سچائی یہی ہے کہ روہنگیا اس وقت دنیا کی سب سے مظلوم قوم ہے ،میانمار حکومت نے مسلم نسل کشی کی نئی تاریخ رقم کردی ہے ،بڈھسٹ مذہب کے پیر کا روں اور نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوکی( اسٹیٹ کاؤنسلر آف میانمار) نے دہشت گردی کی انتہاء کردی ہے اور ان سب کیلئے سب سے زیادہ ذمہ دار اقوام متحدہ اور عالمی حقوق انسانی کا ادارہ ہے ،آج دنیا کے مختلف خطے میں روہنگیا کیلئے ریلیف جمع کئے جارہے ہیں،پیسوں کے ذریعہ مدد کرنے کی اپیل ہورہی ہے یا پھر انہیں وہاں سے منتقل کرنے کی کوشش ہورہی ہے لیکن یہ روہنگیا مسائل کا حل نہیں ہے اور نہ ہی اس سے روہنگیا کی پریشانیاں کم ہوسکتی ہیں،اقوام متحدہ او رعالمی ادارہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مکمل طور پر مداخلت کرے ،میانمار کے 5 فیصد مسلمانوں کو حق شہریت دلائے ،ان کی قومیت کو تسلیم کرائے ، ان کی زمین انہیں واپس دی جائے ، اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ یہ سب 1883 کے بعد آئے ہیں توبھی 160 سالوں کا عرصہ کم نہیں ہوتا ہے کسی ملک کی شہریت کے حصول کیلئے۔
لیبیا ،افغانستان اور عراق میں تشدد کے خاتمہ کیلئے ناٹو کی فوج اتاری جاسکتی ہے ،معمر قذافی ،صدام حسین اور ملا عمر جیسے حکمرانوں کا خاتمہ کیا جاسکتاہے تو پھر میانمار میں کیوں نہیں ؟ کیا رکاٹ ہے وہاں ناٹو افواج اتارنے میں؟ ،ستر سالوں سے جاری تشدد کے تئیں اقوام متحدہ ،امریکہ اور عالمی طاقتیں کیوں فکر مند نہیں ہے ؟بڈھسٹ دہشت گردی پر کیوں لگام نہیں لگائی جارہی ہے ؟اور ان سب سے زیادہ ذمہ دار دنیا بھر کے مسلم حکمراں ہیں جن کی تلواریں رقص وسرور کی محفلوں کی زینت بن گئی ہیں ،جن کی فوجیں اور جنگی طاقتیں اپنوں کی مدد کی بجائے انہیں کی تباہی کا سبب بن رہی ہیں ،مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے کی انہیں جرات ، ہمت اور توفیق نہیں ہوپاتی ہے ،مسئلہ روہنگیا کی شہریت کا ہے اور انہیں شہری حقوق دلانا ،واپس میانمار بھیجنا پور ی دنیا کی ذمہ داری ہے ۔اگر یہ نہیں ہواتو کل ہوکر کوئی اور ملک کہے گاکہ فلاں مذہب کے ماننے والے فلاں صدی میں آئے ہیں ہم انہیں حق شہریت نہیں دیں گے اور دنیا کی تاریخ میں ظلم وستم کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqsmi@gmail.com