میانمار کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف پورا ہندوستان سراپا احتجاج،علماء ،دانشوران اور طلبہ کا سفارت خانہ کے سامنے مظاہر ہ، روہنگیا پر مظالم بند کرنے کا مطالبہ 

نئی دہلی(ملت ٹائمز)
میانمار میں ہورہی سرکاری دہشت گردی اور آاکان میں روہنگیا مسلمانوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف آج دہلی کے تین مورتی مارگ سے کم و بیش 1500 لوگوں کا ہجوم میانمار سفارتخانہ پہنچا۔ کئی ملی و سماجی تنظیموں کی ایما پر حکومت میانمار کے خلاف صدا بلند کرنے کے لیے پوری دہلی کے الگ الگ علاقوں سے لوگوں کا ہجوم تین مورتی چوراہے پر جمع ہوا جہاں سے چانکیہ پوری واقع میانمار سفارتخانہ کی جانب ریلی کی شکل میں بڑھا۔ جماعت اسلامی ہند، آئی یو ایم ایل اور آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت جیسی ملی و سماجی تنظیموں کی کوششوں اور جواہر لعل نہرویونیورسٹی و دہلی یونیورسٹی جیسے تعلیمی اداروں کے پروفیسر و ریسرچ اسکالرس کی موجودگی میں آج کے احتجاجی مظاہرہ نے ثابت کر دیا کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے جب متحد ہو جائیں تو حکومت وقت ان کی باتوں کو اَن سنا نہیں کر سکتی۔آج ہوئے اس عظیم الشان مظاہرے میں کسی تنظیم کا بینر تو موجود نہیں تھا لیکن ان کے کارکنان پوری طرح سرگرم تھے۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں ’روہنگیا مسلمانوں پر تشدد بند کرو‘ اور ’آئی ایم روہنگیا‘ جیسے بینر نظر آ رہے تھے۔ پورا علاقہ روہنگیا کے حق میں لگائے جا رہے نعروں سے گونج رہا تھا۔ اس مظاہرہ میں خواتین نے بھی اپنی موجودگی درج کرائی اور معصوم بچوں، ضعیفوں و خواتین کے ساتھ بربریت والا سلوک بند کرنے کی میانمار حکومت سے اپیل کی۔ ذرائع کے مطابق کچھ مظاہرین تو چانکیہ پوری پہنچ بھی نہیں پائے کیونکہ وہ راستے میں ہی پھنس گئے۔ مظاہرین کو لے کر اوکھلا سے چلی کچھ بسوں کو بھی پولس کے ذریعہ نظام الدین میں روک لیا گیا۔ اس عمل سے لوگ کافی ناراض بھی ہوئے اور نعرہ بازی شروع کر دی جس سے وہاں ٹریفک جام ہو گیا۔ جام ختم کرنے کے لیے پولس کو کافی مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
بہر حال، چانکیہ پوری واقع میانمار سفارتخانہ پر ملی و سماجی کارکنان نے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے برما کے مسلمانوں پر تشدد کو ناقابل فراموش قرار دیا اور عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ہندوستان سے بھی سخت قدم اٹھانے کی اپیل کی۔ اس موقع پر دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر منوج جھا نے روہنگیا مسلمانوں سے متعلق حکومت ہند کی پالیسیوں کی تنقید کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’آج آپ ایسا کر کے دو چار سیٹیں زیادہ حاصل کر سکتے ہیں، ہمیشہ ایسا نہیں چل سکتا۔ حکومتیں آتی ہیں، جاتی ہیں۔ آج دہلی یونیورسٹی کے نتیجہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ آپ بہت جلد جاو? گے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’روہنگیا پر حکومت ہند نے جو پالیسی اختیار کی ہے اس سے مجھے احساس ہوا کہ اب یہ’باپو‘ کا دیس نہیں رہا۔‘‘ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے اس موقع پر کہا کہ ’’ہندوستان سمیت روہنگیا کے مہاجروں کو ہر ملک میں پناہ ملنی چاہیے۔ ان کے خلاف جس طرح کی وحشیانہ کارروائی ہو رہی ہے وہ انسانیت سوز ہے۔‘‘شاہین باغ، مرکز جماعت اسلامی ہند، ذاکر نگر، نبی کریم، جہانگیر پوری، اتم نگر، سلطان پوری، رنجیت نگر، لونی، چاند باغ، خوریجی، جنتا کالونی، رمیش پارک وغیرہ علاقوں سے میانمار سفارتخانہ پر جمع ہوئے مظاہرین میں متعدد معروف و مشہور ہستیاں بھی تھیں۔ جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری جنرل انجینئر محمد سلیم، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طلبا لیڈر شہلا راشد اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند جیسی شخصیتوں نے اس موقع پر اپنے خطاب کے ذریعہ لوگوں کو بیدار ہونے کی تلقین کی اور حکومت وقت سے ضروری قدم اٹھانے کی اپیل بھی کی۔ مظاہرے میں کئی ضعیف العمر اشخاص نے بھی شرکت کی جن میں سے ایک ضعیف العمر احتجاجی نے ’قومی آواز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جس طرح کا تشدد ہو رہا ہے وہ ہمارے لیے آنکھیں کھولنے والا ہے۔ اس وقت جب کہ نام نہاد جمہوری اور انصاف پسند ممالک بھی میانمار میں ہو رہے مظالم پر خاموش تماشائی ہیں،اگر ہم نے اتحاد کا مظاہرہ نہیں کیا تو جلد ہی ہماری باری بھی آ جائے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ مسلم مخالف قوتوں کو پست کرنا ہے تو ہمیں آگے بڑھنا ہی ہوگا، ان کے خلاف آواز بلند کرنی ہی پڑے گی۔۔