انقرہ۔یکم اپریل(ایجنسیاں)
ترکی نے فرانس کو تنبیہ کی ہے کہ وہ شام میں فوجی موجودگی بڑھانے سے خبردار رہے۔ انقرہ حکومت کے مطابق اگر فرانس نے شام میں اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھائی تو اسے ’مداخلت‘ سمجھا جائے گا۔
ترک وزیر دفاع نور الدین جنیکلے کے مطابق، ’’اگر فرانس نے شمالی شام میں اپنے فوجیوں کو بھیجنے کا کوئی بھی فیصلہ کیا، تو وہ غیر قانونی ہو گا اور ساتھ ہی بین الاقوامی قوانین کے منافی بھی ہو گا۔ لیکن اصل میں یہ ’دست درازی‘ (یا عسکری مداخلت) ہو گی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ خاص طور پر اگر فرانس نے دہشت گرد عناصر کی اپنے فوجیوں کے ذریعے براہ راست یا بالواسطہ مدد کرنے کی کوشش کی تو یہ ایک تباہ کن اقدام ہو گا۔
ترکی اور فرانس کے باہمی روابط میں پہلے سے موجود کشیدگی جمعرات کو اس وقت مزید شدت اختیار کر گئی، جب فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے سیریئن ڈیموکریٹک فورسز ( ایس ڈی ایف) کے وفد سے ملاقات کی۔ ایس ڈی ایف کرد اور عرب جنگجوؤں پر مشتمل ہے۔کرد ذرائع نے بتایا کہ اس ملاقات کے بعد فرانس اپنے دستے شمالی شامی شہر منبج بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ علاقہ کرد جنجگو تنظیم ’ وائی پی جی‘ کے زیر انتظام ہے۔ تاہم بعد ازاں پیرس حکام نے اس خبر کی تردید کر دی۔
ترکی ’وائی پی جی‘ کو دہشت گرد گروہ قرار دیتے ہوئے اسے کلعدم کرد تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ’ پی کے کے‘ کا ایک بازو قرار دیتا ہے۔ پی کے کے گزشتہ تین دہائیوں سے ترکی میں عسکریت پسندانہ کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اسے ترکی اور اس کے مغربی حلیفوں نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔
ترکی نے خود بھی رواں برس جنوری سے شمالی شام کے عفرین نامی علاقے میں ’وائی پی جی‘ کے خلاف عسکری کارروائی شروع کی تھی۔جس میں 18مارچ کو مکمل طور پر کامیابی بھی مل گئی تھی اور عفرین کا علاقہ ترکی کے زیر انتظام ہے۔





