مدہوبنی: (نمائندہ) رمضان کے مبارک ایام یقیناً ختم ہوچکے ہیں، لیکن اللہ کے بہت سے احکام اب بھی باقی ہیں، نماز کی فرضیت رمضان میں بھی تھی اور اِس وقت بھی اس کی فرضیت باقی ہے، چغلی خوری اور جھوٹ و مکاری سے بچنا پہلے بھی ضروری تھا اور اب بھی ضروری ہے، پڑوسی کے حقوق کی رعایت رمضان میں واجب تھی اور اب بھی واجب ہے، بےحیائی اور فحاشی سے دور رہنا پہلے بھی فرض تھا اور اور آج بھی فرض ہے، مساجد کی آبادکاری جس طرح رمضان میں ضروری تھی اسی طرح آج بھی ضروری ہے ہے، زبان پر لگام پہلے بھی ہم پر واجب تھا اور عید کے بعد بھی، ناحق قتل و غارت گری اور ظلم و ستم سے رمضان میں ہمارے لئے بچنا ضروری تھا اور رمضان کے بعد بھی غرض یہ کہ رمضان اور غیر رمضان میں ان ساری چیزوں میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ رمضان میں تو ہر اوامر کی پابندی ہوتی ہے اور ہر گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے لیکن عید کا چاند دیکھنے ہی مسجدیں خالی نظر آتی ہیں، ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں فحاشی اور عریانیت میں مشغول ہوجاتی ہیں ان خیالات کا اظہار معروف صاحبِ قلم مولانا عمرفاروق قاسمی نے دملہ کی عید گاہ میں نماز عید سے قبل اپنے خطاب میں کیا. انہوں نے کہا کہ فی نفسہ کسی مہینے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، رمضان کی اہمیت اگر ہے تو صرف اس بنیاد پر کہ اللہ نے اس میں مختلف قسم کے احکام واجب کئے۔ اللہ کے بہت سارے احکامات وہ ہیں جو اس کے بعد بھی مسلمانوں پر واجب ہیں، رمضان کی عبادت فرض نہیں ہے رمضان میں عبادت فرض ہے معبود صرف اللہ کی ذات ہے. اس لئے جو رمضان کی عبادت کیا کرتا تھا تو وہ جان لے کہ رمضان گذر چکا ہے لیکن جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے اللہ رمضان میں بھی تھا اور رمضان کے بعد بھی باقی رہے گا، اس کے حکم اطاعت اسی طرح ہمارے اوپر واجب ہے جس طرح رمضان میں واجب تھی. رمضان میں تین اضافی چیزیں ہمارے لئے حرام کردی گئی تھیں، کھانا، پینا اور بیوی سے جماع، رمضان کے بعد بس یہی چیزیں ہمارے لئے حلال کردی گئی ہے، ان تین کے علاوہ اس وقت جو چیزیں حرام تھیں آج بھی حرام ہیں اور روزہ کے علاوہ اس وقت جو چیزیں فرض تھیں آج بھی فرض ہیں. انہوں نے کہا کہ حضور اکرم کے سانحہ ارتحال پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا تھا جو شخص محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے کہ محمد گذر گئے لیکن جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لہ کہ اللہ آج بھی زندہ ہے، اسی طرح میں کہتا ہوں کہ جو رمضان کی عبادت کرتا تھا (عبادتوں کو رمضان کے ساتھ مخصوص کرنے اور اس کے بعد احکام خداوندی سے منہ موڑ نے سے اسی کا پتہ چلتا ہے ) تو وہ جان لے کہ رمضان گذر چکا ہے لیکن جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے کہ اللہ آج بھی موجود ہے اور اس کے بہت سے احکامات آج بھی ہم پر فرض ہیں. انہوں نے کہا رمضان دراصل گیارہ مہینے کی تربیت اور ٹریننگ کا مہینہ ہے جس کا اثر سال بھر رہنا چاہیے لیکن چاند نکلنے کے بعد ہی ہم ساری تربیت بھول جاتے ہیں.ہمییں خوشی اور غم ہر موقع پر احکام خداوندی کا پابند ہونا چاہیے زوجہ رسول اور بنت حضرت ابوسفیان نے والد کے انتقال کے صرف تین دن بعد زیب وزینت اختیار کیا تھا اور لوگوں کے اس سوال پر کہ کیا آپ کو والد کی وفات پر کوئی غم نہیں ہے جواب دیا تھا بےشک مجھے اپنے والد کی وفات کا غم ہے لیکن رسول اللہ نے کسی عورت کے لئے یہ جائز قرار نہیں دیا کہ وہ شوہر کے علاوہ کسی اور کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے اسی وجہ کر میں یہ زینت اور بناؤ سنگھار کررہی ہوں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مومن ہر موقع پر احکام الہی کا پابند ہے. لہذا ہماری عید کی مصروفیات بھی گناہوں سے پاک ہونی چاہیے.گذشتہ رات لیلہ الجائزہ تھی اور یہ انعام خداوندی کا دن ہے۔ آقا مزدوری لینے کے لیے بلائے اور مزدور نافرمانی کرکے اس سے اعراض کرے ایسا آدمی ڈھیٹ کہلاتا ہے ہمیں رمضان اور عید کے پیغام کو سمجھنا چاہیے. عید کی نماز مولانا محمد انس قاسمی نے پڑھائی۔