ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر مفتی شمس تبریز قاسمی نے 19جولائی تا 22 جولائی 2016 میں متحدہ عرب امارت کا ایک مختصر سفر کیا تھا،اس سفر میں ان کے علاوہ ہندوستان کے نامور علماء کرام شامل تھے ،احباب کے اصرار پر انہوں نے مختصر سفرنامہ تحریر کیا ہے ، سفر نامہ کل 10 ہزارسے زائد الفاظ پر مشتمل ہے ،ملت ٹائمز میں قسط وار اسے شائع کیا جارہاہے ،ہر چار روز بعد تقریبا 15 سو الفاظ پر مشتمل ایک قسط شائع کی جائے گی ، دیگر اخبارات کو بھی یہاں سے شائع کرنے کی اجازت ہے ۔ آج سفرنامہ کی تیسری قسط ملاحظہ فرمائیں ۔
ایف آئی فیضی
منیجنگ ایڈیٹر
شمس تبریز قاسمی
(گذشتہ سے پیوستہ)
ابوظہبی ایئر پورٹ کا خوبصورت منظر
ابوظہبی ایئر پورٹ پر زیادہ بھیڑ نہیں تھی ،صفائی ستھرائی قابل ستائش تھی ،تزئین اور سجاوٹ کا معیار بہت بلند تھا،ہائی اسپیڈ کا وائی فائی بھی وہاں موجود تھا ،امیگریشن کاؤنٹر پر طویل قطار تھی اس لئے وائی فائی کی سہولت ملنے کے بعد میرا وقت آسانی کے ساتھ گذر گیا ،نہ کھڑے ہونے کا احساس ہوا اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی بورنگ محسوس ہوئی۔جگہ جگہ پھول کے گملے رکھے ہوئے تھے ،امن وسکون کا ماحول تھا ،کوئی شو رشرابہ نہیں تھا ،ایئر پوٹ سے نکلنے کے دوران میری نگاہیں پولس عملہ کو تلاش کررہی تھی ،میں دیکھنا چاہ رہاتھا کہ یہاں کی پولس کیسی ہوتی ہے ،سیکوریٹی گارڈ کا یونیفارم کیسا ہوتاہے لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آیا اور اسی تلاش میں ایئر پورٹ سے باہر نکل گیا ،ایئر پورٹ کے باہر لمبی چوڑی کارپارکنگ تھی ،بڑی بڑی اور خوبصورت گاڑیاں وہاں کھڑی تھیں ،ٹیکسی بھی موجود تھیں،وہاں ہم نے نوٹ کیا ہندوستان کی طرح گاڑی ڈرائیور ایئر پورٹ سے باہر قدم رکھتے ہی دوڑ کر مسافروں کا سامان پکڑتے ہوئے اور انہیں اپنی گاڑی سے چلنے کی تلقین کرتے ہوئے نہیں دکھے،یہاں کی طرح مسافروں کو چار طرف سے گھیر لینے والاعمل نظر نہیں آیا ،کوئی کسی سے نہیں کہ رہاتھاکہ کہاں جاناہے ،ہمارے ساتھ آئیں ،ہماری گاڑی بہتر ہے ،معمولی کرایہ ہے وغیر وغیرہ ۔
ایئرپورٹ کے باہر معمولی انتظار
ابوظہبی ایئر پورٹ سے باہر نکل کر ہم لوگ ایک جگہ کھڑے ہوگئے ،میں اچٹتی نگاہ دوڑانے لگا ،چاروطرف دیکھنے لگا ،ابھی پانچ منٹ کا وقفہ بھی نہیں گزراتھا ،صحیح طور پر ایئر پورٹ کے باہر کا مکمل نظارہ بھی نہیں پایاتھاکہ اسی لائن میں ایک کار آکر رکی ،ڈرائیوکررہے شخص نے مفتی صاحب سے مصافحہ اور معانقہ کیا ،میں اور شہاب الدین صاحب نے بھی ان سے مصافحہ کیا ،یہ اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے جناب خورشید اعظمی صاحب تھے ،ابوظہبی میں اپنی تجارت ہے ، فیملی کے سا تھ مستقل یہاں قیام پذیر ہیں،انہوں نے ڈگی میں سامان رکھا،مفتی صاحب اگلی سیٹ پر بیٹھے ہم دونوں ایک ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے ،کار ابوظہبی ایئر پورٹ سے روانہ ہوگئی ۔وہاں سے کئی شاہراہیں نکل رہی تھیں ،سبھی کشادہ اور وسیع وعریض تھیں ،دونوں اطراف میں کھجور کے درخت لگے ہوئے تھے ،شائن بورڈ انتہائی خوبصورت اور دلکش تھے ،سبھی پر عربی زبان میں جگہوں کے نام لکھے ہوئے تھے ،گاڑیاں انتہائی تیزی کے ساتھ چل رہی تھیں،سڑکوں پر مختلف لائنیں بنی ہوئی تھیں،تیز رفتار گاڑیوں کیلئے الگ لائن تھی اور آہستہ چلانے والوں کیلئے الگ ،جوگاڑی تیز رفتاری سے جانا چاہ رہی تھی وہ اپنی لائن بدل رہی تھی۔
ابوظہبی میں ناشتہ
تقریبا دس منٹ چلنے کے بعد ہم ایئر پورٹ کے رقبہ سے مکمل باہر نکل چکے تھے ،کار کسی آبادی والے علاقہ میں جارہی تھی ،کچھ دیر چلنے کے بعد ایک جگہ پر کار جاکر رکی ،سامنے ناشتے کی ایک ہوٹل تھی،اس کے مالک اور یہاں کام کرنے والے سبھی اعظم گڑھ کے تھے ،تقریبا پندرہ بیس لوگوں کے بیٹھنے کی یہاں گنجائش تھی ،ہندوستانی مزاج کے مطابق ناشتہ کا بندوبست تھا ،اعظم گڑھ کی ثقافت کا غلبہ تھا ،یہاں ناشتہ کرنے والے بھی زیادہ ہندوستانی ملے ،البتہ ایک دوصاحب یہاں ایسے بھی نظر آئے جو اپنی شکل وصورت سے عربی لگ رہے تھے ،یہاں جو ناشتہ کرایا گیا اس میں کچھ آئٹم ہندوستانی فوڈ کے تھے اور کچھ آئٹم ایسے بھی تھے جو ہندوستان میں دستیاب نہیں ہیں ،میں نام نہیں معلوم کرسکا اسے وہاں کیا کہاجاتاہے البتہ وہ روٹی کی ہی ایک شکل تھی ،ذائقہ عمدہ تھا،یہاں لائن سے چھوٹی چھوٹی دکانیں بنی ہوئی تھیں ،لیکن صبح کا وقت تھا اس لئے سبھی دکانیں بند ملی۔
دبئی کیلئے روانگی
ناشتہ سے فراغت کے بعد ہم ابوظہبی سے دبئی کیلئے روانہ ہوگئے ،ابوظہبی اور دبئی کے دوران تقریبا 165 کیلومیٹر کا فاصلہ ہے جوڈیڑھ گھنٹہ میں عموما طے ہوتاہے ، گاڑیوں کی اسپیڈ ایک سو بیس سے زیادہ ہوتی ہے ،سڑکوں پر مختلف لائنیں بنی ہوئی ہیں ،تیزچلانے والوں کی الگ لائن ہے ، دھیمی رفتار سے چلنے والوں کیلئے الگ لائن ہیں ،سڑکوں کے کنارے کھجور کے درخت لگے ہوئے ہیں ،گاڑیاں 160 کی اسپیڈ میں بھی چلتی ہے تو ذرہ برابر تھکن اور جنبش کا احساس نہیں ہوپاتاہے جبکہ ہندوستان میں جب کانٹا100سے آگے بڑھتاہے تو گاڑی جنبش کرنے لگتی ہے ،یوں محسوس ہوتاہے کہ ہم بہت تیز چل رہے ہیں۔
دبئی میں داخلہ
بلند ترین عمارتوں اور کشادہ سڑکوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے دن کے قریب بارہ بجے ہم دبئی پہونچ گئے ،وہاں سب سے پہلے اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے مشہور تاجر جناب اسلم صاحب کے گھر پر کچھ دیر کیلئے وقفہ ہوا ،وہیں پر ہماری ملاقات مولانا حکیم عثمان قاسمی مدنی صاحب سے ہوئی جو مدینہ منورہ سے تشریف لائے تھے ،حکیم عثمان صاحب سے وہاٹس ایپ پر کافی دنوں سے رابطہ تھا ،آپ اکثر میری تحریروں پر حوصلہ افزا تبصرہ فرماتے رہتے ہیں ،مدینہ منورہ میں مختلف لوگوں سے ملاقات کے دوران بھی آں جناب ذکر خیر کرتے ہیں، ملاقات کے بعد میری طرح انہوں نے بھی بے پناخوشی ومسرت کا اظہا رکیا اور یوں اس ملاقات کے بعد اس سفر کا حسن مزیددوبالا ہوگیا ۔ناشتہ اور چائے کے بعد ہم تمام لوگ ناصر اسکوائر میں واقع لینڈ مارک ہوٹل پہونچے جہاں تمام مہمانوں کی رہائش کا انتظام تھا ،کچھ مہمان ہم سے پہلے ہوٹل پہونچ چکے تھے اور کچھ ہمارے بعد ہوٹل میں تشریف لائے ۔
اب تو ہندوستانی نہ کہلانے میں ہی عزت ہے
لینڈمارک ہوٹل کا جائے وقوع بہت ہی مناسب تھا ،ہوٹل سے متصل مسجد ،قریب میں میٹرواسٹیشن ،بس اسٹوپ بھی ہوٹل کے پاس میں موجود ، یہ تھری اسٹار ہوٹل ہے ،ہر طرح کی سہولیات سے لیس ہے ،کمرے کافی خوبصورت بنے ہوئے ہیں ، یہاں زیادہ تر کام کرنے والے ہندوستانی اور نائیجرین ملے ،جو قلیل تنخواہ پر یہاں کام کرتے ہیں،ہوٹل کے فرسٹ فلور پر جہاں ریسیپِشن ہے وہاں ایک چھوٹی سی مارکیٹ بھی ہے ،ضرورت کی تمام چیزیں اس مارکیٹ میں دستیاب ہے ،اسی مارکیٹ میں میری ملاقات کیرالاکے ایک شہری سے ہوئی جن کی وہاں موبائل کی دکان ہے،وہاں کا سم کارڈ میرے موبائل کام نہیں کررہاتھا ،اس لئے مارکیٹ میں واقع موبائل شاپ پر گیا ،انہوں نے پوچھا آپ ہندوستان سے آئے ہیں میں نے کہاجی ،اس کے بعد میں نے پوچھا آپ کہاں سے ہیں ،ان کا جواب تھا میں کیرالا کا ہوں ،میں نے کہاکہ واہ!۔۔۔۔ آپ بھی ہندوستانی ہیں وہ کہنے لگے نہیں کیرالا کا ہوں میں نے کہاکیرالا ہندوستان میں ہے جناب۔ وہ صاحب کہنے لگے،وہ تو اپنی جگہ لیکن اب تو ہندوستانی نہ کہلانے میں ہی عزت ہے ۔
اردو زبان بولنا ہندوستانی ہونے کا ثبوت
ایک مرتبہ ہوٹل میں لفٹ سے اتر رہاتھا ، مولانا شاہدصاحب بھی ساتھ میں تھے،ایک خاتون اپنے بچے کے ساتھ تھیں ،میں نے بچے سے عربی زبان میں پوچھا کیف حالک ،اس کی ماں نے اردو بولنے کی کوشش کی تاہم نہیں بول سکی ،انگلش کا انہوں نے سہارا لیا اوربچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اس کے پرداداہندوستانی تھے ،ہم لوگ ہند نژاد ہیں ،اب مراکش میں رہتے ہیں ،میرے والد اردو بول لیتے ہیں تاہم میں نہیں بول پاتی ،میں نے پوچھا آپ نے یہ کیسے جاناکہ ہم ہندوستان سے ہیں انہوں نے جواب دیاکہ آپ دونوں اردو میں بات کررہے تھے اس لئے مجھے لگاکہ آپ ہندوستانی ہیں ۔(جاری)
اس سفرنامہ کی پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس سفرنامہ کی دوسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں