ترکی میں تیسرا دن

ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی
آج ہم سب سے پہلے عثمانی خلفاء کے محل ٹاپ کوپی گئے۔ اردو میں اس لفظ کے معنی ہیں توپ کا دہانہ، یہاں ایک علاقے کا نام بھی یہی ہے، اسی علاقے سے سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا تھا، پھر محل بھی اسی نام سے موسوم ہوا۔ اب اس محل کو میوزیم بنادیا گیا ہے، یہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہاں بیٹھ کر ہی سلاطین نے دو براعظموں پر حکومت کی تھی۔ ہم نے گیٹ پر ایک آڈیو ڈیوائس لیا جس میں اگر محل کے در ودیوار پر لکھا ہوا مخصوص نمبر ڈائل کیا جائے تو آپ اپنی پسند کی زبان میں اس حصے کی تاریخ سن سکتے ہیں۔ محل کے باب الداخلہ کے بارے میں بتایا گیا کہ یہاں سے صرف سلطان سوار ہوکر آگے بڑھ سکتا تھا بقیہ افراد حد ادب میں رہتے ہوے پیدل ہی آگے جاسکتے تھے۔ آج ہم جب داخل ہوئے تو سواری پر تو سوار نہیں تھے مگر ادب کا بھی کوئی احساس ہمارے دلوں میں نہیں تھا۔ ان سلاطین کو کیا معلوم تھا کہ کیسے ہماری یہ شان و شوکت تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔ محل کے مختلف گوشوں کے بارے میں معلومات سنتے ہوے ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں سراپا ادب بننا عین ایمان تھا۔ اس گوشے میں اسلامی نوادرات کا خزانہ جمع تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی تلوار، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دیگچی، حضرت موسی علیہ السلام کا عصا، حضرت یوسف علیہ السلام کا عمامہ، اور پھر شروع ہوا وہ حصہ جس کی ایک ایک چیز کو عقیدت ومحبت سے دیکھنا ان شاء اللہ باعث نجات ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے موئے مبارک، آپ کا پیالہ، آپ کے قدم مبارک کا نشان، آپ کی تلوار، مہر اور جھنڈا، حضرات خلفائے راشدین کی تلواریں، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قمیص اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا جبہ۔ یہ سارے تبرکات اس محل کی آبرو ہیں۔ محل کے بقیہ حصے تو سلاطین کے کر وفر کے گواہ ہیں، حتی کہ محل کا ایک حصہ شہزادوں کی ختنے کے لیے مخصوص تھا اور یہ کمرا بھی اس قدر خوبصورت ہے کہ بڑے بڑے رؤسا کے ڈرائنگ روم بھی ایسے نہیں ہیں۔ اس محل کے مکینوں سے صرف اس لیے ہمدردی ہوئی کہ ان کے نام سے مسلمان سر اٹھا کر جیتے تھے اور انھوں نے خلافت کو (خواہ نام ہی کی) باقی رکھا تھا ورنہ دیگر سلاطین کی طرح ان میں بھی بہت سے دنیا داری میں بہت آگے نکل چکے تھے حتی کہ اس ڈیوائس میں ان سلاطین کے تعارف کے ساتھ ساتھ ان کی کمپوز کردہ میوزک بھی ریکارڈ تھی۔
وہاں سے نکل کر ہم نے مسجد سلطان محمد فاتح کا رخ کیا۔ اسی مسجد میں سلطان مدفون ہیں اور انھی کے نام سے یہ مسجد موسوم ہے، ان کی حیثیت وہی ہے جو ہمارے یہاں حضرت اورنگزیب عالمگیر کی ہے۔ مسجد کے احاطے میں داخل ہوئے تو لوگوں کا ایک ہجوم دیکھا، معلوم ہوا کہ جنازے رکھے ہوے ہیں اور یہ ظہر کے وقت روز کا معمول ہے۔ مرد اور عورتیں ایک ساتھ ہی کھڑے تھے، بہت سی خواتین عیسائیوں کی طرح کالے لباس میں تھیں اور مرد سوٹ اور ٹائی میں۔ کچھ مردوں نے میت کی چھوٹی تصویر اپنے سینے پر چسپاں بھی کر رکھی تھی۔ یہ تماشا دیکھ کر ہم مسجد میں داخل ہوگئے۔
یہاں آنے کا مقصد در اصل امام زاہد کوثری کے آخری شاگرد، محدث ترک، بزرگ عالم شیخ محمد امین سراج سے ملاقات تھی، میں حضرت کی خدمت میں اس سے پہلے سن دو ہزار آٹھ میں آیا تھا اور حضرت نے اس وقت مجھے کتب ستہ کی اجازت بھی دی تھی، یہ میرے لیے بڑی سعادت ہے کہ امام کوثری اور میرے درمیان شیخ امین سراج کا ہی واسطہ ہے۔ حضرت اپنے استاد کی طرح دیوبند کے مداح ہیں، مین نے ان سے مذکورہ بالا تبرکات کے بارے میں سوال کیا کہ کیا ان کی کوئی سند ہے، شیخ نے پر زور انداز میں کہا کہ یہ سب حقیقی اور باسند ہیں۔ بہرحال انھوں نے اپنی ضعف کے باوجود بڑا اکرام کیا۔
ان سے دعائیں لینے کے بعد ہماری ملاقات ترکی کے بڑے عالم اور یہاں کی حکمراں پارٹی حزب العدالۃ والتنمیۃ کے اہم عہدے دار شیخ حمدی ارسلان سے ہوئی۔ انہوں نے سب سے پہلے تو ہمیں مسجد کا ایک ایک گوشہ دکھایا، عثمانی دور کے آخری شیخ الاسلام مصطفی صبری کی درسگاہ اور امام زاہد کوثری کی دارالحدیث بھی دکھائی۔ پھر وہ ہمیں قریب ہی واقع ایک عمارت میں لے گئے، یہ دراصل ترکی کے سب سے بڑے خیراتی ادارے کا صدر دفتر تھا۔ اسی ادارے نے چند سال قبل غزہ کی طرف فریڈم فلوٹیلا کے عنوان سے امدادی جہاز بھیجا تھا جس پر صہیونیوں نے فائرنگ کی اور کچھ لوگ شہید ہوگئے۔ ارسلان صاحب سے بڑی دیر تک ترکی کے سیاسی احوال پر گفتگو ہوئی، فتح اللہ گولن کے بارے میں ان کا کہنا تھا اس کا دعوا ہے کہ وہ جو کچھ کہتا ہے در اصل وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام ہے کیونکہ وہ ہر رات آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کرتا ہے۔ یہ بات ارسلان صاحب نے اس لیے بتائی کیوں کہ میں نے ان سوال کیا تھا کہ آپ اس کے عقیدے کے بارے میں بتائیں۔ انہوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس شخص کے دجل وفریب کو واضح کیا۔ انھیں ندوہ کے علماء سے بھی شکایت تھی کہ انھوں نے اپنے رسائل میں گولن کی تصنیفات کے اعلان چھاپے۔ انہوں نے یہ بھی بتلایا کہ صدر طیب اردگان سے انہوں نے کہا ہے ہندوستانی مسلمان آپ کے منتظر ہیں آپ وہاں جائیں اور دیوبند وندوہ کو اپنے پروگرام میں ضرور شامل رکھیں۔ میں ان کے پاس سے جب اٹھا تو گولن کے حوالے سے مطمئن تھا۔ یہ شخص امت کے لیے بہت بڑا فتنہ ہے اور اس کی مکمل حمایت وہ خفیہ ادارے کر رہے ہیں جو مسلمانوں کو سکون سے نہیں دیکھ سکتے۔ ارسلان صاحب نے ترکی کے ہی ایک بزرگ عالم شیخ یوسف کواچہ سے میری فون پر بات کرائی، یہ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں اور حضرت تھانوی کی کچھ کتابوں کا ترکی میں ترجمہ کرچکے ہیں۔ آج کا دن اس اعتبار سے اہم رہا کہ ماضی اور حال کو بڑے قریب سے جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔(ملت ٹائمز)

SHARE