ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر مفتی شمس تبریز قاسمی نے 19جولائی تا 22 جولائی 2016 میں متحدہ عرب امارت کا ایک مختصر سفر کیا تھا،اس سفر میں ان کے علاوہ ہندوستان کے نامور علماء کرام شامل تھے ،احباب کے اصرار پر انہوں نے مختصر سفرنامہ تحریر کیا ہے ، سفر نامہ کل 10 ہزارسے زائد الفاظ پر مشتمل ہے ،ملت ٹائمز میں قسط وار اسے شائع کیا جارہاہے ،ہر چار روز بعد تقریبا 15 سو الفاظ پر مشتمل ایک قسط شائع کی جائے گی ، دیگر اخبارات کو بھی یہاں سے شائع کرنے کی اجازت ہے ۔ سفرنامہ کی پانچویں قسط آج ملاحظہ فرمائیں ۔
ایف آئی فیضی
منیجنگ ایڈیٹر
شمس تبریز قاسمی
(گذشتہ سے پیوستہ)
دبئی مال کی سیر
ظہرانہ سے فراغت کے بعد ہم لوگوں نے دبئی کی معروف عمارت برج الخلیفہ اور دنیا کے سب سے بڑے دبئی مال کو دیکھنے کا پروگرام بنایا ،ہمارے میزبان جناب محمد اسلم صاحب نے پانچ ٹکٹ بک کرلیا ، 21 جولائی کو ہم پانچ افراد مولانا محمد عثمان قاسمی ،ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی اور ساجد مہتاب صاحب اور ایک گاڑی ڈرائیور جناب شمشاد صاحب برج الخلیفہ کی سیر کیلئے نکل گئے ،جبکہ دیگرحضرات ظہرانہ سے فراغت کے بعد ابوظہبی کی مسجد شیخ الزائد النہیان کی زیارت کیلئے روانہ ہوگئے۔
برج الخلیفہ کا راستہ دبئی مال سے ہوکر جاتاہے ، اس لئے کسی قصد وارادہ کے بغیر ہم نے دبئی مال کی بھی زیارت کرلی ۔
دبئی میں کئی بڑے بڑے شاپنگ مالس ہیں جن میں فیسٹول سٹی ، ابن بطوطہ مال ، اَمیریٹس مال ، سٹی سنٹر ،سرفہرست ہیں تاہم دبئی مال اپنی مثال آپ ہے ، یہ اس قدر طویل و عریض ہے کہ دو تین بار دیکھنے پر بھی اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے ، دبئی مال کے ایک کنارے ، برج خلیفہ کی165منزلہ عمارت سربلند کھڑی ہے ، جو سیاحوں کو حیرت زدہ کردیتی ہے ۔ اس عمارت کے دامن میں میوزیکل فاؤنٹین اور فائیو اسٹار ہوٹلس کی خوبصورت عمارتوں کا مشاہدہ کرنے کے لئے ملکی اور غیر ملکی سیاح جوق در جوق چلے آتے ہیں،تقریبا 50 سے زائد ممالک کے لوگ بیک وقت اس مال میں موجود ہوتے ہیں،مختلف لباس اور کلچرمیں وہ گھومتے ہوئے ملتے ہیں،مردوں سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں نظر آتی ہیں ،کوئی لڑکی برقعہ پہنے ہوئی ملتی ہے ،کوئی مشرقی لباس پہن کر یہاں شاپنگ کرنے آتی ہے ،کچھ کے جسم پر مغربی لباس ہوتاہے ،کچھ لڑکیاں اپنے مخصوص اعضاء کو چھپانے کے بعد برہنہ جسم اس مال میں موجود ہوتی ہیں،کسی لڑکی کو دیکھ کر ایسا لگتاہے کہ غربت اور بے بسی کی یہ اس قدر شکار ہے کہ اس کے پاس بدن چھپانے کیلئے کپڑ ا تک میسر نہیں ہیں ، دکانوں اور کاؤنٹر پر بھی لڑکیوں کا غلبہ تھا ،سیاہ پینٹ اور قمیص میں سبھی ملبوس تھے ، شایدہ غیر ملکی دکانداروں کیلئے دبئی مال کا یہ یونیفارم ہے ،دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کہ دبئی مال میں دنیا کا ہر ماڈل موجودہوتاہے ،ایک ساتھ آپ پچاس ممالک کی عوام سے ملاقات کرسکتے ہیں،ان کی تہذیب وثقافت کا جائزہ لے سکتے ہیں،ان کی طرززندگی اور رہائش کے بارے میں اندازہ لگاسکتے ہیں۔
دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مال
دبئی مال کا شمار دنیا کے سب بڑے شاپنگ مال میں ہوتاہے ،عالمی ریکنگ میں کناڈا میں واقع West Edmonton Mall کے بعد اسی کا نمبر آتاہے ،502,000 اسکوائر میٹر زیمین کے رقبہ پر یہ واقع ہے ،چارمنزل پر مشتمل ہے ،کارپارکنگ کا رقبہ 14000 میٹر سے زائد ہے، ،نومبر 2008 میں اس کا آغاز ہواتھا ،امار گروپ Emaar Properties کی یہ ملکیت ہے ،مال میں کل 1200 سے زائد دکانیں ہیں ،250 لکژری ہوٹل کے کمرے ہیں،22 سنیمال اسکرین ہیں ،120 ریسٹورینٹ اور کیفے ہیں،ان کے علاوہ اسی مال میں Dubai Aquarium and Underwater Zoo واقع ہے جسے اردو میں پانی کے اندر چڑیا کا گھر کہ سکتے ہیں ،اس میں دنیا بھر کے نادر نایاب 300 سے زائد جانور موجود ہیں ،اس کی ڈائزائننگ کچھ اس انداز سے کی گئی ہے جس کی بنا پر یہ تمام جانور پانی کے اندر نظر آتے ہیں۔
دبئی مال کی خصوصیات
2011 میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ اسی مال کی لوگوں نے زیارت کی تھی جس کی تعداد تقریبا 54 ملین سے زیادہ ہوتی ہے ،زائرین کی کثرت کے حوالے سے یہ امریکی شہر نیویارک سے آگے بڑھ چکاہے اور اب زائرین کی توجہ پیرس اور نیویارک کے مقابلہ میں دبئی مال کی جانب زیادہ ہور ہی ہے ،نیویارک میں زائرین کی سب سے زیادہ تعداد 2012 میں 52 ملین تک محدود ہے ،اور لوس انگلیس میں 41 ملین لوگوں کی زیارت کا ریکاڈ ہے لیکن دبئی مال ان سب شہروں سے آگے بڑھ چکا ہے جہاں 2011 میں 54 ملین لوگوں کی زیارت کا ریکاڈ موجود ہے ۔ یہ تعداد مسلسل بڑھتی جار ہی ہے ،2015 میں زائرین کی تعداد 92 ملین تک پہونچ چکی ہے جبکہ دنیا کے دیگر مال اور شہروں کا ریکاڈ 52 ملین سے کم ہے ، دبئی مال بہترین اشیاء کی فراہمی ، بہترین آر ٹ ڈیزائن اور خوبصورت لائٹنگ نظام کیلئے کئی عالمی ایوارڈ بھی جیت چکا ہے۔دبئی مال سے میٹرو کا بھی لنک ہوچکاہے ، ان تمام خوبیوں کے ساتھ دبئی مال میں فری انٹری ہے ،کوئی چیکنگ نہیں ہے ،کہیں پر سیکوریٹی چیکنگ سے نہیں گزرناپڑتاہے ،ہائی اسپیڈ وائی فائی کی فری سہولت ہے ،جگہ جگہ رہنمائی کیلئے کاؤنٹر لگے ہوئے ہیں۔
دبئی مال میں شاپنگ کا خواب
مال میں دنیا کی تمام چیزیں سب سے بہترین کوالیٹی میں موجود ہوتی ہے ،اس کی سجاوٹ اور آراستگی بھی قابل دید اور ستائش ہے ،پورا مال شیش محل کی طرح نظر آتاہے ،اشیاء کی قیمتیں وہاں آسمان چھورہی ہوتی ہیں ، ہر کسی کیلئے وہاں خریداری کرنا ناممکن ہے،’’مال میں ایک شاپ گھڑی کی نظر آئی میں نے سوچا یہاں سے اپنی چھوٹی ہمشیرہ کیلئے ایک گھڑی خرید لیتاہوں گھروالوں کیلئے دبئی کا ایک تحفہ بھی ہوجائے گا اور یادگار بھی رہے گا کہ دبئی مال سے ہم نے شاپنگ کی ہے‘‘ لیکن دکان کے اندر جانے کے بعد گھڑی کی قیمت دیکھ کر میرے پاؤں تلے سے مٹی کھسکنے کے بجائے پوری زمین ہی کھسک گئی ،پچاس ہزار درہم سے کم کی وہاں کوئی بھی گھڑ ی نہیں تھی ،پچاس ہزارد رہم کی قیمت ہندوستانی کرنسی میں دس لاکھ روپیہ ہے ،جبکہ اس وقت میرے پاس دس ہزار ہندوستانی روپے بھی نہیں تھے ،شاپ کیپر سے یہ بھی کہنا اچھانہیں تھاکہ میں یہاں صرف دیکھنے آیاہوں شاپنگ مقصد نہیں ہے ،اس لئے تاویل کا سہارا لیتے ہوئے میں نے ان سے کہاکہ اس گھڑی کا سائز کافی بڑا ہے مجھے چھوٹے سائز میں چاہئے ،چونکہ ایک نظر دوڑاکر میں نے پورے شاپ میں دیکھ لیاتھاجہاں ایک بھی چھوٹی گھڑی نہیں نظر آئی ،شاپ کیپر نے کہاکہ سر! اب یہی گھڑی تمام لڑکیاں استعمال کرتی ہیں آپ لے جائیں بہت ہی خوبصورت اور پرکشش ہے لیکن میں نے کہانہیں میڈم! ہم ہندوستان سے ہیں ،وہاں اتنی بڑی گھڑی لڑکیاں نہیں پہنتی ہیں یہ سامان ضائع ہوجائے گا اگر آپ کے پاس چھوٹے سائز میں کوئی گھڑی ہے تو براہ کرم دکھائیں ،انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہانہیں سر چھوٹے سائز میں گھڑی نہیں مل پائے گی ۔ٌ چند قدم کے فاصلہ پر چلنے کے بعد ایک جویلری کی دکان نظر آئی میں وہاں بھی چلاگیا ،ہمارے احباب مال کے درمیان ایک جگہ کھڑے ہوکر ایک صاحب کاانتظا کررہے تھے ،جویلری کی شاپ بھی کوئی کم مہنگی نہیں تھی ،معمولی سونے کے ہار کی قیمت 90 ہزرار درہم تھی ،وہاں بھی شاپ کیپر نے میرا احاطہ کرکے اس کی فضائل وخصوصیات کو بیان کرنا شروع کردیا کہ یہ لے لیں ،یہ زیادہ خوبصورت ہے ،اس میں یہ خوبی ہے ، اس کا ڈیزائن انمول ہے ،اس شاپ میں بری طرح پھنس چکا تھا وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہاتھا یہ کہ نہیں سکتاتھاکہ یہاں میں صرف وزٹ کرنے آیاہوں یہ بھی کہنے میں اچھا نہیں لگ رہاتھا کہ میڈم جتنی اس ہار کی قیمت ہے اتنی تو میری پوری جائیداد کی بھی قیمت نہیں ہے ،اچانک ایک تدبیر ذہن میں آئی ،میں نے کہاکہ میں جس کیلئے خریداری کررہاہوں انہیں اس کی تصویر بھیجنا چاہتاہوں ،ایسا نہ ہوکہ خریدے جانے کے بعد وہ یہ کہہ کر انکا ر کردے کہ یہ پسند نہیں ہے ،شاپ کیپر نے کہاکہ لیکن سر !تصویر لینے کی اجازت نہیں ہے آپ لے لیں پسند آئے گا میں نے کہاکہ نہیں !سوری! ایسے میں نہیں لے سکتا ۔یوں یہاں سے جان چھٹی اور اس کے بعد دیگر شاپ میں جانے کے بجائے باہر سے دیکھنے میں ہم نے عافیت سمجھی ، فیس بک پر اس طرح کی شاپنگ کا ہمیں ایک نام بھی مل گیا دراصل جب مال کی تصویر ہم نے فیس بک پر پوسٹ کی تو بہار اردواکیڈمی کے چیرمین جناب مشتاق احمد نوری صاحب نے کمنٹ کیا کہ کچھ خرید ا یا نہیں! میں جواب دیا کہ بس قیمت معلوم کرنے اور دور سے دیکھنے پر اکتفا کیا انہوں نے کہاکہ اسے ونڈو شاپنگ کہتے ہیں ہم نے بھی جوانی کے ایام میں دہلی کے کناٹ پلس میں اس طرح کی شاپنگ بہت بار کی ہے ۔(جاری)
اس سفرنامہ کی چوتھی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں