دیواریے

Sanaullah Sadiqثناء اللہ صادق تیمی
ہمارے دوست بے نام خاں کے کچھ معاملات بڑے عجیب و غریب واقع ہوئے ہیں جیسے اب یہی دیکھ لیجیے ان کے حساب سیاو بھائی ذرا دیکھ کے چلو والا مصرع جو ہندی فلم کے کسی نغمے کا بول ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر آپ دیکھے بغیر چلیں گے تو کسی کو ٹھوکر مار دیں گے یا کسی سے ٹھوکر کھا جائیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھ کر چلیے آگے پیچھے دائیں بائیں کہ ہر جگہ اب علم وآگہی کے بینر لگے ہوئے ہیں ، کہیں اقوال زریں ہیں تو کہیں علم و شعور کے سمندر کو کوزے میں بند کرتا کوئی محاروہ تو کہیں انقلاب زندہ باد کے نعرے تو کہیں کوئی بڑا چیلینج اور ہر صورت میں سیکھنے سمجھنے کا موقع ۔ ہمارے دوست ہم پر طنز کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیٹے ! تم بے وقوفوں نے علم کو مدرسہ ، اسکول اور یونیورسیٹیوں کی چہار دیواری تک محدود کر رکھا ہے جبکہ علم کا دریا ہر جگہ رواں دواں ہے ۔ تم جیسے لوگوں کو تو یہ بھی معلوم نہیں یہ سڑکیں کم اور علم و حکمت کا راستہ زیادہ ہیں ۔ اب دیکھو کیا لکھا ہوا ہے ، آگے دیکھو ۔۔۔۔ جو کل کرے سو آج کرے جو آج کرے سو اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات میں جاگنے والوں کے چہرے دن کی تازگی کا ساتھ نہیں دے پاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کے بعد صبح آتی ہی ہے ۔۔۔۔ مال والے کی دنیا اعمال والے کی آخرت ۔۔۔۔۔
تم نے تو جے این یو میں تعلیم حاصل کی ہے ، وہاں تو جداریے کا بڑا چرچا رہا ہے ، مدرسوں میں بھی تو جداریے نکلا کرتے ہیں ، پھر بھی تم دیوار سے صرف نظر کرتے ہو ، یوسف ناظم کوئی بے وقوف تھوڑے ہی تھے جو دیوارے لکھ کر چلے گئے ۔ ہمیں تو یہ خبر پہنچی ہے کہ اکثر بہاری طلبہ جے این یو میں دیواروں پر لگے پوسٹرز پڑھ کر ہی انگریزی سیکھتے ہیں اور وہاں کمیونسٹوں کا غلبہ رہا ہے ، اس لیے وہاں کے طلبہ کی انگریزی میں کمیونزم کی بو بھی آتی رہتی ہے ۔ نہ جانے کیوں وہ خواستہ ناخواستہ ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو خود بخود بتادیتے ہیں کہ وہ جے این یو سے منسلک رہے ہیں ۔ ویسے بڑے بزرگوں میں بہت سے لوگوں کو انہیں دیواروں نے پڑھنا لکھنا سکھادیا ۔ ایک صاحب فراٹے سے ہندی انگریزی پڑھ لیتے تھے ، باتوں باتوں میں بتایا کہ دکانوں پر لگے پتے ، ناموں کے کتبے اور دیواروں پر لگے بینروں کی مدد سے ہی انہیں پڑھنا لکھنا آگیا ۔ بزرگ نے تو شکایت کرتے ہوئے یہ تک کہا کہ اگر اردو والوں نے بھی اپنی دیواروں پر اردو میں لکھنے کی روایت رکھی ہوئی ہوتی تو آج انہیں اردو بھی پڑھنے آرہی ہوتی ۔
ہمارے دوست کے حساب سے دیواروں کے کان ہی نہیں ہوتے ، آنکھ اور عقل بھی ہوتی ہے بلکہ فکر وشعور کے خزانے بھی ہوتے ہیں دیواروں کے پاس۔ ان کا ماننا ہے کہ جس قوم کی دیواریں جتنی پڑھی لکھی ہوں گیں اس قوم میں علم و معرفت کا گراف اتنا ہی اونچا ہوگا ۔ ویسے ہمارے دوست کو مسلم قوم سے یہ شکایت بھی ہے کہ وہ اپنی دیواروں پر اچھی باتیں لکھنا یا اپنی دیواروں کو تعلیم یافتہ بنانا نہیں جانتی ، اسے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ تجارت کا اشتہاردینے والی دیواریں تہذیب و تمدن کا پاٹھ شالہ بھی بن سکتی ہیں ۔ اپنے درد کا اظہار کرتے ہوئے ہمارے دوست کچھ ایسی باتیں بتاتے ہیں جنہیں سن کر ہمیں ہنسی آجاتی ہے اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں ۔ دیکھیے مولانا ! یہ قوم کیسے ترقی کرے گی ، دیوار پر لکھا تھا ” یہاں پیشاب نہ کریں ” ہمارے نونہالوں نے بڑی کامیابی سے ” نہ ” کو مٹادیا ہے ۔ اور نتیجہ دیکھو کیا کیا گل کھلے ہوئے ہیں ۔ وہ دیکھو ” اچھے لوگ برے ہوتے ہیں ” اصل میں یہ جملہ اس طرح تھا ” اچھے لوگ برے نہیں ہوتے ہیں ” ۔ یہ قوم دیواروں کی تہذیب نہیں سیکھ پائی سوچو اور تہذیب کیا سیکھے گی ۔ ویسے ہماری قوم نے دیواروں کا استعمال ایسا نہیں کہ نہیں کیا ہے ۔ لیکن تمہیں بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ اس کا استعمال سب سے زیادہ وہ بیت الخلا کی دیواروں پر کرتے ہیں ۔ ایک یونیورسٹی کے بیت الخلا کی دیوار پر وہ وہ اقوال و علوم منقش تھے کہ میں دنگ ہی رہ گیا ۔ گھبراؤ مت اس بار کی سرکار اپنی ، سقراط بے وقوف تھا ، جاہل پروفیسر پڑھانے نہیں آتا ، گدھے کیمپس میں بھینسوں کے ساتھ چل رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہیں ایسی ایسی تصویریں بنائی گئی تھیں کہ اچھے اچھے مصور بس دیکھتے رہ جائیں اور بچے وقت سے پہلے جوان ہو جائیں ۔ ہاں البتہ اس قوم میں گالیوں کی تہذیب بڑی مستحکم ہے ، عام دیواروں سے لے کر بیت الخلا کی دیواروں تک پر اتنی کلاسیکل ، قدیم اور بے مثال گالیاں مل جائیں گیں کہ تم بس سوچتے ہی رہ جاؤ کہ یہ زبان اور اس کے بولنے والے کتنے گہرے واقع ہوئے ہیں ۔
مولوی صاحب ! مدرسے کے دیواریوں کو مدرسے سے باہر بھی نکالو ، پڑھنے لکھنے کا رواج ڈالو اور قوم کو بنانے کی کوشش کرو ورنہ تمہاری مری ہوئی قوم میں زندگی ویسے بھی کہاں ہے ، لوگ دیکھ کر تو سوچیں کہ شاید دیواروں کی طرح یہ قوم بھی پڑھی لکھی ہوگی ۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار امام حرم کے مترجم اور محمد بن سعود یونیورسیٹی ریاض کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں )

SHARE