ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی
سن 2016 كی سالانہ چھٹی گذارنے مكہ مكرمہ سے گھر جانے كی تیاری میں ہی لگا تھا كہ مولانا آزاد یونیورسٹی، جودھپور، راجستھان سے ایك دعوت نامہ موصول ہوا ،یونیورسٹی میں 20 اكتوبر 2016 كو منعقد ہونے والے كنووكیشن میں مجھے بطور “گیسٹ آف آنر” شركت كی دعوت دی گئی تھی۔ اس مرتبہ دو مہینہ كے چھٹی كے دوران مختلف تعلیمی اداروں كی زیارت كرنے كا ارادہ پہلے سے ہی تھا ،اس لیے اس دعوت كو میں نے فورا قبول كرلیا، 20 اكتوبر كو جب میں یونیورسٹی پہنچا تو كئی اہم اور بلند پایہ شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں، ان میں ڈاكٹر وسیم اختر صاحب، وائس چانسلر، انٹیگرل یونیورسٹی، لكھنؤ، وقار صاحب ، سكریٹری جنرل،ایسوسی ایشن آف انڈین یونیورسٹیز، حكومت ہند،ڈاكٹر عبدالقدیر صاحب ، ایسوسی ایشن آف انڈین یونیورسٹیز كے چیرمین، شادان گروپ آف میڈیكل كالجز كے اڈوائزر ڈاكٹر محمد رفیق صاحب، انٹرنیشنل ٹرینر منور زماں صاحب، مشہور مایہ ناز تاجر وانٹر پرینر ندیم ترین صاحب وغیرہ شریك تھے۔یونیورسٹی كی زیارت اور اس كے مختلف شعبہ جات كو دیكھنے كے بعد ہمیں ويزن 2020 پر تقریر كرنی تھی، سارے مایہ ناز مہمانوں نے اپنی اپنی باتیں ركھیں، میں نے بھی تعلیم كے ساتھ تربیت پر پورا زور صرف كرنے كی سمت میں توجہ دلائی، ڈاكٹر عبدالقدیر صاحب نے بھی معیار تعلیم اور مقابلہ جاتی امتحانات كے لیے بچوں كو تیار كرنے كی سمت میں توجہ مبذول كرائی، پروگرام كے بعد ڈاكٹر عبدالقدیر صاحب سے مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں اور انہوں نے شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنز، بیدر، كرناٹكا آنے كی دعوت دی۔ میں نے بھی حامی بھر لی۔
جودھپور سےدلہی واپسی میں ہم ڈاكٹر عبدالقدیر صاحب كے ساتھ ایك ہی ٹرین میں تھے، ہم نے انہیں دلہی پہنچ كر “رحیق گلوبل اسكول” كی زیارت كی درخواست كی، انہوں نے فورا اسے قبول كرلیا، اور ہم پرانی دلہی ریلوے اسٹیشن سے سیدھا شاہین باغ پہنچے، ڈاكٹر عبدالقدیر صاحب نے “رحیق گلوبل اسكول” كی زیارت كركے ہم سب كو شرف بخشا، اس كے بعد آپ بشمول راقم الحروف اور اسد اثری صاحب جیت پور گئے جہاں” الحرا پبلك اسكول”كو دیكھا، وہاں اساتذہ سے خطاب كیا، اور انہیں مقابلہ جاتی امتحانات كے لیے بچوں كو تیار كرانے كی نصیحت كی،پھر ہم لوگ وہاں سےنكلے اور ڈاكٹر عبدالقدیر صاحب كو كرناٹكا كےلیے الوداع كہا۔
ڈاكٹر عبدالقدیر صاحب نے بیدر پہنچ كر فون كیا كہ آپ یہاں آنے كے لیے تیار رہیں، میں نے كہا بالكل تیار ہوں ، دو ہفتہ بعد پروگرام بنائیں گے، لیكن پھر تین ہی دن بعد ان كا فون آیا كہ آپ 25 اكتوبر كو ہی تشریف لائیں، انہوں نے بتایا كہ ڈاكٹر محمد رفیق صاحب، انٹرنیشنل ٹرینر منور زماں صاحب ، مولانا آزاد یونیورسٹی كے روح رواں محمد عتیق صاحب 25 اكتوبر كو شاہین گروپ كا دورہ كریں گے ، آپ بھی ان لوگوں كے ساتھ كاررواں میں شریك ہوجائیں، اور 25 كی صبح نو بجے تك حیدرآباد پہنچ جائیں، چنانچہ میں نےحامی بھر لی اور دلہی سے بذریعہ جہاز 9 بجے صبح حیدرآباد پہنچا، وہاں ایرپورٹ پر سب لوگ منتظر تھے ، ان كے ساتھ ہم ٹیكسی سے بیدر كےلیے روانہ ہوگئے۔ شاداں گروپ آف میڈیكل كالجز كے اڈوائزر جناب محمد رفیق صاحب پورے راستے ہمیں مختلف حوصلہ افزا واقعات سناتے رہے، تعلیمی میدان میں بڑے پیمانے پر كام كرنے كےلیے ابھارتے رہے، یہاں تك كہ دیكھتے ہی دیكھتے ہم سب بیدر پہنچ گئے، بیدر میں ہم لوگوں كا زور دار استقبال ہوا، ڈاكٹر عبدالقدیر صاحب نے تعلیمی اداروں كا ایسا جال بچھا یا ہے جنہیں دیكھ كر سب لوگ اش اش كرنے لگے۔ہم لوگ یكے بعد دیگرے مختلف شعبہ جات كا معائنہ كرنے لگے۔ شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنز ہندوستان میں تین بڑے اداروں میں سے ایك تصور كیا جاتاہے، پچھلے سال یہاں سے 157 بچوں نے گورنمنٹ میڈیكل كالجز میں میڈیكل كی سیٹیں حاصل كی ہیں، اس ادارہ كی كامیابی كو دیكھ كر پورے ہندوستان سے اس كی كافی ستائش ہوئی ہے، وزارت اقلیتی امور ، حكومت ہند نے اسے سالانہ كروڑوں روپے فنڈ دینا شروع كیا ہے اور جس سے محتاج بچوں كو میڈیكل كے لیے تیار كرنے میں استعمال كیا جارہا ہے ۔
شاہین گروپ كا وزٹ كركے ایسا لگاكہ میں كسی ماڈرن طرز كے اسلامی ادارہ میں آگیا ہوں، یہاں مخلوط تعلیم كا دور دور تك اتہ پتہ نہیں ہے، بچوں كے كیمپس میں گیا تو دیكھاكہ عظیم الشان عمارت میں ہزاروں بچے گہرے مطالعے اور تعلیم وتعلم میں منہمك ہیں، ہر جگہ پڑھنے پڑھانے كا ماحول ہے، ہر شخص كتابوں كی دنیا میں گم ہے،اساتذہ ہرجانب بچوں كی نگرانی پر مامور ہیں ، كہیں پر لكچر ہورہا ہے، كہیں بچے مذاكرہ اور ڈسكشن میں لگے ہیں، كہیں ذاتی مطالعہ كا بازار گرم ہے، ہر شخص كتابوں كو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوا ہے، كہیں بنگلور سے سیٹلائیٹ كے ذریعہ میڈیكل كی خصوصی كلاسز چلائی جارہی ہیں، بچے ہمہ تن منہمك ہوكر كلاسوں كو اٹنڈ كررہے ہیں یا اپنے مطالعہ میں مشغول ہیں، كہیں سے كوئی آواز یا شور وغل نہیں سنا ئی دے رہی ہے، پوری عمارت ڈسپلن اور صحیح نظم وضبط كی منہ بولتی تصویر بنی ہوئی تھی،بچوں كے چہرے پر بس ایك ہی آرزو دكھائی دے رہی تھی كہ ہمیں میڈیكل ٹسٹ میں كامیابی حاصل كركے گورنمنٹ میڈیكل كالج میں داخلہ لینا ہے ، ہر شخص اپنی اس آرزو كو پایہ تكمیل تك پہنچانے كےلیے تیار وپا بہ ركاب دكھ رہا تھا۔
ہم لوگوں كو بوائز كیمپس كے ڈسپلن نے جس قدر متاثر نہیں كیا اس سے زیادہ گرلس كیمپس كے شاندار اسلامی واخلاقی ماحول نے، لڑكیوں میں ڈسپلن، پردہ، حجاب اور سنجیدگی آخری حد تك پائی جارہی تھی، بوائز كیمپس سے گرلس كیمپس كسی طور پر كم نہیں تھا، ڈاكٹر عبدالقدیر صاحب نے تعارف كراتے ہوئے بتایا كہ گرلس كمیپس میں آرایس ایس اور بی جے پی كے لوگ بھی اپنی بچیوں كو دے جاتے ہیں اور كہتے ہیں كہ یہاں ہماری بچیاں زیادہ محفوظ ہیں، كئی ایسی بچیوں نے بھی زبردست كامیابی حاصل كی ہے، اور وہ گورنمنٹ میڈیكل كالج میں تعلیم حاصل كررہی ہیں ، اس اسلامی ماحول نے اغیار كو بھی یہ اعتراف كرنے پر مجبور كیاہے كہ آج كے بےہنگم دور میں اسلامی ماحول ہی بچوں اور بچیوں كو ڈسٹركشن سے روك سكتا ہے،ورنہ یوں ہی ہماری نئی نسلیں تباہ ہوتی رہیں گی اور ہم آہ وزاری كرتے رہ جائیں گے۔
مغرب كی نماز میڈیكل كی تیار ی كے مقصد سے بوائز كے لیے مخصوص بلڈنگ میں ادا كی، مغرب كی نماز كے بعد ہمیں مختصر خطاب كرنے كو كہا گیا ، راقم الحروف، ڈاكٹر رفیق صاحب ، جناب منور صاحب اور جناب محمد عتیق صاحب نے مختصرا خطاب كیا ، میں نے اپنی گفتگو میں بچوں كو اچھا سائنٹسٹ ، اچھا ڈاكٹر اور اچھارسرچر بننے كی تلقین كی ، جیسا كہ پچھلے ادوار میں ہمارے آباء واجدادنے سائنس وٹكنالوجی كے میدان میں كارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ،اسی طرح میں نے انہیں البیرونی ، فارابی، بوعلی سینا اور دوسرے بڑے سائنٹسٹ كے نقش قدم پر چلنے كے لیے ابھارا، بچوں نے ہماری باتوں كو كافی اہتمام سے سنا اور ہر ممكن اپنی كوشش جاری ركھنے كاعزم بالجزم دكھایا۔
پروگرام كے بعد ہم لوگ ہاسٹل كے كمروں كی زیارت میں لگ گئے ، ایك ایك سسٹم كی وضاحت جناب عبدالقدیر صاحب فرمارہے تھے، انہوں نے بتایا كہ بچوں كو فجر كی نماز سے قبل ہی جگایا جاتا ہے، وہ تھوڑی ورزش كركے اپنی زندگی كی بھاگ دوڑ میں منہمك ہوجاتے ہیں، اور كتابوں سے چمٹ جاتے ہیں۔
شاہین گروپ آف انسٹی ٹیوشنز میڈیكل كی تیاری كا ایك مثالی ادارہ ہے، جہاں سےہر شخص اپنے بچوں كی میڈیكل تعلیم كو پورا كرنے كا خواب دیكھ سكتا ہے، یہ ادارہ ان كے حسین خوابوں كی تعبیر كی آماجگاہ بننے كا رول ادا كرسكتا ہے جہاں سے بچے بن سنور كر كمپٹیشن فائٹ كرنے كے اہل بن سكتے ہیں۔(ملت ٹائمز)
( مصنف رحیق گلوبل اسکول کے ڈائریکٹر ہیں)