شمس تبریز قاسمی
فروری کا مہینہ میرے لئے بہت اہم تھا ، اسی ماہ کی پانچ تاریخ کو میری شادی ہوئی تھی ، 24 فروری کو ایران جانے کا میں نے وعدہ کررکھاتھا ، چناں چہ شادی کی مصروفیات سے فارغ ہوکر 24 فروری کو ایران کیلئے صحافیوں کے قافلہ کے ساتھ روانہ ہوگیا ۔ صبح نو بجے اندرا گاندھی انٹر نیشنل ائیر پورٹ نئی دہلی سے بذریعہ دبئی تہران کیلئے فلائٹ تھی ، دن کے بارہ بجے ہم دبئی پہونچ گئے ، وہاں دس گھنٹہ کا وقفہ تھا ، ہم لوگوں نے دبئی کے ٹرمینل تھری پر ہی یہ پورا وقت گزارا ، بلاشبہ دبئی ایئر پورٹ دنیا کے خوبصورت ترین ایئر پورٹس میں سے ایک ہے ، ہر طرح کی سہولیات ہے، خوبصورت نظارہ ہے ، لمبا چوڑا ایریا ہے، ایئر پورٹ کے اندر یہاں میٹرو چلتی ہے ، ایک ٹرمینل سے دوسرے ٹرمینل پر جانے کیلئے بس کے ذریعہ لمبا سفر کرنا پڑتا ہے بلکہ ایک ٹرمینل تھری پر ایک زون سے دوسرے زون میں پیدل جانا بھی آسان نہیں ہوتاہے وہاں موجود الیکٹرک ٹیکسیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے، دبئی ایئر پورٹ پر دسیوں چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنی ہوئی ہیں جسے نماز خانہ اور انگریزی میں پریئر روم کہا جاتا ہے ، ہر نماز کے وقت اذان ہوتی ہے اور اذان کی آواز پورے ایئر پور پر سنائی دیتی ہے بہر حال دبئی انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے رات کے نو بجے کی ہماری فلائٹ تہران کے امام خمینی انٹر نیشنل ایئر پورٹ کیلئے تھی جہاں ہم ساڑھے دس بجے پہونچ گئے ۔
Dubai Airport जितना बड़ा है उतना ही खूबसूरत भी है, पिछली बार UAE आया था तो सीधे बाहर निकल गया था, इस बार अच्छी तरह घूमने का मौका मिला है, जगा जागा यहां मस्जिद भी है और हर नमाज़ के टाइम एयरपोर्ट के अंदर अज़ान भी होती है pic.twitter.com/b9NRYTDhtx
— Shams Tabrez Qasmi (@ShamsTabrezQ) February 25, 2022
تہران ایئر پورٹ بھی نہایت خوبصورت اور جاذب نظر ہے ، دیواروں پر ایران کی تاریخ اور ثقافت کو درشایا گیا ہے ۔ تہران انٹر نیشنل ایئر پورٹ پر ہمارے میزبان استقبال کیلئے موجود تھے ، ہمارے میزبان میثم آغا اپنے ساتھیوں کے ساتھ ریسیو کرنے تشریف لائے ہوئے تھے ، ایئر پورٹ سے باہر نکلنے کے بعد ان کے ساتھ ہم ہوٹل کیلئے روانہ ہوگئے ۔ تہران کا انٹر نیشنل ایئرپورٹ شہر سے تقریبا تیس کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے اور کم وبیش ایک گھنٹہ کار استہ ہے ۔ رات کی خوبصورتی کا لطف اٹھاتے ہوئے ہم انقلاب ہوٹل پہونچ گئے جہاں ہمارے ٹھہرنے کا انتظام وانصرام تھا ۔ سڑکوں پر چلتے ہوئے تہران کی خوبصورتی مسحو ر کرنے والی تھی ، روشنی سے پورا شہر جگمگا رہا تھا ۔ ہوٹل میں ہمارا روم گیارہویں منزل پر تھا جس کی گیلری سے پورا تہران روشن دکھائی دیتا تھا اور وہاں سے شہر کا نظارہ دلربا ہوتا تھا ۔شہرکی خوبصورتی اور رات کی چاندی میں پرسکون نیند آئی اور یوں پہلی رات تہران میں ایسی گزری کی ساری تھکن دور ہوگئی ۔
Beautiful voice of Azan at Dubai International Airport pic.twitter.com/CuIfZXJA9H
— Shams Tabrez Qasmi (@ShamsTabrezQ) February 25, 2022
اگلی صبح ناشتہ کے بعد ہمیں سب سے پہلے ایران کے پہلے سپریم لیڈر رہبر انقلاب علامہ روح اللہ خمینی کے اس گھر کا دورہ کرایا گیا جہاں انہوں نے عراق ۔ ایران جنگ کے درمیان رہائش اختیار کی تھی ، بعد میں اسی کو مستقل رہائش گاہ بنالیا اور وہیں سے پورے حکومتی فرائض انجام دیتے رہے ۔ تہران شہر سے بیس کیلو میٹر کے فاصلہ پر جماران نامی ایک پہاڑی علاقہ ہے ۔ وہاں ایک چھوٹی سی مسجد اور دو کمروں پر مشتمل معمولی سا مکان ہے ۔ انقلاب ایران کے بعد جب عراق اور ایرا ن کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور عراقی فورسز نے امام خمینی کو نشانہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی تو اس موقع پر فوجی ماہرین کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے امام خمینی نے جماران پہاڑ کے دامن میں رہائش اختیار کرلی ، دو کمروں پر مشتمل یہ مکان امام خمینی نے کرایہ پر لیا اور ہر ماہ کرایا ادا کیا ۔ دفاعی نقطہ نظر سے یہ جگہ محفوظ تھی اور کسی بھی طرح یہاں حملہ کرنا کسی بھی فوج کیلئے ممکن نہیں تھا ، مسجد میں رہبر انقلاب خطاب کرتے تھے ، وہیں سارے فوجی افسران ، صدر مملکت اور دوسرے ذمہ داران آکر ملاقات کرتے تھے ، غیر ملکی مہمانان اور دوسرے ملکوں کے سربرہان مملکت سے بھی امام خمینی سے اسی جگہ ملاقات کرتے تھے ۔ یہ جگہ آج بھی مکمل طور پر محفوظ ہے ۔ مسجد اپنی جگہ برقرار ہے ، امام خمینی کے تقریر کرنے اور بیٹھنے کی جگہ بھی احاطہ میں موجود ہے ، مسجد سے متصل ایک چھوٹا سا میوز یم بنایاگیا ہے اس کے علاوہ مسجد سے متصل امام خمینی کا دو روم کا گھر بھی علی حالہ برقرار ہے ، رہبر انقلاب کے علاج و معالجہ کیلئے ایک ڈاکٹر کو وہاں متعین کیاگیا تھا اب اس جگہ پر ایک چھوٹاسا اسپتال بنا دیا گیا ہے ۔ رہبر انقلاب سادہ مزاج اور سادگی پسند انسان تھے ،معمولی چٹائی پر بیٹھتے تھے ،صرف دو کمرے پر مشتمل گھر میں قیام کرکے انہوں نے ایران میں انقلاب برپاکے اسلامی جمہوری نظام قائم کیا ، امریکہ اور برطانیہ کی حمایت یافتہ عراقی فوج کو شکست سے دوچار کیا ، امریکہ کو لگاتار چیلنج کیا ، اسرائیل کی نیند حرام کی۔ امام خمینی کی رہائش گاہ ، مسجد اور گھر دیکھنے کے بعد یقینی کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ یہ اسی شخص کا دولت کدہ ہے جس نے ایران کی تقدیر بدلنے کا کام کیا ، ایران کو امریکی غلامی سے آزادی دلائی ، نسلوں کی تربیت کا فریضہ انجام دیا ۔لیکن یہ سچ ہے ۔ امام خمینی نے سادگی کو ترجیح دی ، تصنع اور تکلف سے منع کیا ، ایران قالین کیلئے دنیا بھر میں مشہور ہے لیکن انہوں نے خود اپنی مسجد میں قالین نہیں بچھایا، آج بھی وہاں اسی طرح کی سادگی برقرار ہے ، مسجد میں قالین نہیں ہے جو چیز پہلے جیسی تھی ویسی ہی ۔ امام خمینی کے مکان کا دورہ کرنے کے دوران اس سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبد اللہ فہد سے بھی ملاقات ہوئی ، انہوں نے گرمجوشی کا مظاہرہ کیا اور ہم سب کا پرتپاک استقبال کیا اور مزید تفصیلات بتائی ۔
رہبر انقلاب امام خمینی رحمہ اللہ نے تہران میں پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر امریکہ اور پوری عالمی طاقتوں کے خلاف جنگ کی قیادت کی تھی، آج وفد کے ہمراہ دو کمرے پر مشتمل تاریخی مکان، مسجد اور یہاں موجود چھوٹے سے میوزیم کو دیکھنے کا موقع ملا pic.twitter.com/F020aMFfk3
— Shams Tabrez Qasmi (@ShamsTabrezQ) February 26, 2022
یہاں کا دورہ مکمل ہونے کے بعد دوبارہ انقلاب ہوٹل پہونچے ، ریسٹورینٹ کے ویٹرس ہماری آمد کے منتظر تھے ، پہونچتے ہم سبھی کو کھانے کے میز پر بیٹھا دیا گیا ، مینو بھی سامنے تھا ، فارسی اور انگریزی زبان دونوں میں یہ مینو تھا لیکن اس کے باوجود اسے سمجھنا مشکل تھا ، انگریزی اور فارسی دونوں زبان میں طعام کی فہرست میں درج ناموں کو پڑھنے کے باوجود سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کونسی ڈش کیسی ہوتی ہے ، کیا بہتر ہوگا ، کس ڈش کا آڈر کیا جائے ، ذہن پر مکمل زور دینے کے باوجود جب کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیاتو ہم لوگوں نے جناب اشرف زیدی اور اپنے میزبان میثم آغا سے کہاکہ ایران کے کھانے سے ہم واقف نہیں ہیں، یہاں کے کلچر کے بارے میں معلومات نہیں ہے ۔ اس لئے آپ اپنی پسندیدہ ڈش آڈر کریں، جو آپ کی پسند ہے وہی ہم سب کی پسند ہوگی ۔ بالآخر ایک ڈش کا انہوں نے سبھی کیلئے آڈر دیا جسے مخلوط کہا جاتا ہے ۔ اس ڈش میں چاول علاحدہ ہوتا ہے ، چکن اور مٹن کا کباب ہوتاہے ، اس کے علاوہ سلاڈ بھی فراہم کیا جاتا ہے ۔ یہاں چاول کے ساتھ دال ، شوربہ یا سبزی کھانے کا رواج نہیں ہے ، خشک چاول کھایا جاتا ہے ، الگ سے کباب ، گوشت یا کوئی اور سبزی کھا ئی جاتے ، منہ میں پہلے ایک لقمہ چاول رکھیے ، پھر کباب یا سبزی کا ایک ٹکرا منہ میں ڈالیے۔ یہی یہاں کھانے کا طریقہ ہے ۔ چاول عمدہ اور ذائقہ ہوتاہے ، بھارت میں جو سادہ چاول بنتا ہے جسے بہت سارے علاقوں میں بھات بھی کہا جاتا ہے اسے کھانا ممکن نہیں ہے جب تک کوئی سالن یا دال نہ ہو لیکن وہاں سادہ چاول بھی ذائقہ دار ہوتا ہے اور اسے تنہا کھایا جاسکتا ہے ۔ شاید چاول بناتے وقت کسی مصالحہ کا اس میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ (جاری )