بیت المقدس (ملت ٹائمزایجنسیاں)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم کی خواہش کے برخلاف پیر کے روز مقبوضہ بیت المقدس میں دیوارِ براق اور کلیسائے قیامت کا انفرادی دورہ کیا۔ نیتن یاہو اس موقع پر ٹرمپ کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے تا کہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ واشنگٹن بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرتا ہے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ امریکی اور اسرائیلی جانب نے اعلانیہ بات چیت میں پرسکون ماحول کا تاثر دیا۔ اگرچہ اس سے قبل بیت المقدس کے معاملے اور امریکی سفارت خانے کی منتقلی کے عدم اعلان کے سبب کشیدگی کا عنصر پایا جا رہا تھا۔ نیتن یاہو نے ٹرمپ کی جانب سے ایران کو نیوکلیئر طاقت نہ بننے دینے کے اعلان کا خیر مقدم کیا جب کہ دو ریاستی حل کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔
نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ میں نے ایران کے موضوع کے حوالے سے انتہائی واضح موقف اختیار کیا اور ساتھ ہی اسرائیلی فلسطینی تصفیے کے بارے میں بھی کیوں کہ بہت سے امکانات ہمارے منتظر ہیں”۔
دوسری جانب ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ” سابقہ انتظامیہ نے ایران کو غیر معمولی ڈیل سے نوازا۔ ہم نے ان کو ڈھیل دی اور 6 ماہ کے دوران وہ پلٹ گئے اور دہشت گردی پھیلائی۔ یہ دہشت گردی ہمیں شام ، یمن اور عراق میں ایرانی موجودگی کے ذریعے اور اسرائیل کے خلاف بھی نظر آ رہی ہے”۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں باور کرایا کہ خطے میں امن کے حصول سے امریکا اور پوری دنیا کے امن کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ اس میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امن کو مضبوط بنانے کے لیے بارہا کی جانے والی کوششیں شامل ہیں۔ ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ آخرکار فریقین کے درمیان معاہدہ طے پا جائے گا۔