آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈیہ جنگ جیت گیا ہے لیکن آگے چیلنجز اور زیادہ ہیں 

خبردرخبر(523)
شمس تبریز قاسمی 
طلاق معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مسلمانوں کے درمیان متضاد قسم کی آراء پائی جارہی ہے ،کچھ لوگ اسے آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ اور مسلمانوں کی جیت قراردے رہے ہیں تو کچھ لوگ شکست سے تعبیر کررہے ہیں،فیس بک اور سوشل میڈیا پر نوجوان طبقہ اسے شریعت مخالف فیصلہ قراردے رہاہے ،تاہم مسلم قیادت اس فیصلہ پر اطمینان کا اظہارکررہی ہے اور مسلمانوں کی موافقت میں قراردے رہی ہے ، وہ لوگ بھی اسے اطمینان بخش فیصلہ قراردے رہے ہیں جو طلاق کے سرے سے خلاف تھے ،لیکن پورا معاملہ کیا ہے ،اس فیصلہ میں کس کی جیت ہوئی اور کس کی شکست ،اس کے اسباب ونتائج کیا ہوں گے ،زیر نظر تحریر میں ہم انہیں امور پر بحث کریں گے ۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کی کاپی ہمارے سامنے ہے ،395 صفحات پر یہ فیصلہ مشتمل ہے ،مکمل فیصلہ میں چاہ کر بھی نہیں پڑھ سکتا تاہم کچھ اہم مقامات سے ہم نے پڑھنے کی کوشش کی اور اسی کی بنیاد پر یہ تحریر سپرد قرطاس کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔نیز اس تحریر کے ساتھ ہم فیصلے کی کاپی بھی اٹیچ کررہے ہیں ، سب سے نیچے ہے  وہ ڈاون لوڈ کرکے پڑھ سکتے  ہیں
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں سب سے پہلے اس بات کی وضاحت کی ہے طلاق مسلم پرسنل لاء کا معاملہ ہے ،ہندوستان میں آرٹیکل 25 کے تحت ہر مذہب کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے اس لئے عدلیہ کو اس میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے ،دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ عدالت نے صاف طور پر اس حقیقت کو تسلیم کیاہے کہ طلاق اسلامی نظام اور شریعت اسلامیہ کا لازمی حصہ ہے ،وہ کوئی سماجی اور سیاسی مسئلہ نہیں ہے ،سپریم کورٹ میں اصل بحث اسی پر ہونی تھی کہ آیا طلاق اسلامی شریعت کا حصہ ہے یا نہیں ،حکومت اوردیگر اسلام بیزار عناصر کا موقف یہ تھاکہ طلاق کا مسئلہ مسلم پرسنل لاء کے دائرے میں نہیں آتاہے ، یہ ایک سماجی اور محض حقوق نسواں کا مسئلہ ہے اس لئے اس کو مذہب اور عقیدے سے نہ جوڑتے ہوئے ختم کردیا جائے ،حکومت کے وکیل اٹارنی جنرل نے بھی بحث کے دوران واضح طور پر یہ کہاتھاکہ حکومت اسلامی نظام طلاق کے خلاف ہے، وہ شوہر اور بیوی کے درمیان جدائیگی کیلئے کسی نئے قانون کو متعارف کراناچاہتی ہے ،آج کے فیصلہ نے واضح طور پر یہ ثات کردیاہے حکومت کے موقف کو عدالت نے بالکلیہ مسترد کردیاہے، سلمان خورشید سمیت ان تمام لوگوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے جو طلاق کو غیری شرعی اوراسلامی ثابت کرنا چاہ رہے تھے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے موقف کو عدلیہ نے تسلیم کیاہے۔
اس فیصلے میں دوسری اہم بات یہ ہے اور وہی موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ طلاق بدعت کو سپریم کورٹ کے تین ججز جسٹس کورین ،جسٹس نریمان اور جسٹس للت نے غیر قانونی قراردیتے ہوئے اس پر چھ ماہ کیلئے پابندی عائد کردی ہے ، ججز نے اسے غیر قانونی قراردیتے ہوئے ان ممالک کے فیصلے کو مد نظر رکھا ہے جہاں ایک نشست کی تین طلاق پر پابندی عائد ہے اور اسی کو بنیاد بنایاگیا ہے ،سپریم کورٹ نے حکومت کو یہ بھی ہدایت دی ہے کہ وہ ایک مجلس کی تین طلاق پر قانون بنائے ۔
یہ وہ پہلو ہے جس کی بنیاد پر ہمیں یہ نظر آرہاہے کہ سپریم کور ٹ کا فیصلہ اسلام کے خلاف ہے ،شریعت میں مداخلت پر مبنی ہے یا پھر تضاد کا شکار ہے ،لیکن اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ججز نے صرف طلاق بدعت کو غیرآئینی قراردیتے ہوئے اس پر بین لگائی ہے ،یہ خود اسلام میں بھی مبغوض اور ناپسندید ہ ہے ، مسلم سماج سے اس کا خاتمہ ضروری ہے تاہم کورٹ کا پابندی لگانا کسی انداز میں مداخلت پر مبنی ہے ،متعدد مسلم ملکوں میں بھی ایک نشست کی تین طلاق ایک طلاق مانی جاتی ہے ،تاہم عدالت نے اس میں ذمہ داری حکومت کے سر ڈال دی ہے ،حکومت کا موقف شروع سے طلاق کے سلسلے میں اسلا م کے خلاف رہاہے ،اگر عدالت حکومت کو آئین ساز ی کیلئے نہ کہتی تو بھی حکومت اپنے خلاف فیصلہ آنے کے بعد آئین تشکیل دیتی جیسا کہ اس کے وکیل نے کہاتھا ،اس لئے یہ فیصلہ مجموعی طور پر بورڈ کے موقف کے مطابق آیاہے لیکن بورڈ کی ذمہ داریوں میں اور اضافہ بھی ہوگیاہے ، چیلنجز بڑھ گئے ہیں،اب تک بورڈ طلاق ثلاثہ کی یہ جنگ عدالت میں لڑرہاتھا لیکن اسے اب حکومت سے جنگ لڑنے پڑے گی ،اب تک وقت کی بربادی ہوئی ہے ،روپے کا ضیاع ہواہے لیکن طلاق کا مسئلہ ختم نہیں ہوا ہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم قیادت 80 کی دہائی کی طرح مرکزی حکومت کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کرے گی یا پھر مودی سر کار کے سامنے وہ اپنی حیثیت تسلیم کرانے میں ناکام رہے گی ۔
طلاق کے مسئلے کو سب سے زیادہ ہوا نیشنل میڈیا نے دیا ہے ،مہینوں بحث ومباحثہ کے بعد آج بھی قومی میڈیا نے مختلف مسلم مقامات پر اپنے نمائندے بھیجے ،الیکشن کے نتائج آتے وقت جس طرح کوریج کیا جاتاہے وہی منظر آج بھی تھا ،میری بھی نگاہیں ٹی وی چینلوں پر تھی ،فیصلہ سناتے ہوئے جب ججز نے یہ کہاکہ طلاق کا تعلق مسلم پرسنل لاء سے ہے ،عدلیہ کو اس میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہے تو اینکر س کی زبانیں گنگی ہوگئیں ،کچھ دیر بعد جب ایک مجلس کی تین طلاق پر پابندی کی خبر آئی تو وہ اپنی اصل پوزیشن میں آئے اور تمام چیزوں کو پس پشت ڈال کراسی کو دکھانے لگے کہ آج سے تین طلاق پر پابندی لگ گئی ہے،مودی سرکار،اسلام بیزا رخواتین اور مسلم مخالف میڈیا کی بڑی کامیابی ہے ،یہ تاریخی فیصلہ ہے ،افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا کے اس پیروپیگنڈہ سے مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت بھی متاثر ہوگئی ،ہم جیسے نوجوان سوشل میڈیاپر مایوس ہوکر عدالتوں کو برا بھلاکہنے لگے ،حالاں کہ سچائی یہ ہے کہ عدالت نے معاملہ کہ گول مول رکھاہے ،مداخلت سے انکار کرکے گیند سرکار کے پلرے میں ڈال دیاہے ،اگر عدالت سرکار سے قانون سازی کیلئے نہ بھی کہتی تو حکومت قانون بناتی جیسا کہ پہلے سے وہ اشارہ دے چکی ہے ،اسی لئے ملت اسلامیہ کو نیشنل میڈیا کے منفی پیروپیگنڈہ سے بچاتے ہوئے اس فیصلہ کے آتے ہی ملت ٹائمز کی سب سے پہلی رپوٹ میں اسے مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جیت قرارد یا گیا ،بہت سے فیس بک مفکرین نے ملت ٹائمز کو اس کیلئے برا بھلا بھی کہا،ملت ٹائمز کے خلاف گمراہیاں پھیلائی لیکن آگے چل کر مولانا ارشدمدنی ،مولانا ولی رحمانی اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سمیت تمام اہم ذمہ دار شخصیات کے پریس نوٹ نے ملت ٹائمز کی اس پہلی رپوٹ پر صداقت کی مہرلگائی ۔
سائرہ بانو کی درخواست پر سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ پر بحث شروع ہوئی تھی اور پھر کئی خواتین بھی اس میں شریک ہوگئیں،5 سے 18 مئی تک مسلسل عدالت میں عظمی میں اس پر بحث ہوئی اور آج 22 اگست 2017 کو پانچ ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کی بینچ نے یہ فیصلہ سنادیا جس میں چیف جسٹس کھیر ،جسٹس کورین ،جسٹس عبد النظیر ،جسٹس للت اور جسٹس نریمان شریک تھے ،یہ پانچوں پانچ مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، اور جسٹس کھیر اور جسٹس عبد النظیر تین طلاق کو بھی غیر آئینی نہیں مانتے ہیں ۔
stqasmi@gmail.com

Supreme Court of India Judgment WP(C) No.118 of 2016 Triple Talaq (1)