روہنگیا بحران اور مسلم حکمران

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی

میانمار میں روہنگیامسلمانوں کی نسل کشی کا تعلق صرف روہنگیا سے نہیں بلکہ پوری قوم سے ہے ،بدھ ازم کے پیروکاروں نے میانمار کے مسلمانوں کا قتل عام کرکے اور انہیں اپنے یہاں سے نکال کرکے پوری دنیا کے مسلمانوں کو چیلنج کیا ہے ،انہیں جنگ کی دعوت دی ہے ،انہیں غیرت دلائی ہے کہ ہمت ہے تو آؤ مقابلہ کرلو،اپنی قوم کو بچالو،پوری دنیا پر فتح ونصرت کا علم لہرانے کا دعوی کرنے والو ان روہنگیا کی حفاظت کرلو۔اس للکا رکی جواب میں پوری مسلم دنیا خاموش ہے ،سوائے ایک دو کے کسی کی زبان میں اتنی ہمت نہیں ہورہی ہے کہ وہ میانمار کو اس کی دہشت گردی سے روک سکے ،مسلمانوں کو ظلم وستم سے بچاسکے۔
دنیا کے 57 مسلم ممالک میں اب تک صرف ترکی نے میانمار کے خلاف سب سے سخت ایکشن لیاہے،طیب اردگان نے آنگ سوچی کو فون کرکے کہاکہ آرکان میں جو کچھ ہورہاہے وہ اچھانہیں ہے ،روہنگیا مسلمانوں کا قتل بند ہونا چاہیئے ،اردگان کے اس قتل کے بعد میارنمار حکومت میں ہلچل مچ گئی ،برسوں سے روہنگیا کے مسئلے پر خاموش سوچی کو خاموشی توڑنی پڑی ،اردگان یہیں پر نہیں رکے بلکہ انہوں نے اپنی اہلیہ اور وزیر خارجہ کو ایک وفد کے ساتھ بنگلہ دیش مہاجرین کا جائزہ لینے اور ریلیف فراہم کرنے کیلئے روانہ کیا ،بنگلہ دیش سرکار سے کہاکہ روہنگیا کیلئے دروازے کھول دیئے جائیں تمام مصارف کی تکمیل ترکی اداکرے گا،اردگا ن اس مسئلے کو 19 ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنر ل اسمبلی کے اجلاس میں اٹھانے والے ہیں،اس سلسلے میں بحر الہند میں واقع مالدیپ بھی قابل ذکر ہے جہاں کے صدر محمد یامین نے میانمار سے اپنا تجارتی رشتہ ختم کرلیاہے ،انڈونیشا کی وزیر خارجہ محترمہ ریٹونے بھی 25 اگست کے بعد میانمار جاکر آنگ سوچی سے ملاقات کی اور انہیں روہنگیا بحران کی جانب توجہ دلائی۔بنگلہ دیش اور وہاں کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بھی روہنگیا کے ساتھ مسلسل ہمدردی کررہی ہیں ،انہوں نے وہاں کے کیمپوں کا جائز ہ لیاہے او ردو ہزار ایکڑ زمین فراہم کی ہے۔
مذکورہ ممالک کی ان معمولی کوششوں کے علاوہ کسی نے کچھ نہیں کیاہے، تقریبا سبھی خاموش ہیں ،یا زیا دہ سے زیادہ انہوں نے زبانی مذمت کی ہے یا دفتر خارجہ میں سفیر کو طلب کرکے اپنا احتجاج درج کرایاہے ،کچھ ممالک نے اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے ،حال ہی میں 57 مسلم ممالک کی آرگنائزیشن اسلامی تعاون تنظیم کا قزاقستان کی راجدھانی آستانہ میں اجلاس ہواہے توقع تھی کہ یہ اجلاس کوئی سخت فیصلہ لے گا لیکن افسوس کچھ نہیں ہوسکا ،صرف زبانی مذمت کی گئی اور وہاں جاکر صورت حال کا جائزہ لینے کیلئے ایک وفد کو جانے کی اجازت مانگی گئی ۔
میانمار میں جاری مظالم اور مسلم حکمرانوں کی پالیسی کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہنا بجاہوگا روہنگیا کی نسل کشی کیلئے سب سے زیادہ ذمہ دار یہی مسلم ممالک ہیں ،اپنے ملک کی ترقی ،پیسہ کے حصول اور فروغ تجارت کے شوق نے انہیں خاموش رہنے پر مجبو ر کیاہے او رمیانمار ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر مسلسل بے لگا م ہوتاجارہاہے ،سعودی عرب ،قطر ،متحدہ عرب امارات او رکویت سمیت پورے خلیجی ممالک کے میانمار سے گہر ے تجارتی تعلقات ہیں،چائناسے قریبی تجارتی تعلقات نے سعودی عرب کی زبان کواورخاموش کررکھاہے ،’’انے گلین’’ ایک معروف جرنسلٹ ہے ،انہوں نے میانمار اور خلیجی ممالک کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھاہے کہ چین اور سعودی عرب کے درمیان گہرے تجارتی تعلقات ہیں،چین 19 فیصد خام تیل سعودی عرب سے بر آمدکرتاہے اور یہ راستہ میانمار سے ہوکر گزرتاہے، دوسری جانب میانمارمیں چین بڑی تعداد میں سرمایہ کاری کررہاہے ،اسرائیل اور میانمار کے درمیان بھی گہرے رشتے ہیں،ہتھیاروں کی فراہمی زیادہ تر اسرائیل سے ہی ہورہی ہے ،ایسی صورت حال نے سعودی عر ب کو میانمار سے رشتہ برقرار رکھنے اور کوئی ایکشن نہ لینے پر مجبور کررکھاہے ، ایران سے تعلقات بگڑنے اور جنگ ہونے کی صورت میں بھی سعودی عرب کی نگاہیں جنوب مشرقی ایشاء میں فوڈ فراہمی اور دیگر چیزوں کے حوالے سے میانمار پر ہی ٹکی ہوئی ہیں۔
قطر بھی تجارتی ترقی کے نام پر کوئی اقدام نہیں کرسکتاہے ،چین اور قطرکے درمیان پائپ لائن بچھانے کامنصوبہ زیر غور ہے جو میانمار ہوکر گزرے گا ،قطر گیس کی سپلائی چین میں کرنا چاہتاہے جس کیلئے میانمار کی رضامند ی بہت اہم ہے ،اگر ان دونوں کے درمیان سفارتی تعلقات بگڑتے ہیں تو چائنا کے ساتھ یہ ڈیل خطرے میں پڑجائے گی ، اس کے علاوہ قطر کی اریدو نیٹ ورک کمپنی کو میانمار میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ،وہاں سب سے بہتر نیٹ ورک فراہم کرنے والی کمپنیوں میں اریدو کا شمار ہوتاہے ،پندرہ سالوں کیلئے اس کا معاہدہ ہے ، دوسالوں میں 15 بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری ہوچکی ہے ۔کویت میانمار سے اپنے رشتے بہتر بنانے کیلئے اس کی امداد کرتاہے ،سفارت خانہ کا نصف خرچ حکومت خوداداکرتی ہے ۔پاکستان پہلے سے ہی چین کے سامنے خود سپردگی کرچکاہے ،اس لئے وہ کبھی کسی ایسے ملک کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے سکتاہے جس سے چین کی قربت ہو ۔
ترکی اور میانمار کے درمیان 1958 سے سفارتی تعلقات قائم ہیں،2012 کے بعد سے یہ تعلقات اب خراب ہوتے جارہے ہیں،انسانی بحران اور میانمار کی اسٹیٹ دہشت گردی کے خلاف انٹر نیشنل فورم میں آواز بلند کرنے کی وجہ سے بھی میانمار اور ترکی درمیان رشتے خراب ہوچکے ہیں تاہم عالمی ادارہ یونسیف ،یواین ایچ سی آر اور آئی او ایم کے ساتھ ترکی بھی وہاں انسانی حقوق کی بحالی کیلئے سرگرم ہے ۔
میانمار او رانڈونیشا کے درمیان بیحد گہرے تعلقات ہیں،1997 سے دونوں جنوب مشرقی ایشاء تنظیم (اے ایس ای اے این ) کے ممبر ہیں،روہنگیا بحران کے تعلق انڈونیشا نے میانمار سے بات ضرورکی ہے لیکن کبھی بھی کوئی موثرکن دباؤ نہیں بنا یاگیا ہے ،تجارتی اور سفارتی رشتے بھی برقرار ہیں،انڈونیشامیانمار کو کاغذات،لوہا،اسٹیل ،تیل اور ربڑ سمیت بہت ساری چیزیں ایکسپورٹ کرتاہے ،دوسری جانب میانمار سے وہ مچھلیاں ،سبزیا ں وغیرہ درآمدکرتاہے ،دونوں ملکوں کے درمیان تقریبا 200 بلین ڈالر کی سالانہ سرمایہ کار ی ہوتی ہے ۔
میانمار سے قریبی تعلق رکھنے والے ممالک میں ایک نام ملیشا کا بھی شامل ہے ،یہ دونوں بھی جنوب مشرقی ایشاء کے ممبر ہیں،سالانہ 500ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوتی ہے ، 2012 کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں جمو د آگیاہے تاہم دونوں ملکوں کے سفرا دوونوں جگہ موجود ہیں،ملیشاء کے وزیر اعظم نجیب رزاق روہنگیا بحران پر کئی مرتبہ بول چکے ہیں،ایک مرتبہ انہوں نے روہنگیا کی حمایت میں نکلنے والی ریلی میں بھی شرکت کی تھی اور خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ ہم روہنگیا کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے ہیں،ان کی حمایت محض اس لئے نہیں کررہے ہیں کہ ہمارا اور ان کا عقیدہ یکساں ہے بلکہ ہم اس لئے بھی ان کی مدد ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ انسان ہیں ،ان کی زنذگی اہمیت ہے ،روہنگیا کے مسائل سے اسلام کی توہین ہورہی ہے ۔
یہ چند اہم ترین مسلم ممالک کی فہرست ہے جن کے میانمار سے تعلقات کا جائزہ لیاگیاہے ،ان ملکوں کے حکمرانوں نے زبانی مذمت کرنے یاکچھ معمولی اقدام کرنے کے سوا کوئی اور ایکشن نہیں لیاہے ،اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ پر بھی ان ممالک نے کوئی خاص دباؤ نہیں بنایا ہے ،خود مسلم ممالک نے مشترکہ طور پر میانمار سرکا کو اس دہشت گردی کے خلاف کوئی ٹھوس پیغام نہیں دیاہے اور نہ ہی انہوں نے اپنا سفارتی رشتہ ختم کیاہے ،ایسا لگتاہے کہ مسلم حکمرانوں کی اکثریت کا ضمیر اب تک بیدا رنہیں ہوسکاہے اور کچھ لوگ اپنے ملک میں روہنگیا کو پناہ دیکریہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ امت مسلمہ کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں ۔
روہنگیا کو اپنے ملک میں پناہ دینا ،ان کی ضرورتیں پوری کرنا اور ان کے ساتھ خیر خواہی سے پیش آنا ان کے اصل مسئلے کا حل نہیں ہے اور نہ ہی حقیقی معنوں میں ان سے ہمدردی ہے ،روہنگیا کا اصل وطن میانمار ہے جو ان سے چھین لیاگیاہے ۔ تاریخ میں کسی قوم پر ظلم کی اس سے بدترین مثال کچھ اور نہیں ہوسکتی ہے ،تمام مسلم حکمرانوں پر یہ ایمانی فریضہ عائد ہوتاہے کہ وہ روہنگیا کو ان کی شہریت دلائیں ،انہیں عزت وقار کے ساتھ ان کے وطن واپس بھیجنے کیلئے جدوجہد کریں ۔یہ صرف مسلمانوں کی نسل کشی نہیں بلکہ مسلمانوں زمین ہڑپنے کا بھی معاملہ ہے ،کل آپ سے فلسطین چھین لیا گیا، افغانستان ،عراق ،شام اور لیبا کو تباہ کرکے وہاں نکل جانے اور دوسرے زمین پر پناہ لینے کیلئے مجبور کیا گیا، آج آراکان کو چھین لیا گیاہے،کل ہوکر کوئی اور ریاست آپ سے چھینی جاسکتی ہے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں