عراق سے واپسی پر ڈاکٹر وسیم راشد کی خاص تحریر
ملت ٹائمز
’’ یہ شیعہ سنی کی لڑائی نہیں ہے۔یہ داعش کے خلاف عراق کی جنگ ہے ۔دنیا میں یہ تشہیر کی جارہی ہے کہ صدام کی حکومت کے خاتمہ کے بعد سنیوں پر ظلم ہورہے تھے،اسی لئے داعش وجود میں آئی جبکہ یہ بالکل غلط پروپیگنڈہ ہے ۔داعش سنیوں کو بھی مار رہے ہیں، ان کی بستیوں کو بھی اجاڑ رہے ہیں‘‘
یہ وہ الفاظ تھے جو نجف کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی ہندوستانی میڈیا گروپ کے کانوں میں پڑے۔ ہندوستانی میڈیا گروپ جس میں مختلف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے سینئر نمائندے شامل تھے کو حضرت امام حسین بورڈ کی جانب سے عراق کی صحیح صورت حال جاننے کی دعوت دی گئی تھی۔ نجف ایئر پورٹ پر مختلف ممالک کے بے شمار گروپ حضرت امام حسین اور حضرت علی کے روضے کی زیارت کرنے کے لئے موجود تھے۔ کسی کے چہرے پر کوئی ڈر و خوف نہیں تھا۔جبکہ عراق کے نام سے ہی اس وقت پوری دنیا سخت تشویش میں مبتلا ہے۔ نجف سے کربلا کے راستے میں آبادی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ہاں تقریباً ہر دو کلو میٹر کے فاصلے پر سخت چیکنگ ہورہی تھی۔ ٹینکز کھڑے تھے جس میں وردی میں ملبوس بڑی بڑی خوفناک گن لئے ہوئے عراقی فوجی تعینات تھے۔ پتہ چلا اس وقت داعش کی وجہ سے پورے عراق میں سخت چیکنگ ہے۔ آبادی تھی،دکانیں تھیں لیکن وہاں لوگ نہیں تھے۔ شاید ہائی الرٹ کی وجہ سے عام لوگ اور چہل پہل نظر نہیں آرہی تھی،لیکن نجف سے کربلا میں داخل ہوتے ہی آبادی کے آثار نظر آنے لگے۔ خواتین کالے برقعوں میں ملبوس جوق در جوق امام حسین کے روضہ کی جانب رواں دواں تھیں۔ کربلا میں تقریبا پوری آبادی شیعہ مسلک کے لوگوں کی ہے۔ لیکن وہان سنی بھی عقیدت کے ساتھ امام حسینؓ کے روضہ پر حاضری دیتے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا گروپ کی سب سے پہلی ملاقات روضہ امام حسین ٹرسٹ کے سربراہ اعلیٰ شیخ عبد المہدی کربلائی سے کرائی گئی،جنہوں نے نہات گرمجوشی سے ہندوستانی میڈیا کا استقبال کیااور ہندوستان کی باہمی محبت و اخوت اور بھائی چارے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کبھی عراق کے لوگ بھی مل جل کر رہتے تھے لیکن داعش کی آمد نے اس کو تہس نہس کردیا ہے ۔انہوں نے ہندوستانی میڈیا سے بار بار ایک ہی بات کہی کہ اس وقت عراق میں شیعہ و سنی کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہے۔ اس لئے اگر ہندوستانی میڈیا ہماری اس بات کو پوری دنیا تک پہنچا سکے تو عراق پر احسا ن ہوگا ،کیونکہ پوری دنیامیں عراق کی یہ شبیہ جان بوجھ کر خراب دکھائی جارہی ہے کہ شیعہ سنی میں شدید لڑائی چل رہی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو داعش کے خلاف لڑنے والوں میں سنی ،عیسائی سبھی شامل نہیں ہوتے۔ داعش نے نہ صرف شیعہ بلکہ دیگر مسالک اور مذاہب کے مراکز کو بھی تباہ و برباد کیا ہے۔ سبھی کا خون بہایا ہے۔ ہندوستانی میڈیا گروپ کو روضہ امام حسین، ٹیلہ زینب، خیمہ گاہ اور روضہ عباس کا بھی دورہ کرایا گیا ،ساتھ ہی امام حسین کے روضہ پر وہاں اہلکاروں کی ڈیوٹی کے اوقات تبدیل ہونے کا منظر بھی دکھایا گیا جو ایک بے حد منظم اور باوقار تقریب تھی ۔جمعرات کا دن تھا اور شاید ہر جمعرات کو ہی امام حسین کے روضہ پر ہزاروں کی تعداد میں زائرین پہنچتے ہیں۔وسیع وعریض دالانوں میں سیاہ برقعوں میں ملبوس خواتین بھی تھیں اور مرد حضرات بھی۔
کچھ خواتین سے بڑی ہی مشکل سے بات کرنے کی کوشش کی ،زبان کا مسئلہ تھا لیکن اشاروں کی زبان بہترین زبان ہے ،اس لئے اشاروں میں ان سے عراق کے حالات جاننے کی کوشش کی تو اندازہ ہوا کہ 12,11 سال سے لے کر بزرگ خواتین تک سبھی ایک لفظ داعش سے خوب واقف تھیں اور ان کے لئے دشمن کا لفظ ستعمال کررہی تھیں۔ایک خاتون جن کا نام سکینہ تھا اور پاکستانی تھیں ان کے خاوند کربلا میں ہی کسی عہدے پر فائز تھے۔انہوں نے زبان سمجھی اور بتایا کہ داعش کے آنے سے پہلے عراق کے حالات بہتر تھے،لیکن داعش کے آنے کے بعد سے پورے عراق میں ہر گھر کا ایک نہ ایک نوجوان داعش کے خلاف کسی نہ کسی پیرا ملٹری فورس میں شامل ہے۔کربلا میں بھی سیکورٹی کے سخت انتظامات تھے،لیکن بازاروں، گلیوں کی زندگی معمول پر تھی، دکانوں پر خوب رونق تھی۔ رنگ برنگی مٹھائیاں سجی ہوئی تھیں۔ جگہ جگہ دکانوں پر حجاب بھی بک رہے تھے اور زیورات بھی کسی کے چہرے پر کوئی خوف نہیں تھا۔ پتہ چلا کہ داعش کے بعد سے زیارت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اس سال چہلم کے موقع پر تقریباً22ملین زائرین یہاں آئے تھے۔ کربلا میں موجود ایک شخص الحسن ابو زید نے بے خوف ہوکر ہندوستانی میڈیا کو بتایا کہ دن بدن بڑھتے زائرین کا آنا داعش کے خلاف اس بات کا اعلان ہے کہ عراقی اس سے نہیں ڈرتے۔داعش عراقیوں کے لئے یزید جیسا ہی ہے اور ہم سب عراقی چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ اپنے دشمن امام حسین کی طرح جنگ کریں گے چاہے ہماری شہادت ہی کیوں نہ ہوجائیں۔
کربلا میں کئی بار بے حد اہتمام کے ساتھ شہیدوں کے جنازے بھی نکلتے ہوئے میڈیا گروپ نے دیکھے ،جو بھی کوئی شیعہ داعش سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوجاتا تھا ،اس کے جسد خاکی کو کربلا میں جلوس کی شکل میں بے حد فخر و عزت سے لایا جاتا اور اس کی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے تھے۔الحسن کے مطابق عراق میں صدام کے دور میں فوج میں بھرتی لازمی تھی،اس لئے ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد فوج میں شامل تھا اور عراق صدیوں سے حالت جنگ میں تھا لیکن صدام کے بعد فوج میں زبردستی کسی کو شامل نہیں کیا جاتا ،پر داعش کے عراق پر حملہ کرنے کے بعد اور شیعہ رہنما آیت اللہ سیستانی کے فتوٰی کے بعد عراق کے ہر گھر کا 15سے 55سال تک کا کوئی نہ کوئی فرد پیرا ملٹری فورس میں شامل ہوگیا ہے۔
نجف اور کربلا میں یوں تو سکون تھا،لیکن بے حد سخت حفاظتی بندوبست تھے۔ نجف کے پرانے اور تاریخی شہر کے بازار پر سکون تھے۔ رونق بھی تھی لیکن اس کے بر خلاف بغداد شہر پوری طرح اجڑا ہوا لگا۔ کربلا سے بغداد کا 100کلو میٹر کا سفر یوں تو زیادہ طویل نہیں تھا لیکن پورے راستے بڑی بڑی توپوں کے ساتھ ٹینک استادہ تھے۔ بڑی سخت چیکنگ کے بعد دجلہ کے کنارے آباد بغداد شہر پہنچے تو وہ بغداد جو خلافت عباسیہ کا مرکز تھا اور جو پوری دنیا میں تجارتی شہر قاہرہ کے بعد دوسرا شہر مانا جاتا تھا اور جس بغداد کا تصور لے کر ہم وہاں گئے تھے ،وہ بالکل بدلا ہوا تھا۔ اونچی اونچی عمارتوں پر جن پر پہلے صدام کی تصویر لگی ہوئی تھی ،وہاں بے شمار گولیوں کے نشانات تھے۔ دجلہ کے اوپر سے گزرنے والے پل پر دو گھنٹے تک جام لگا رہا اور حشد الشعبی پیرا ملٹری فورس کی بے شمار گاڑیاں گزرتی ہوئی نظر آئیں جن پر حشد کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ اور جن پر کم عمر نوجوان داعش کے خلاف اعلان جنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزر رہے تھے۔مغربی ایشیا کا دوسرا سب سے بڑا شہر اس وقت داعش کے ظلم کا شکار تھا۔ غریب بوڑھی عورتیں سڑکوں پر بھیک مانگ رہی تھیں۔ شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے روضہ کے قریب ایک دھول مٹی سے اٹا ہوا سجا سجایا بازار تھا جہاں زائرین اپنی شوق کی چیزیں خرید رہے تھے۔وہ خوشحالی عظیم الشان بغداد جو عربوں سے بھی زیادہ خوشحال تھا وہ کہیں کھو گیا تھا۔
عراق کی وہ کرنسی جس کا پوری دنیا پر رعب تھا ،وہ اس قدر زوال پذیر ہوچکی تھی کہ ہندوستانی ایک ہزار روپے کے بدلے 17ہزار عراقی دینا مل رہے تھے۔ شیخ عبد القادر جیلانی کے روضہ پر حاضری دیتے ہوئے کافی سنی زائرین سے بھی بات چیت ہوئی۔ یہاں پر خانقاہ قادریہ بدایون کے سجادہ نشیں شیخ عبد الحمید محمد سالم سے بھی ملاقات ہوئی۔ جن کے بیٹے ہندوستان کے انتہائی مشہور و مقبول نوجوان عالم دین اسید الحق 4مارچ 2014 کو بغداد کے نزدیک دہشت گردانہ حملے میں شہید کردیئے گئے تھے۔ ان کا کہناتھاکہ اس وقت عراق کا اصل دشمن داعش ہے اور اس کے خلاف جنگ میں ہم سب سنی بھی شریک ہیں۔ بنگلور کے معروف سماجی کارکن و ماہر تعلیم ’ حسین ڈے‘ پر عظیم الشان پروگرام منعقد کرنے والے آغا سلطان کا بھی یہی کہنا تھا کہ اس دورے کا مقصد صرف اورصرف یہی باور کرانا تھا کہ پوری دنیا میں جو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عراق میں شیعہ اورسنی کے درمیان جنگ چل رہی ہے،وہ بالکل غلط ہے ۔اس وقت سب کا دشمن داعش ہے۔یہ عراق کو بچانے کی جنگ ہے۔بغداد میں کل 30منٹ رکنے کے بعد ایک جگہ کھانے کی غرض سے یہ وفد جب رکا تو ریسٹورنٹ میں چھوٹے چھوٹے بچے کام کرتے ہوئے نظر آئے اور نوجوان بھی۔ جب ان نوجوانوں سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ صدام کے وقت میں کھانے کو تھا تو بولنے کی آزادی نہیں تھیِ اب کھانے کو نہیں ہے تو بولنے کی آزادی ہے ۔ پورا بغداد تو دیکھنا ناممکن تھا لیکن صدام حسین کے محل کے سامنے سے گزرتے ہوئے بے حد عبرت محسوس ہوئی کہ جہاں کبھی عالیشان محل تھا جہاں کی ٹونٹیاں تک سونے کی تھیں اور عالیشان قالین بچھے رہتے تھے ،وہاں اب خاک اڑ رہی تھی جو کہہ رہی تھی کہ’ دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت ہو‘ڈرائیور نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی زبان میں بتایا کہ ایک وقت تھا جب یہاں سے خوف سے کوئی گزرتا نہیں تھا اور لوگ دور سے ہی سر جھکا کر نکل جایا کرتے تھے۔ آج وہاں الو بول رہے ہیں۔بغداد کی شاہراہ پر شہیدوں کی تصویریں میلوں تک لگی ہوئی نظر آئیں۔ یہ وہ شہید تھے جو عراقی فوج میں داعش سے لڑتے ہوئے جان بحق ہوئے تھے۔ آج ان شہیدوں کی تصویروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے لوگ عقیدت سے سر جھکاتے ہیں۔ بغداد میں داعش سے لوہا لینے والے سول ملیشیا کے عہدیداران سے بھی ملاقات ہوئی جہاں پر حشد کے مشیر کریم النوری اور وزیر اعظم کے مشیر برائے سول ملیشیا ،صوبہ البنار کے کمانڈر ان چیف شیخ محمد مخلف وغیرہ نے تازہ جنگ کی صورت حال بتاتے ہوئے کہا کہ داعش کے خلاف تین محاذ سے جنگ جاری ہے۔ وزارت دفاع، وزارت داخلہ اور سول ملیشیا الحشد نے ایک ساتھ مل کر علی اکبر بریگیڈ، العباس بریگیڈ، مقتدیٰ الصدر بریگیڈ کے ساتھ داعش کو ٹکردی ہے اور تکریت، رمادی، صلاح الدین ، العنار وغیرہ میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
سنی فرقہ سے تعلق رکھنے والے صوبہ انبار کے کمانڈر ان چیف شیخ محمد مخلف کا کہنا تھا کہ داعش نے ہزاروں سنیوں کومار ڈالا ہے اور ان کے گھروں کو اجارڈ دیا ہے اور سنی قبیلوں کو یہ کہہ کر اکسارہاہے کہ وہ اس کی فوج میں شامل ہوکر شیعہ فرقے کو نیست و نابود کردیں ۔داعش سنیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہا ہے کہ ان کے اوپر بہت ہی ظلم ہورہاہے۔ بغداد پر شیعوں کا کنٹرول ہے اور یہ سنیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس فرقے کے خلاف لڑیں ۔داعش نے کہا کہ سنی عراق میں خطرے میں ہیں اور اس لئے اگر دوبار ہ سنیوں کی حکومت قائم کرنی ہے تو داعش کا ساتھ دیں،لیکن اس سے الٹا اثر ہوا کیونکہ جب سنی قبائل نے دیکھا کہ یہ تو سبھی کونقصان پہنچارہے ہیں ،ان کے گھروں کو اجاڑ رہے ہیں ،ان کے معصوم بچوں کو مار رہے ہیں ، ان کی عورتوں کی بے عزتی کررہے ہیں، ان کی عورتوں کی عصمت دری کررہے ہیں تب ان سبھی نے مل کر اس بات کا عزم کیا ہے کہ عراق کے لئے داعش ایک فتنہ ہے اور اس سے نجات ضروری ہے۔
سنی حشد الشعبی کمانڈر سید محمد مخلف سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ حشد الشعبی شیعہ ملیشیا فورس ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جب ہم نے دیکھا کہ شیعہ بصرہ اور کربلا کے اندر ہم کو بچانے آگئے ہیں تب احساس ہوا کہ یہ ہمارے بھائی ہیں۔ ایک سنی فوج کے کمانڈر نے بھی اس سوال پر نہایت برہمی سے جواب دیا کہ داعش میڈیا کو اس پروپیگنڈہ کے لئے استعمال کررہاہے کہ صدام کے زوال کے بعد عراق میں شیعہ حکومت ہے اور وہ سنیوں کے خلاف کام کرے گی۔ لیکن ہمار ی بستیاں اجاڑنے والا ہمیں اپنے گھروں سے در بدر کرنے والا ،ہماری عورتوں کو جبراً اٹھالے جانے والا داعش ہے۔ہماری جنگ اسی سے ہے۔فالح الفیاض جو وزیر اعظم کے مشیر بھی ہیں ان کاکہنا تھا کہ زمینی جنگ ابو المھندس کے تحت لڑی جارہی ہے۔ہم مار بھی رہے ہیں ،مربھی رہے ہیں۔ اس سوال پر کہ چھوٹے چھوٹے نو عمر لڑکوں کو کیسے میدان جنگ میں بھیجا جاسکتا ہے جبکہ وہ ٹرینڈ بھی نہیں ہیں۔تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تین مہینے تک ٹریننگ دیتے ہیں۔ اس وقت ایمرجینسی کا ماحول ہے اور پھر جہاد کے فتویٰ کے بعد ہماری پہلی ذمہ داری ہمارے ملک کی ہے۔ کریم النوری مشیر حشد الشعبی کاکہنا تھا کہ میں یہ ثابت کرسکتا ہوں کہ یہ شیعہ سنی جنگ نہیں ہے۔تکریت کو جب ہم نے آزاد کیاتو یہ پروپیگنڈہ خوب ہوا کہ شیعہ آکر سنیوں کو مار دیں گے،لیکن ہم نے تکریت کو آباد کیا ۔لوگوں کو ان کے گھروں میں بسایا ،کریم النوری کا کہنا تھا کہ آپ ہندوستان سے آئے ہیں ۔ہم آپ سے سچ کہنا چاہتے ہیں، ہم آپ کو سچی تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ایران نے اس مصیبت کی گھڑی میں سب سے زیادہ مدد کی ہے۔ہمارے پاس ایران کے ساتھ ساتھ امریکی بھی 4000 ایڈوائزر ہیں لیکن وہ صرف گرین ژون میں بیٹھتے ہیں کچھ کرتے نہیں ہیں۔وہ دبے دبے لفظوں میں امریکہ کو اپنی بربادی کا سبب مانتے ہیں۔ اس وقت عراق کے پاس تقریباً ایک لاکھ 40ہزار فوجی ہیں جو جنگ لڑ رہے ہیں۔
شیخ مسلم الزیدی العباسی بریگیڈ کے سینئر کمانڈر ہیں اور الحشد الشعبی موبلائزیشن فورس کا حصہ ہیں۔ ان سے ہندوستانیوں کی داعش میں شمولیت پر بھی سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا پاکستان، افغانستان، سینٹرل ایشیا اور تقریبا 80ممالک کے افراد شامل ہیں،لیکن ہندوستان سے کسی بھی شمولیت کے بارے میں وہ لاعلم ہیں۔ سید افضل الشامی الحشد ڈائریکٹر جنرل نے ہندوستان کو محتاط رہنے کی ضروری ہدایت کی کہ عراق سے خاتمہ کے بعد داعش کے لوگ جنوبی ایشیا کی طرف رخ کرسکتے ہیں۔اس لئے ہندوستان کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔۔
پورے عراق میں چاہے وہ نجف ہو، کربلا ہو، بغداد ہو، کوفہ ہو ہر طرف شہر میں فوجی ٹینک ہی ٹینک نظر آرہے تھے۔ اتنی سخت چیکنگ اور بد تر حالات کے باوجود شہروں میں زندگی کے آثار اسی طرح تھے۔دکانوں پر ضروریات زندگی کے سامان بک رہے تھے ۔ لیکن جس وقت کوئی چھوٹا سا بسکٹ کا پیکٹ بھی خریدنے کے لئے قیمت پوچھی جاتی اور وہ ایک ہزار کہتے تھے تو ہم ہندوستانیوں کی ایک لمحہ کے لئے سانس رک جاتی تھی،لیکن جو ملک بے حد خوشحال تھا پھر جنگ کا شکار رہا اور جہاں برسوں خانہ جنگی کی صورت حال ہو اور جہاں اب داعش جیسا خونخوار دہشت گرد ہو وہاں کی معیشت کیسے دم توڑ دیتی ہے یہ ہماری آنکھوں نے عراق میں دیکھا۔ بغداد میں ایک بزرگ سے پانی کی بوتل خریدتے ہوئے جب سوال کیا کہ مالی حالات کیسے ہیں تو اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ اس نے عربی میں جواب دیا ہمارے بچے نوکریاں کررہے ہیں، تعلیم کی صورت حال خراب ہے۔ہمارے بچوں کو صحیح تعلیم نہیں مل پارہی ہے۔ عراقی دینار کی پوری دنیا میں کوئی حیثیت نہیں رہی۔ہمارے ایک لاکھ کسی بھی ملک کے لئے کوڑیوں کا مول رکھتے ہیں ۔ایسے میں ہم کیا کریں۔
کربلا صوبے کے گورنر عقیل الترئی سے بھی جب عراق میں تعلیم کی صورت حال کے بارے میں سوال کیاگیا تو انہو ں نے جواب دیا کہ عراقی حکومت نے موبائل اسکول بنائے ہیں۔ہمارے پاس اسپتال نہیں ہیں۔ دنیا کو چاہئے کہ ہمارا ساتھ دے تاکہ غربت کا خاتمہ ہو سکے۔ گورنر کا کہنا تھا کہ جو لوگ داعش کے ہاتھوں برباد ہو کر آئے ہیں ،ہماری کوشش ہے کہ انہیں امن و امان کے بعد واپس وہیں لے جاکر بسایا جائے ۔باقی ابھی تعلیم کا اچھی طرح سے کوئی انتظام نہیں ہے۔پرائمری اور سیکنڈری اسکول ہیں ،مگر ابھی پورے ملک میں ایمرجینسی جیسی صورت حال ہے۔ اس لئے ابھی ہم صرف مہاجرین کی جان کی سلامتی کے لئے کوشش کررہے ہیں۔
کربلا کے پورے شہر میں رات میں امام حسین کے روضے پر جو رونق نظر آتی ہے وہ باقی علاقوں میں نہیں نظر آئی، اسی طرح بغداد میں بھی لوگوں کا کہنا تھا کہ جو بغداد نائٹ لائف کے لئے مشہور تھا ،وہ اب شام ڈھلتے ہی سونا ہوجاتا ہے۔ عراق کے سبھی شہروں میں مہاجرین کیمپ لگے ہوئے ہیں۔ ہندوستانی وفد نے کربلا کی آئی ڈی بی کیمپ Internaly Displace People کا دورہ کیا تو وہاں کیمرے اور رپورٹرس کو دیکھ کر بے شمار بچے جمع ہوگئے۔ ان بچوں کے چہرے تھوڑے تھوڑے گرد آلود بھی تھے۔ کافی بچوں کے پیروں میں چپلیں نہیں تھیں۔ پتہ چلا کہ اس کیمپ میں تقریبا 8ہزار 500لوگ رہ رہے ہیں جو ہر ملک کے اور مذہب کے ہیں۔ ان میں شیعہ سنی اور کرسچن سبھی ہیں۔ یہ کیمپ بہت ہی سنسان سی ریتیلی جگہ پر بنایا گیا تھا اور اس میں گھر چھوٹے چھوٹے باکس کی طرح تھے۔وہاں کے انچارج سے بات کی کہ اس میں کتنے شیعہ ہیں ،کتنے سنی یا کرسچن ہیں تو اس نے جواب دیا کہ یہاں سب عراقی ہیں۔سنی ،شیعہ اور کرسچن سے کوئی مطلب نہیں ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جن کو داعش سے بچا کر لایا گیا ہے۔ اس میں کچھ لوگ 1500,1000,800ڈالر دے کر بچ کر آئے ہیں۔
یہ تکریت ،موصل، رمادی،العنار کے لوگ ہیں۔ماہ علی حیدر ایک خاتون نے بتایا کہ ان کو دوبار اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا۔ 2006 میں القاعدہ کے حملے کے بعد اور 2014 میں داعش کے حملے کے بعد ۔یہ لوگ موصل سے کربلا تک پیدل آئے ہیں۔ اسی طرح 20سالہ ہالہ اور ان کے خاندان کے 10لوگ خطہ صلاح الدین سے بغداد اور پھر کربلا آئے 300ڈالر دے کر۔ اسی طرح بے شمار مہاجرین تھے جن کے گھروں میں ہم اندر بھی گئے۔ صاف ستھرے دو چھوٹے چھوٹے کمروں کے یہ باکسز ضروریات زندگی سے آراستہ تھے۔ کسی کا باپ مارا گیا تھا ،کسی کا بیٹا کسی کا شوہر غرضیکہ ان کیمپوں میں رہنے والے بچوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا۔
کربلا میں پرائمری اور سیکنڈری اسکول ہیں،لیکن کیمپ کربلا سے کافی دور ہے ۔ کیمپ میں ایک Kintergarten ضرور نظر آیا۔ اس کے علاوہ میڈیکل کیمپ بھی تھا۔ امام حسین ٹرسٹ کی جانب سے اس کیمپ میں کھانا پانی دینے کا انتظام تھا۔ تقریبا 60سالہ ایک خاتون جن کے شوہر ڈارئیور تھے پر داعش نے حملہ کیا ،انہوں نے اپنا گھر چھوڑ دیا ،نہ سرپر چادر تھی نہ کھانا پانی ،ان کا بیٹا داعش کے ہاتھوں مارا گیا،ان کا شوہر مارا گیا۔ لیکن انہوں نے وفد کو کھانے کے لئے کہا تو ہم سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے،جن کے پاس خود کھانے کو نہیں تھا وہ محبت سے ہم کو آفر دے رہے تھے۔
کیمپ کے ہر گھر میں امام حسین کی تصویر موجود تھی جو ہم میں سے زیادہ تر صحافیوں نے پہلی بار ہی دیکھی تھی۔ کیمپ میں بچے بے شمار جمع ہوگئے تھے لیکن ان سب نے ہم کو انگلیوں سے Victory کا نشان بنا کر دکھایا۔نہ جانے وہ عربی زبان میں کیا کہہ رہے تھے۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آیا ،بس خوبصورت بچے تھے اور ن کا غیر یقینی مستقبل۔
ہم نے کربلا یونیورسٹی کا بھی دورہ کیا ۔بے حد وسیع و عریض کیمپس جس میں ڈپارٹ منٹ تک جانے میں ہی 8منٹ لگ گئے ۔ اس کیمپس میں کالے برقعوں میں نوجوان خوبصورت لڑکیاں پڑھائی کے لئے اپنی کلاس روم جارہی تھیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ طالب علم لڑکے کم نظر آئے۔
بغداد، نجف ،کربلا میں جب بھی تعلیم کی صورت حال جاننے کی کوشش کی ،یہی جواب ملا کہ ابھی ایمرجینسی جیسی صورت حال ہے۔ لیکن داعش کے جانے کے بعد تعلیم کا بہتر نظم کیا جائے گا۔ نجف میں حضرت علی کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا۔وہاں روضہ کے باہر حشد کے نوجوان جو تقریبا 16 سے 22 سال تک کے تھے جو ش و خروش میں نعرے لگا رہے تھے،گارہے تھے، ناچ رہے تھے۔پتہ چلا کہ یہ سب داعش کے خلاف جنگ پر جانے والے نوجوان ہیں جو جانے سے پہلے خوشی منارہے ہیں۔ حضرت علی کے روضہ کے ساتھ ساتھ عراق کے چار اعلیٰ شیعہ رہنماؤں میں سے ایک مرجع آیتہ اللہ بشیر النجفی سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہون نے ہندوستانی میڈیا سے اپیل کی کہ وہ عراق کی صحیح تصویر ہندوستان کے سامنے پیش کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ طاقتیں منصوبہ بند طریقے سے عراق کو برباد کرنا چاہتی ہیں۔ دنیا میں یہ تشہیر کی جارہی ہے کہ صدام کے بعد سنیوں پر مظالم ہورہے ہیں جبکہ دو اہم عہدے جو جنگ کی حالت میں بہت اہم ہوتے ہیں ایک وزارت دفاع اور دوسرا اسمبلی کا صدر ۔یہ دونوں عہدے سنیوں کے پاس ہیں۔ یہاں تک کہ پرائمری اور مڈل تعلیم تک سنیوں کے پاس ہے۔ سنیوں کو ان کی آبادی کے حساب سے نمائندگی دی گئی ہے۔
وفد کی صحافیوں سے بھی ملاقات کرائی گئی۔ جس میں نون اخبار کے چیف ایڈیٹر روضہ حسین کے ایڈیٹر سید صباح طالبانی وغیرہ نے عراق کی اصلی صورت حال کو بتاتے ہوئے کہا کہ جو 1947 سے پہلے ہندوستانیوں کی حالت تھی،وہی اس وقت ہماری ہے۔یہ شیعہ سنیوں کی لڑائی نہیں ہے۔ یہ صرف عراق کی دہشت گردوں سے لڑائی ہے اور وطن کو بچانے کی لڑائی ہے۔ جو نوجوان فوج میں شامل ہورہے ہیں ،ہم نے ان کے ہاتھوں میں اسلحہ تھمائے ہیں۔کیونکہ یہ ہمارے وجود کی لڑائی ہے۔ ہم زندہ رہنے کی لڑائی لررہے ہیں ۔ جنگ کے بعد ان نوجوانوں کو ڈیفنس منسٹری یا دوسرے محکموں میں ان کی پسند سے تعینات کیا جائے گا اور ان کو روزگار مہیا کرایا جائے گا۔
پورے سفر میں جس طرح میڈیا کے تحفظ اور سیکورٹی کا دھیان رکھا گیا ،وہ قابل تعریف تھا ۔ ایک تاثر لے کر صحافی واپس لوٹے کہ عراق واقعی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہاہے۔ ایک غلط پروپیگنڈہ شیعہ سنی کا پھیلا یا گیا تھا جو کہ کافی حد تک غلط لگا ۔عراقی اپنے وطن کی لڑائی لڑرہے ہیں۔ چاہے سنی ہوں یا شیعہ ،وطن سے محبت اور اس کا حق سب کو ادا کرنا چاہئے جو اس وقت عراق کے لوگ کررہے ہیں۔ داعش پوری دنیا کے لئے فتنہ ہے۔ اس کے خلاف پوری دنیاکو متحد ہونا چا چاہئے اور عراق کی مدد کرنی چاہئے۔
مصنفہ مشہور جرنلسٹ اور ہفت روزہ چوتھی دنیا کی ایڈیٹر ہیں