شمس تبریز قاسمی
درختوں کی جھنکار ، ہرے بھرے پہاڑ ،ہر طرف سبزہ زار ،کہیں پہاڑوںسے چشمے پھوٹ رہے ہیں،کہیں پہاڑ وں پر درخت اور سبزے اگے ہوئے ہیں،کہیں قطرے ٹپک رہے ہیں ،کہیں نالیاں بہ رہی ہیں،کسی جگہ پر پرنالے نظر آرہے ہیں،کہیں آسمان چھوتے پہاڑوں سے بھاپ نکل رہے ہیں ،کہیں ایسا لگتاہے کہ پہاڑکی بلندی آسمان کو چھورہی ہے ،کہیں ندیاں نکل رہی ہیں ،کہیں پر ان پہاڑوں کے دامن میں کوئی انسانی آبادی کا علاقہ نظرآتا ہے، چھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں دکھتی ہیں تو کہیں پر میلوں تک سنسان ہے ،کسی جگہ پر دوردراز تک پہاڑکے سایے میں دوچار گھر ملتے ہیں کبھی ان پہاڑوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے کچھ ایسی قلعہ نمادیوار کی جھلک نظر آتی ہے جسے دیکھ کر لگتاہے کہ کبھی اس پہاڑ پر کوئی بڑاقلعہ بناتھا،انسانوں نے یہاں آکر بودوباش اختیارکی تھی تو کبھی سناٹا کو دیکھ کر لگتاہے کہ شاید اب تک یہ حسین ترین جگہ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہے ، کہیں پر ان پہاڑوں کے کے کنارے کنارے سڑکیں بنی ہوئی ہیں تو کہیں آدی باسی اپنا ٹھکانہ بنائے ہوئے ہیں،پہاڑوں پر سبزہ ،ہریالی ایسی ہے کہ نظر اس سے ہٹتی نہیں ہے ۔
یہ نظارہ سوئزر لینڈر کی پہاڑیوں کا نہیں ہے نہ ہی ہم جنت نشاں کشمیر کا تذکرہ کررہے ہیں بلکہ یہ منظرکشی ہم نے جنوبی ہندوستان کی کرنے کی کوشش کی ہے ، جہاں کی خوبصورتی پرکشش لگی ،پہاڑبیحد حسین لگے ،سبزہ اور ہریالی نے نظروں کو اپنے اوپر ٹکائے رکھا ،قدرت کی شاہکار تخلیق ہر جگہ نظر آئی ، پہاڑوں کا سینہ چیرتے ہوئے گزرنے والی ٹرین نے دلی سے کالی کٹ کے طویل فاصلے کو بیحد قریب بنادیا، نظام الدین سے صبح دس بجے روانہ ہونے والی ٹرین تری وندرم راجدھانی ایکسپریس جیسے ہی مہاراشٹر کے علاقے میں داخل ہوئی ہندوستان کا نقشہ بالکل بدل گیا ،ایک مختلف تصویر دکھنے لگی ، مہاراشٹر ،گوا ،بنگلور اور کرناٹک کے راستے بہت پرکیف ثابت ہوئے، کہیں ٹرین بلندی پر چل رہی تھی ،توکہیں بہت نیچے ہور گزررہی تھی ،کبھی ٹرین سے ساتھ فٹ نیچے نہریں بہتی ہوئی ملیں تو کہیں پہاڑکے غار ہوکر کئی منٹ تک ٹرین گزرتی رہی اور قدرت کی شاہکار تخلیق کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ احساس پیدا ہونے لگا کہ کاش ٹرین پہاڑوں کے درمیان چلتی رہے ، کھڑکیوں سے ہم یہ خوبصورت ،سبزہ زار اور حسین نظار ہ دیکھتے رہیں ، سبزہ زار پہاڑ سے بہتے چشمے اور نالوں کا دیدار ہوتارہے لیکن یہ ممکن نہیں تھا اور نہ ایسے ہی تمناکی تکمیل ہوسکتی ہے ،ہمیں اپنی منزل پر پہونچنا بھی ضروری تھا اور یوں 38 گھنٹہ ٹرین میں گزارنے کے بعد ہم ریاست کیرالہ کے تاریخی شہر کالی کٹ میں رات کے بارہ بجے پہونچ گئے ، ٹرین سے یہ دوسرا میرا طویل ترین سفر تھا ،اس سے پہلے تقریباً اتنے ہی گھنٹے پر مشتمل میں نے پٹنہ سے چنئی کا سفر کیاتھا،دہلی سے کالی کٹ آنے والی ٹرین نو ریاستوںسے ہوکر گزرتی ہیں،دہلی ،ہریانہ ،راجستھان ،یوپی ،ایم پی ، مہاراشٹرا ، گوا ، کرناٹک اورکیرلا۔راجدھانی کے علاوہ ٹرینیں دہلی سے کالی کٹ کا فاصلہ 50 گھنٹوں میں طے کرتی ہیں جبکہ تری ونت پورم تک جانے میں 60 گھنٹہ لگ جاتاہے ، بہر حال ٹرین کے اس طویل سفرنے ذرہ برابر کوئی تھکان پیدا نہیں کیا ، رفقاءسفر نے بھی ماحول کو بیحد خوشگوار بنائے رکھا اور یوں کالی کٹ میں دو روزہ بین الاقومی سیمنار میں شرکت کی غرض سے ہونے والا کیرلاکا یہ سفر بیحد دلچسپ رہا۔اسٹیشن پر ریسیو کرنے کیلئے پہلے سے یہاں کے مقامی حضرات موجودتھے ،ان میں ایک ایس ڈی پی آئی سے وابستہ محمد شرف الدین بھی تھے جو مجھ سے پہلے سے واقف تھے،رات کے ایک بجے ہم لوگ کالی کاکٹ شہرسے 35 کیلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ٹیپتھی کلچرل سینٹر پہونچے ،یہ عیسائیو ں کا ایک کلچرل سینٹر ہے ، یہاں ایک چرچ بھی ہے،اسی کے گیسٹ ہاوئس میں رہائش کا انتظام تھا ،رات کے ایک بجے فادر نے اٹھ کر تمام لوگوں کو ان کے کمرے میں پہونچایا ، بیڈشیٹ لاکر دی اور اس طرح ایک عیسائی کلچر سینٹر میں پہلی مرتبہ رہنے کا اتفاق ہوا۔ اسی سینٹر میں بعد نماز جمعہ کھانے کا بھی انتظام تھا ۔چرچ کے گیسٹ ہاﺅس میں ہر جگہ عیسی مریم کی تصویر لگی ہوئی ملی ،بیڈ کا اندازبھی اسی طرح کاہے، کہیں پر پھانسی دیئے جانے کی تصویر لگی ہوئی ہے تو کہیں پر حضرت مریم کو عجیب انداز میں دیکھاگیا ہے ،مجسمہ اور تصویر کا یہ انداز دیکھ کر لگتاہے کہ حضرت عیسی علیہ کے ماننے والے یہ لوگ ان کی تعظیم کے بجائے نادانسہ طور پر توہین کررہے ہیں۔ نہیں معلوم کیوں مجھے یہاں رہنے میں عجیب سا محسوس ہورہاہے ،حالاں کہ یہ تحریر میں اسی کلچرل سینٹر کے ایک کمرے میں بیٹھ کر لکھ رہاہوں ۔اللہ تعالی کا شکر ہے کہ انتظامیہ نے میری رہائش بدل دی ہے اور انشاءاللہ تعالی23 ستمبر کی صبح ہم یہاں سے چیک آﺅٹ کرکے کالی کٹ شفٹ ہوجائیں گے۔
کالی کٹ میں یونیورسیٹی آف کالی کالی کٹ اور نیشنل وویمن فرنٹ کے اشتراک سے مسلمانوں کے تھنک ٹینک مانے جانے والے ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کا دورزہ بین الاقوامی سمینار منعقد ہورہاہے ،سیمنار کا موضوع ہے ،انسانی معاشرہ کی تعمیر میں خواتین کا کردار “ سمینار کے مہمان خصوصی سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری ہیں جبکہ سعودی عرب ، افریقہ ، بنگلہ دیش سمیت متعدد ممالک اور ہندوستان بھرسے خواتین ،اسکالرس اور دانشوارن شرکت کررہے ہیں ۔اسی سیمنار میں شرکت کی غرض سے راقم الحروف کی بھی حاضری ہوئی ہے ۔ کیرالا کا میرا یہ دوسرا سفر ہے ،پہلا سفر میںنے سال گذشتہ جون 2016 میں کیاتھا تاہم اسے سفر نہیں کہاجاسکتاہے کیوں کہ میری مالدیپ کی فلائٹ کیرالاکی راجدھانی تری ونت پورم سے تھی اس لئے دہلی سے پہلے مجھے انڈیگو طیارہ کے ذریعہ سے تری ونت پورم آنا پڑا اور پھر یہاں سے مالدیپ کیلئے فلائٹ تھی ، اس سفر میں کہیں جانے کا موقع بھی نہیں مل سکاتھا اور نہ ہی کیرالا کی تہذیب وثقافت سے واسطہ پڑاتھا۔
کیرالہ ہندوستان کا مشہوراور آخری صوبہ ہے ،جنوبی ہند کا مرکز ہے ،اس سے متصل سمندر سعودی عرب سے ملتاہے ،کیرالا کی ثقافت ،تہذیب اور زبان ہندوستان کے دیگر علاقوں سے بالکل مختلف ہے ،یہاں آکر ایسا لگتاہے کہ کوئی اور ملک ہے ،ہندوستان کا یہ حصہ نہیں ہے ، کرنسی کی یکسانیت اور چند دیگر چیزیں نہ ہوتی تو یقین کرنا مشکل ہوتاکہ یہ ہندوستان کا ہی حصہ ہے ،خود کیرالا والے بھی خود ہندوستانی کہلانا اپنی توہین سمجھتے ہیں ،بیرون ممالک میں کیرالا والے اپنا تعارف ہندوستانی کے بجائے کیرالا سے کراتے ہیں ،اگر ان سے کہاجاتاہے کہ آپ ہندوستان کیوں نہیں کہتے تو جواب بہت سخت ہوتا ۔گذشتہ سال دبئی میںکیرالاکے ایک دوکاندار سے ملاقات ہوئی ،انہوں نے مجھے ہندوستانی سمجھ کر اردو میں بولنے کی کوشش کی تو میں نے پوچھاکیا آپ ہندوستانی ہیں تو ان کا جوا ب تھاکہ نہیںکیرالاسے ہوں میں نے کہایہ ہندوستان کا ہی صوبہ ہے تو وہ برجستہ بول پڑے ،اس سے کیاہوتی ہے اور اب تو جب سے مودی سرکار آئی ہے مجھے اور نفرت ہوگئی ہے خود کو ہندوستانی کہنے میں ۔
کیرالاکہ مسلمان بھی اپنا رشتہ عرب ممالک سے جوڑتے ہیں،جغرافیائی سطح پر کیرالا کا نظام سعودی عرب کے مطابق انجام پاتا ہے ،قمری مہینوں میں یہاں سعودی عرب کا اہتمام ہوتاہے ،جس دن سعودی عرب میں رویت چاند معتبر مانی جاتی ہے اسی دن یہاں بھی ،اسی لئے عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز یہاں سعودی عرب کے مطابق ہندوستان کے بقیہ علاقوں سے ایک دن قبل ہوتی ہے ۔سعودی عرب اور کیرالہ کے درمیان 3531 کیلو میٹر کا فاصلہ ہے ،کیرالا سے سے قریب مشرق وسطی کا ملک دبئی ہے جس میں اور کیرالا کے شہر کالی کٹ میں صرف 2660 کیلومیٹر کا فاصلہ ہے ، مسقت اور کالی کٹ کے درمیان کا فاصلہ اس سے بھی کم ہے ،جبکہ اتناہی فاصلہ دہلی اور کالی کے کٹ کے درمیان ہے ،نظام الدین دہلی سے کالی کٹ کے درمیان 2428 کیلومیٹر کا فاصلہ ہے،جبکہ کیرالاکی راجدھانی تری ونت پورم اور نئی دہلی کے درمیان 2832 کیلومیٹر کی دوری ہے،کیر الااور عرب کے درمیان صرف سمندر حائل ہے ۔(جاری)
stqasmi@gmail.com