شمس تبریز قاسمی
(گذشتہ سے پیوستہ )
کیرالا کی تاریخ ہزاروں سا ل پرانی ہے ،ویکی پیڈیا کے مطابق تین ہزار قبل عیسوی یہاں انسانی آبادی کے آثار ملتے ہیں ،کیرالا کو ملیالم زبان ہونے کی وجہ سے 1956 میں اسٹیٹ ریکگنائیزیشن ایکٹ کے تحت مستقل ریاست کا درجہ ملا، 38683 کیلومیٹر پر اس کا کل رقبہ محیط ہے ،یہاں کل 14اضلاع ہیں جس میں سے مالابار واحد مسلم اکثریتی حلقہ ہے ، شمال اور شمال مشرق میں اس کی سرحد کرناٹک سے ملتی ہے، مشرق اور جنوبی حصے میں تمل ناڈو اقع ہے جبکہ مغرب میں جزیرہ لکشدیپ ہے ، بقیہ اطراف میں بحر عرب ہے اور یہی سمندر کیرالا اور عرب کے درمیان حائل ہے۔ کیرالاکے چھ شہر تری ونت پورم، کوچی کوڈا، کولم، کوچی، تھری سور اور کنور رہائش کے اعتبار سے پورے ہندوستان میں نہایت بہتر اور پسندیدہ مانے جاتے ہیں، صحت، تعلیم ، فضائی آلودگی سے تحفظ ، تشدد سے حفاظت، عوامی سہولیات اور تفریحات کے لحاظ اس شہر کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ دنیا کے پچاس سیاحتی مقامات کی فہرست میں کیرالا کا بھی نام شامل ہے۔ ماضی میں اس کا شمار غریب ترین اور پسماندہ ریاستوں میں ہوتا تھا تاہم 1950 کے پچاس کے بعد اس ریاست نے حیرت انگیز طور پر اقتصادی اور تعلیمی میدان میں ترقی کی ہے، شرح تعلیم یہاں تقریبا 99 فیصد ہے ،ہندوستان کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ صوبہ یہ مانا جاتا ہے ، مادری زبان ملیالم کے علاوہ یہاں کی اکثریت انگلش بولنے پر قدرت رکھتی ہے۔ ہندوستان کا یہ واحد صوبہ ہے جو جرنلزم کے حوالے سے بھی نمایاں خصوصیت رکھتا ہے، نو زبانوں میں یہاں سے اخبار ات شائع ہوتے ہیں ، ملیالم اور انگریزی کو برتری حاصل ہے، یہ الگ بات ہے کہ اردو ان زبانوں میں شامل نہیں ہے۔ اقتصادی سطح پر بھی یہ صوبہ آئیڈیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں نے اس کی اقتصادی ترقی کو موضو ع بحث بنایا ہے ، کیرالا کی اقتصادی ترقی میں سب سے نمایاں کردار خلیجی ریاستوں کا ہے ، وہاں اعلی ترین عہدوں سے لیکر لیبر تک کی ملازمت میں اکثریت کیرالا کے شہریوں کی ہے ، دبئی میں واقع دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت برج خلیفہ میں 22 فلیٹ کیرالا سے ہی تعلق رکھنے والے ایک ہندوستانی کا ہے ۔ نرس کے حوالے سے بھی کیرالا کو دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل ہے ، عرب اور یورپین ممالک میں اکثر نرسیں کیرالا کی ہی پائی جاتی ہیں خود ہندوستان کے ہسپتالوں میں نرسوں کی اکثریت کا تعلق کیرالا سے ہوتا ہے ، یہاں کے ایک شہری نے میرے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ کیرالا کی نرسوں میں اکثریت عیسائی کمیونٹی کی لڑکیاں ہوتی ہیں، مسلم لڑکیوں کی تعداد اس پیشہ میں کم ہے، مریضوں کے ساتھ بہتر رویہ اپنانا، خوش اخلاقی سے بات کرنا، درد سے کراہتے مریضوں کو ہنسانا اور پریشان حال بیماروں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لادینا کیرالا کے نرسوں کی خصوصیت سمجھی جاتی ہے ، شاید اسی لئے انہیں اس ملازمت میں ترجیح بھی حاصل ہوتی ہے ۔
کیرالا کی تاریخ ہندو اور مسلمانوں دونوں کیلئے باعث فخر ہے ، ہندﺅوں کا دعوی ہے کہ وشنو کے چھٹے اوتار کا وجود اسی سرزمین پر ہوا تھا جو مالابار سے لیکر کنیا کماری تک محیط ہے، مسلمانوں کیلئے یہ بات باعث فخر ہے کہ ہندوستان میں اسلام اسی سرزمین کے راستے آیا ہے اور سب سے پہلی مسجد اسی کیرالا کے ضلع تھریسر میں واقع میتھالا کوٹنگلور میں بنی تھی جو تاریخ میں چیرامن جمعہ مسجد کے نام سے مشہور ہے ، مالک دینار اور دوسرے عرب تاجروں نے 629 عیسوی میں اس مسجد کی تعمیر کی تھی ،کالی کٹ سے یہ جگہ تقریباً 120 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ،یہاں کی مصروفیات سے فارغ ہوکر ہماری کوشش ہوگی اس جگہ کو دیکھنے کی ۔
کیرالامیں ہندو 54 فیصد ہیں ،مسلمان 26 فیصد ہیں اور عیسائی 18 فیصد ،سب سے زیادہ عیسائی اسی ریاست میں پائے جاتے ہیں، کیرالا کے مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق مویلا قوم سے ہے۔ ہندومسلم کشیدگی کے کے حوالے سے یہاں کی صورت حال بھی شمالی ہندوستان سے مختلف نہیں ہے ،گذشتہ چند سالوں سے آر ایس ایس کا اثر و رسوخ بھی یہاں بہت زیادہ بڑھ گیا ہے ، بی جے پی بھی قدم جمانے کی کوشش کررہی ہے تاہم سڑکوں پر بی جے پی اور مود ی کا کہیں کوئی بورڈ اور بینر نظر نہیں آیا ، کیرالا میں دو علاقائی پارٹی سب سے زیادہ بااثر ہے ، ایک یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ جس کی قیادت انڈین نیشنل کانگریس کرتی ہے ، دوسری پارٹی لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ ہے جس کی قیادت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارسکسٹ ) سی پی آئی ایم کرتی ہے ، حالیہ دنوں میں اسی پارٹی کی یہاں حکومت ہے ۔ مسلم پارٹیوں میں مسلم لیگ کا یہاں شروع سے اثر و رسوخ رہاہے ، اس پارٹی کے لیڈر سی ایچ محمد کویا 1979 میں وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں۔
کیرالامیں مسلم لیڈر شپ کے فروغ پر خصوصی توجہ ہے ، بقیہ ہندوستان کے مقابلہ میں یہاں کے مسلمانوں کے درمیان ایک فکر اور آئیڈیا لوجی پائی جاتی ہے ، اسلامی تعلیمات کو بروئے کار لانے اور اسلامی نقطہ نظر سے سوچنے کا مزاج یہاں پروان چڑھ رہاہے ، یہ بات میں نے اپنے طور پر مشاہدہ بھی کی ہے اور یہاں کی یونیورسٹیز میں زیر تعلیم متعدد طلبہ نے بھی بتائی ہے جو ملک کے دیگر صوبوں سے تعلق رکھتے ہیں ، بہار ، راجستھان، مہاراشٹر ، آندھرا پردیش سمیت متعدد صوبوں کے طلبہ سے میری ملاقات ہوئی ، یہ سب کالی کٹ یونیورسیٹی میں پڑھتے ہیں اور پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے وابستہ ہیں ۔ ان طلبہ نے بتایاکہ یہاں کے مسلمان فکری طور پر اسلام پسند ہیں ۔ اسلامی آئیڈیا لوجی کے مطابق وہ سوچتے ہیں اور اسی نہج پر ان کی زنذگی کا کارواں رواں دواں ہے ۔ جمعہ کی نماز میں بھی یہ چیزیں میں نے نوٹ کی تھی ۔ 22 ستمبر کی جمعہ کیرالا کے مالابار ضلع میں واقع ایک گاﺅں کی مسجد میں پڑھنے کا اتفاق ہوا ، شافعی فقہ کے پیروکاروں کی یہ مسجد تھی ، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کیرالا ہندوستان کا واحد صوبہ ہے جہاں کی اکثریت فقہ شافعی کی پیروکار ہے ، اسی مسجد سے متصل مدرسہ سراج الہدی الثانویہ بھی تھا، نماز کے دوران تمام مقتدی شروع سے لیکر اخیر تک امام صاحب کی جانب متوجہ رہے ، امام صاحب نے پہلے خطبہ دیا ، خطبہ کے دوران ہی انہوں نے کچھ مختلف انداز اپناکر دعاء مانگنا شروع کیا ، تمام مقتدیوں نے بھی ان کی اتبا ع کی، کہیں پر وہ خاموش ہوجاتے اور اس دوران مقتدی حضرات خود دعا پڑھنا شروع ہوجاتے جس سے پتہ چل رہا تھا کہ تمام مقتدیوں کو پہلے سے ٹرینڈ کیا گیا ہے، نماز کے بعد امام صاحب نے ملیالم میں تقریر شروع کی اور سبھی متوجہ ہوکر سننے لگے ، کسی بھی مقتدی کو ہم نے وہاں سے اٹھ کر جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہندوستان کے دیگر حصوں کا معاملہ اس سے مختلف ہے ، مقتدی اللہ اکبر کہنے کے بعد سے لیکر سلام پھیرنے تک صرف امام کی اطاعت کرتے نظر آتے ہیں ، اس کے بعد امام اور مقتدی کے درمیان کوئی تعلق نظر نہیں آتاہے ۔جیسے ہی امام بائیں جانب رخ کرکے السلام علیکم کہتے ہیں لوگ مسجد سے باہر نکلنا شروع ہوجاتے ہیں ۔
کیرالا کی تاریخ کے ساتھ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کا تذکرہ ضروری ہے جس کا نام اوپر کی سطروں میں ایک مرتبہ گزر چکا ہے، پاپولر فرنٹ آف انڈیا مسلمانوں کی ایک مضبوط اور باوقار ملی تنظیم ہے جس نے آر ایس ایس کے انداز کو اختیار کیا ہے ، اس تنظیم کی تقریباً 16 ونگ ہے جو مختلف محاذوں پر کام کرتی ہے اور اس کے مثبت نتائج بر آمد ہورہے ہیں، پی ایف آئی کے چیرمین ای ابوبکر نے بتایا کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی جڑیں کیرالا میں بہت مضبوط ہوگئی ہے ،جنوبی ہندوستان میںاس کا دائرہ تشفی بخش انداز میں وسیع ہوگیا ہے ، اب ہماری کوشش شمالی اور مشرق ہندوستان میں اس کی جڑوں کو مضبوط کرنے اور اس سے مسلمانوں کو جوڑنے کی کوشش ہے ، اس کی سیاسی ونگ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ہے جو ہمیشہ متحرک و فعال نظر آتی ہے ، تقریباً روزانہ اس تنظیم کے بینر تلے ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاج اور مظاہر ہ کیا جاتاہے ، کمال کی بات یہ ہے کہ ہماری سو سال پرانی تنظیم کو کوئی احتجاج کرنے میں ہفتوں اور مہینوں کا وقت درکار ہوتا ہے، ایک احتجاج کرنے کیلئے کئی چھوٹے موٹے جلسے کرائے جاتے ہیں، جمعہ کے خطبہ میں امام کے ذریعہ لوگوں سے شامل ہونے کی اپیل کرائی جاتی ہے جبکہ ایس ڈی پی آئی فوراً کسی معاملہ پر احتجاجی مظاہرہ ، جلسہ اور ریلی کا انعقاد کرلیتی ہے اور دہلی کے جنتر منتر پر اچھی خاصی بھیڑ جمع ہوجاتی ہے ۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی مسلم لیڈر شپ کے فروغ اور نوجوانوں کو سیاست سے جوڑنے پر خصوصی توجہ ہے، اس کی جانب سے طلبہ کو مسلم ایمپاورمینٹ کا ایک چھ ماہی کورس بھی کرایا جاتا ہے ،جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلم نوجوان اپنے اندر اسلامی روح پیدا کریں، اپنی مصروفیات اور ملازمت کے ساتھ مسلمانوں کیلئے رضا کارانہ طور پر کام کرنے کا جذبہ پیدا کریں اور مسلم کاز کو ہمیشہ مد نظر رکھیں ۔
ہندوستا ن کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں سیاسی اور سماجی طور پر مسلمان یہاں حاوی ہیں۔پی ایف آئی کا اس کردار کو برقرار میں نمایاں دخل ہے، پی ایف آئی سے وابستہ یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ و اساتذہ ہیں، بیرون ممالک رہنے والے تجار، اسکالرس اور اس جیسے لوگ بھی اس سے جڑے ہوئے ہیں، آر ایس ایس اور پی ایف آئی کے درمیان ہمیشہ ٹکراﺅ بھی رہتاہے ، اندرونی سطح پر ہر ممکن اس کو دبانے اور بین کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے لیکن ذمہ داروں کی حکمت عملی کی بدولت اس طرح کی ناپاک کوششیں کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوپاتی ہیں ، ہادیہ والے معاملے میں آر ایس ایس نے بہت دبانے کی کوشش کی، میڈیا نے بھی سنگھ کے اشاروں پر اسے بدنام کیا ، دہشت گرد تنظیموں سے رشتہ جوڑنے کی سعی کی۔ خاص بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی توجہ کام پر زیادہ اور میڈیا کوریج پر کم ہے ، سچائی یہ ہے کہ سیاسی ونگ ایس ڈی پی آئی کے علاوہ تمام ونگس کے کاموں کو خفیہ رکھا جاتاہے ، خاموشی کے ساتھ اسلامی نظریہ کو پروان چڑھانے اور ملی کاز کیلئے کام کرنے پر تمام تر توجہ مبذول ہوتی ہے ۔(جاری)
stqasmi@gmail.com