میری خیریت پوچھ کر خود ہی چل بسے

عمرفاروق قاسمی
زیادہ نہیں دو تین دن پہلے ہی کی بات ہے شام کے وقت غالباً عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت رہا ہوگا، بھیروا گاؤں کے شمالی محلہ میں جناب قمرالزماں سابق مکھیا کے گھر سے کچھ آگے ان سے ملاقات ہوئی ، وہ آگے پیادہ چل رہے تھے اور میں پیچھے بائیک پر سوار تھا، ان کے چلنے کے انداز سے میں نے پہچان لیا کہ آگے چلنے والی شخصیت مفتی ضیاءالحق قاسمی صاحب کی ہے، میں نے گاڑی روکی علیک سلیک کیا، پوچھا گھر پر کب تشریف لائے، انہوں نے کہا کہ ابھی کچھ روز قبل آیا ہوں، میں نے کہا کہ ابھی کہاں تشریف لے جارہے ہیں انہوں نے کہا کہ گاؤں کے کنارے میں میری بہن ہے امی وہیں ہے ملنے جارہا ہوں، چونکہ مجھے بھی ادھر ہی گھر جانا تھا کہا گاڑی پر بیٹھ جائیے، انہوں نے کہا نہیں آپ جائیے میں پیدل ہی چلا جاتا ہوں، کچھ ورزش بھی ہو جائے گی، میں نے کہا کچھ دیر بات چیت کا موقع بھی مل جائے گا آپ تشریف رکھئے بہرکیف وہ گاڑی پر بیٹھ گئے اور بیٹھتے ہی پوچھا آپ کے یورک ایسد کا کیا حال ہے، میں نے کہا کہ رپوٹ تو نارمل ہی ہے لیکن تلوہ میں درد رہتا ہے ، انہوں نے کہا دھیان دیجئے اور احتیاط برتئے پیدل چلنے کی کوشش کیجئے، اتنے میں ان کی بہن کا گھر آگیا اور وہ گاڑی سے اتر گئے اور یہ کہتے ہوئے الوداعی مصافحہ کیا کہ کل ہم لوگ ساتھ چائے نوشی کریں، میں نے کہا وعدہ تو نہیں کوشش کروں گا، مجھے کیا معلوم کہ یہی ان سے آخری ملاقات ہوگی اور یہ الوداعی مصافحہ حقیقی الوداعی مصافحہ ہوگا۔ موت سے کسی کو رستگاری نہیں ہے، موت کے چنگل نے کسی کو نہیں بخشا ہے، بڑے سے بڑے ظالم و جابر اور کرو فر کے مالک ہستیوں نے موت کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہیں، نیک و بد، اعلی و ادنیٰ، سبھوں نے اس کا لوہا مانا ہے، لاکھوں لوگ دنیا میں آئے اور صفر سے صدی تک کا سفر کرتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہا، سبھوں کی موت پر رونے والے تھے، لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جس پر صرف گھر والے اور رشتہ داروں کی آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں اور محلہ والے خاموش اور کچھ ہستیاں وہ ہوتی ہیں جس پر علاقہ سوگوار ہوتا ہے، اطراف کی صرف بستیاں نہیں کئی اضلاع بلکہ ریاست سے باہر کے لوگ بھی آنسو بہاتے ہیں، مفتی صاحب کی شخصیت مؤخر الذکر لوگوں میں شامل تھی، یہ کہنا بڑا مشکل ہے وہ تدریس میں بہتر تھے یا تقریر وتحریر میں؟ ان کی ہر سہ صلاحیت ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مساوی ہوجاتی تھیں، ان کی تقریریں قرآن و حدیث کے ساتھ انگریزی عبارتوں اور پیراگراف پر بھی مشتمل ہوا کرتی تھی، جس کی وجہ سے جبہ و دستار والے تو مرعوب ہوتے ہی تھے کوٹ، پتلون اور ٹائی والے بھی اوپر سے نیچے دیکھنے لگتے تھے، مجمع پر چھانے کی بے پناہ صلاحیتیں ان کے اندر موجود تھیں، ان سے ابتدائی ملاقات لگ بھگ اٹھارہ سال قبل ہوئی تھی مدارس اسلامیہ کے تئیں سیاہ بل کے حوالے سے اسٹودینٹ اسلامک فیڈریشن آف مدہوبنی کے زیر اہتمام مدہوبنی میں احتجاجی مظاہرہ میں شامل ہونے کے لیے وہ ایک مسجد میں تقریر کررہے تھے، نماز کے بعد دانشوروں نے جس انداز ان سے ملاقات کی اس وقت ان سے متاثر ہوا اور تادم حیات متاثر رہا ، اخلاق مند اور بہت ہی ملنسار تھے، چہرے پر ہمیشہ مسکان رہتی ، اپنے اکابر سے نرم خوئی سے تو ملتے ہی اصاغر سے بھی وہی نرم و نازک انداز گفتگو، مجھ جیسے نااہل سے بھی بڑی گرم جوشی سے ملتے وہ اگرچہ بہت سینئر تھے تاہم ملاقات جونیئر جیسی ہی ہوتی، اکثر جب وہ گھر پر ہوتے تو کٹھیلا چوک پر چائے نوشی کا موقع ملتا ہے، چائے میں وہ لطف اندوزی کہاں جو ان کی گفتگو میں تھی، تھکاوٹ سے چور اور شراب سے مخمور شخص بھی تازہ دم ہوجایا کرتا، وقت کیسے گزر جاتا پتہ بھی نہیں چلتا، تدریسی مشغولیت کے ساتھ ساتھ تعلم کا سلسلہ بھی قائم تھا، غالباً پچھلے سال انہوں نے بذریعہ فون بتلایا کہ ایم فل مکمل ہوگیا ہے ٖآگے بھی سلسلہ جاری رہے گا، معلوم نہیں کہ وہ پی ایچ ڈی کرپائے یا نہیں، بہرکیف علاقے نے اہم شخصیت کو کھویا ہے، بلا شبہ گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے، لیکن انہوں نے اپنی صلاحیتوں سےکبھی بھی اپنے آپ کو دال برابر نہیں ہونے دیا، اہل علم میں تو انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا ہی گیا تھا عوام نے بھی ان کی قدر کی ہے۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز فضلا میں سے تھے، افتا بھی وہی سے کیا، بعد میں حضرت مدنی کے خلیفہ حضرت مولانا ازہر رحمہ اللہ مہتم مدرسہ حسینہ کڈرو رانچی نے اپنے یہاں بحیثیت استاد بحال کرلیا اور اس طرح مدرسہ حسینہ کے کامیاب مدرس ثابت ہوئے ، اُس علاقے میں ان کی الحمد للہ کافی مقبولیت تھی، وہ پکے مولوی تھے مگر دانشوروں کو مطمئن کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، یعنی وہ دانشور مگر مولوی یا مولوی مگر دانشور تھے، کثیرالاولاد ہیں، معلوم ہوا کہ سات بچیاں اور دو بچے ہیں، صرف ایک بچی کی شادی ہوپائی ہے، اللہ مسبب الأسباب ہے وہ انتظام کرنے والا ہے، لیکن اگر علم دوست حضرات ان کی بچے اور بچیوں کی کفالت پر کھڑے ہوجائیں تو ان سے سچی محبت کا اظہار ہوگا۔ اللہ ان کو کڑوٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔آمین

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں