اردو فکشن اور ہجرت کے مسائل

تبصرہ
نام کتاب :اردو فکشن اور ہجرت کے مسائل
(1947 کے بعد)
مصنفہ:ڈاکٹر زرنگار یاسمین
ناشر :کتابی دنیا دہلی
قیمت :150 روپے
تبصرہ نگار :شمس تبریز قاسمی

Urdu Functionہجرت زندگی کا سب سے تکلیف دہ پہلو ہوتاہے ،اپنے وطن ،اپنی زمین اور اپنے گھر بار کو الوداع کہنا ،رشتہ دار اور اعزاء و اقارب سے جدائیگی اختیار کرنا انتہائی دشواراور مشکل ترین لمحہ ہوتاہے،لیکن انسانی زندگی میں پیش آمدہ مسائل کے پیش نظر ایک انسان کو یہ سب مجبورا کرنا پڑتاہے،زندہ رہنے کی آس میں اپنے حقیقی وطن کو نم آنکھوں کے ساتھ الوداع کہ کر وہ کسی نئے ٹھکانہ کی تلاش میں سرگرداں رہتاہے جہاں کہیں جگہ ملتی وہیں بودوباش اختیار کرلیتاہے ،ہجرت کا یہ سلسلہ ایک طویل عرصہ سے جاری ہے ،ہر دورمیں لوگوں نے مختلف وجوہات کے سبب ہجرت کرکے دوسری جگہ رہائش اختیار کی ہے،آج بھی ہجرت دنیا کا سب سے اہم مسئلہ ہے، شام ،مشرق وسطی اور افریقہ کے لاکھوں لوگ دوگززمین کیلئے ترکی اور یورپین ممالک کا رخ کررہے ہیں۔
ہجرت کے اسباب بہت سارے ہیں ،کچھ لوگ تبلیغ دین کیلئے ہجرت کرتے ہیں ،کچھ بہتر طرززندگی کیلئے ہجرت کرتے ہیں ،کچھ اپنے پڑوسیوں سے تنگ آکر ہجرت کرتے ہیں ،کچھ اپنی قوم سے پریشان ہوکر ترک وطن پر مجبور ہوتے ہیں،کچھ لوگ جنگ زدہ ماحول سے بچنے کیلئے اپنی تمام تر جائیداد کو چھوڑ کر محض جان بچانے کیلئے کسی اور ملک میں بود وباش اختیا رکرتے ہیں تو کچھ لوگ کسب معاش کیلئے مہاجرویں جیسی زندگی گزارتے ہیں تاہم زیادہ تر لوگ ہجرت کسی نہ کسی مجبوری کے سبب ہی کرتے ہیں اور وہ اپنی زندگی میں ان گنت مسائل سے دوچار رہتے ہیں۔
ہجرت کے اسبا ب وجوہات اور مسائل پر ہرزمانے میں بہت کچھ لکھا گیاہے ،ادباء ،شعراء ،صحافی اور مورخین نے اپنے اپنے زمانے کے مہاجرین کے درد کو بیان کیاہے ،تقسیم ہند کے پس منظر میں ہجرت کے مسائل پر بھی بہت زیادہ خامہ فرسائی کی گئی ہے ،ملک کے بٹوارے کے بعد ہندوستان ۔پاکستان میں ہجرت کا تسلسل قائم تھا ادھر کے لوگ ادھر اور ادھر کے ادھر ہجرت کررہے تھے ،تقسیم وطن نے برسوں کے ہندو مسلم اتحاد کو پارپارہ کردیاتھا ایسے ماحول میں لاکھوں لوگوں کو اپنا محبوب وطن چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہوناپڑا، مسلمان پاکستان کی جانب رخ کررہے تھے اور پاکستان کے ہندو ہندوستان کی جانب رواں دواں تھے ایک طرف مسلمانوں کو ہندؤوں سے خدشہ تھا تو دوسری طرف ہند و مسلمانوں کا قتل عام کررہے تھے ،خواتین کی عزت وعصمت لوٹی جاری تھیں،ہر کوئی دوسرے کے خون کا پیاساتھایہ وجوہات تھیں جس نے اپنی جائیداد ،دولت اور سب کچھ قربان کرکے ترک وطن پر مجبور کیاتھا۔
ناول نگار ،افسانہ نویس اور صاحب فکشن نے تقسیم وطن کے پس منظر میں ہجرت کے اسباب پر بہت کچھ لکھاہے ،ایسے ناول و افسانہ کی تعداد ان گنت ہے جس میں ہجرت کے ان مسائل پر گفتگو کی کئی گئی ہے لیکن ہجرت کے او ربھی اسباب وجوہات ہیں ،مشکلات ومسائل ہیں جن پر 1947 کے بعد بالکل ہی توجہ نہیں دی گئی ہے بلکہ یوں کہ لیجئے کہ ادباء اور فکشن نگاروں نے ترک وطن کی ہجرت کے علاوہ ہجرت کی دوسری انواع پر سرے موضوع سخن ہی نہیں بنایا ہے، جبکہ ترک وطن کی طرح ہجرت کی یہ دوسری قسم بھی بہت شدید ،تلخ ، صبر آمیز اورآزمائش سے دوچار ہے ، ہجرت کی یہ دوسری صورت 1947 کے بعد پیش آمد ہ واقعات کے پس منظر میں شروع ہوتی ہے جس میں لوگوں نے کسب معاش کیلئے مشرق وسطی کا رخ کیا ہے ،حصول رزق کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھائی ہیں اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔
مشہور ادیبہ ڈاکٹر زرنگار یاسمین صاحبہ نے اپنی کتاب اردو فکشن اور ہجرت کے مسائل (1947 کے بعد) میں انہیں امور کی جانب ادباء کی توجہ مبذول کرائی ہے اور اپنی کتاب میں ہجرت کی ایک دوسری نوع پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے اور اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہجرت کا یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے ،لوگ بے شمار مسائل سے دوچار ہیں ساتھ ہی ہجرت کے اس نوع کی سب سے زیادہ شکار خواتین ہیں ، تاہم ان امور پر ایک دوکے علاوہ کسی نے توجہ نہیں دی ہے اور نہ ہی کوئی تشفی بخش کتاب اب تک آسکی ہیں ، کچھ صحافیوں نے اس جانب توجہ دی ہے تاہم افسانہ اور ناول کا دامن اس سے خالی ہے ، ہجرت کے مسائل پر لکھے گئے ناول و افسانہ کا جائزہ لینے کیلئے جو کتابیں لکھی گئی ہیں وہ سب 1947 تک ہی محدود ہیں اس سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے ،غالبا یہ پہلی کتاب ہے جس میں 47 کے بعد لکھے گئے فکشن کا جائزہ لیا گیا ہے ۔
مصنفہ مقدمہ کتاب میں رقم طراز ہیں
’’تقسیم در تقسیم کے نتیجے میں ہونے والی ہجرت اور پھر تلاش رزق میں ہونے والی در بدری کو اپنے مطالعہ اور تجزیہ کا حصہ بناکر اس موضوع کو میں نے ایک نئی جہت دینی کی کوشش کی ہے‘‘ ۔
(اردو فکشن اور ہجرت کے مسائل صفحہ، 9)
ڈاکٹر زرنگاریاسمین صاحبہ نے اپنی کتاب میں کسب معاش کی خاطر ہجرت اور اس کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ آج لوگ کسب معاش کی خاطر اپنا وطنچھوڑ کر خلیجی ممالک یا یورپ کا رخ اختیا کرتے ہیں وہاں ان سے جانوروں سے بھی بدترسلوک کیاجاتاہے ،وہاں کے سماج میں انہیں گھلنے منے نہیں دیا جاتاہے ،دوسری طرف وہ لوگ غیر اطمینان بخش جنسی زندگی گزارتے ہیں ۔ شادی شدہ لوگوں کی بیویاں جنسی اور سماجی مسائل سے دوچار ہوتی ہیں ،شوہروں کی طویل غیر حاضری وفاداری کی راہ میں حائل ہوکر بہت سے مسائل کو جنم بھی دے دیتی ہیں ،چناں چہ ایک جگہ لکھتی ہیں۔
’’اس کی بیوی ہندوستان میں ہے ،فطری طور پر اس کی خواہش ہے کے اس کا شوہر ہندوستان میں رہے یا پھر وہی اپنے شوہر کے پاس چلی جائے ،شاید ناول کے ہیرو کی بھی یہی خواہش ہے ،چونکہ جسم کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ،مگر یہ دونوں ہی صورتیں غوروفکر کی روشنی میں ناقابل عمل دکھائی دیتی ہیں،اگر وہ واپس آجائے تب تو سراسر نقصان ہے ،اس کا آبائی کچا گھر جو پختہ ہوچکاہے اس کی دوسری منزل شاید تعمیر نہ ہوسکے ،گاؤں میں اس کی جوعزت بڑھی ہے وہ شاید گھٹ جائے ،مستقل آمدنی کی کوئی صورت یہاں پیدا نہ ہو۔۔۔۔۔۔اور بیوی کے ساتھ جانے میں بھی مسئلہ ہے ،وہاں فیملی کے ساتھ رہ کر شاید زیادہ روپے نہ بچ سکیں اور یہاں ضعیف رشتہ داروں کی دیکھ بھال کون کرے گا‘‘۔
(اردو فکشن اور ہجرت کے مسائل صفحہ 89)

مشہور ادیبہ ڈاکٹر زرنگار یاسمین
مشہور ادیبہ ڈاکٹر زرنگار یاسمین

انہوں نے اپنی کتاب میں صنف نازک کے مسائل کو خصوصیت سے بیان کیا ہے ،مشرق وسطی میں مزدوروں کا استحصال کئے جانے کے ساتھ وہاں کے لوگوں کی جنسی عیاشی اور خواتین کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کیلئے بھی تنقید کی ہے اور اس پر موضع پر فکشن نگاروں کے کچھ نہ لکھنے پرانہوں نے تنقید کی ہے چناں چہ وہ لکھتی ہیں ۔
’’برصغیر سے مشرق وسطی کی طرف جانے والے مہاجرین کا ایک او رمسئلہ بھی تھا جو دن بہ دن بڑھتا ہی گیا،اس کی طرف اردو کے صحافیوں نے بلکہ قومی صحافیوں نے بہت توجہ دی اور بعض افسانے بھی اس سے متعلق لکھے گئے ،میری مراد بے میل شادیوں سے ہے ،ایسی شادیوں سے جو شریعت کی آڑ میں ہوس کی تکمیل کی جاتی رہی ہیں،ہندوستان کے جنوبی علاقوں خاص طور پر حید ر آباد اور اس کے مضافات میں اکثر ایسا ہوتاہے کہ کوئی عر ب شیخ کسی غریب لڑکی سے جو ظاہر ہے انتہائی کم عمر ہوتی ہیں چند دنوں کیلئے شادی کرلیتاہے پھر اسے دین مہر کی رقم اور اخراجات کے نام پر ایک موٹی رقم دیکر اپنی راہ لیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظاہر ہے کہ یہ بے میل شادیاں اور مذہب کی آڑ میں یہ عیاشیاں بھی ایک طرف تو اس نزدیکی کا نتیجہ تھیں جو نئی طرح کے صارفی تعلقات کے سبب پیدا ہورہی ہے اور دوسری طرف اس کا سبب دولت کی فراوانی اور ہوس دونوں ہی ہے ،مجھے حیرت ہے کہ اردو فکشن نے اس اہم مسئلے پر زیادہ توجہ کیوں نہیں دی ‘‘۔
(اردو فکشن اور ہجرت کے مسائل صفحہ 92)
کتاب میں تقسیم ہند اور قیام پاکستان ،تقسیم پاکستان اور قیام بنگلہ دیش کے پس منظر میں ہجرت کے مسائل پر لکھے گئے ناول وافسانہ کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے اس کے علاوہ مشرق بعید سے مشرق وسطی اور مشرق سے مغرب کی جانب ہجرت کے مسائل کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے ،اس موضع پر جو ایک دو کتابیں آئی ہے اس کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے اور اس جانب عدم توجہی کو موضوع سخن بنا یا گیا ہے ۔
مصنفہ ایک ادیبہ اور تنقید نگار ہونے کے ساتھ ایک خاتون بھی ہیں ،انہیں خواتین کے مسائل کا بخوبی انداز ہ ہے، ان سے بہتر کوئی اور نہیں بتاسکتاہے کہ کسب معاش کیلئے ہجرت کرنے کے بعد ان کے اہل خانہ اور گھروالوں کو کن مسائل سے دوچارہوناپڑتا ہے ،مصنفہ کا وطنی تعلق بہار سے ہے ،اسی سرزمین میں وہ پلی بڑھی ہیں ،عوام سے ان کا رابطہ رہاہے اس لئے انہوں نے بہار کے مہاجرین کے مسائل کی جانب بھی اچھاخاص اشارہ کیا ہے اور یہ بتانے کی سعی کی ہے اہل بہار کو ہجرت کے دوران گوناگوں مسائل سے دوچاڑ ہوناپڑا لیکن ناول افسانہ اور فکشن میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتاہے۔
’’اردو فکشن اور ہجرت کے مسائل ‘‘اپنے موضع پرمکمل ، پر مغز اور منفرد کتاب ہے ،مثبت اور تعمیری تنقید کے حوالے سے اس کتاب کو مشعل راہ بھی کہاجاسکتاہے،تعمیری تخلیق کی رہنمائی ملتی ہے ، زبان وبیان میں پائے جانے والی سلاست ،روانی اورشگفتگی قارئین کو ایک نششت میں پڑھنے پر مجبور کردیتی ہے ،خوبصورت اور پرکشش طباعت وکتابت نے اس کے حسن میں مزید چار چاندلگادیا ہے۔