ساگر تیمی
ملت ٹائمز
جاڑے کی رات تھی ، لائبریری ایسے بھی طلبہ کی رہائش گاہوں سے الگ ہی تھی اور شہر سے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے سردی کا احساس یونیورسٹی کی چہار دیواری میں زیادہ ہی ہوتا تھا ۔ ٹائم بھی کوئی خاص نہیں ہوا تھا ، مشکل سے دس بجے ہونگے ۔ نواز ریڈنگ روم کے ایک کونے میں بیٹھا کتابوں میں مشغول ہونے کی کوشش کررہا تھا لیکن اس کی کوشش خاطر خواہ فائدہ اس لیے نہیں پہنچارہی تھی کہ ٹھیک اس کی بغل میں بیٹھی دوشیزہ معمولی شکل وشباہت کی ہی تھی لیکن اس کے اندر نسائی کشش اتنی ضرور تھی کہ وہ نواز کے اندرون میں ہلچل پیدا کرسکے۔ اس کے اس ہلچل کو قرار تب ملا جب تھوڑی دیر بعد کن انکھیوں سے دیکھنے پر بغل والی سیٹ خالی نظر آئی لیکن یہ قرار اب اس سوال کے الجھنوں میں کھوگیا کہ کہیں وہ اس کے اندرونی ہلچل کو بھانپ کر تو نہیں اٹھ گئی ۔ کچھ دیر وہ اسی خیال میں گم رہا اور پھر کب اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ ٹیبل پر سر ٹکائے وہ سو رہا اس کی اسے خبرتک نہ لگی ۔
نیند اس کی تب کھلی جب اسے لگا کہ لائبریری کے ٹھیک باہر کچھ خلاف معمول ہے ، ہنگامہ سا ہے ، ادھر ادھر دیکھنے پر پتہ چلا کہ پورا ریڈنگ روم خالی ہے ۔ باہر نکلا تو اس کی حیرانی کی انتہا نہ رہی ، ایک نہایت حسین وجمیل ، سانولی لیکن نہایت جاذب لڑکی اس سردی میں سارے گرم کپڑے نکالے صرف ٹی شرٹ اور جینس پینٹ میں ہے اور بے تحاشا چلائے جارہی ہے ، اس نے مجھے لوٹ لیا ، مجھے کہیں کا نہ چھوڑا ، میں ختم ہوگئی ، مجھ میں اب کچھ نہیں بچا ، اس نے میرے ساتھ چیٹنگ کی ، مجھے کھلونوں کی طرح استعمال کیا اور اب میں کہاں جاؤں ، اسے مجھ سے شادی نہیں کرنی تھی تو اس نے مجھے پیار کیوں کیا ، میں برباد ہوگئی ۔۔۔۔۔ ۔میں تباہ ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشوک تم نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا ۔۔۔۔۔۔۔ میں اب کیا ۔۔۔۔۔ کیا ۔۔۔۔۔۔۔ کروں ؟
نواز نے دیکھا کہ دو لڑکیاں اسے خاموش کرنے اور اس کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور وہ چلائے جارہی ہے ۔ دوسری طرف لڑکے لڑکیاں آپس میں پھسر پھسر کررہے ہیں ۔
ونتی : نندو لیکن یہ اشوک ہے کون ؟
نندو : کوئی بھی ہو ، ہمیں کیا ؟
ونتی : لیکن کبھی اگر تم نے بھی ۔۔۔۔۔۔۔؟
نندو : یہ تم لڑکیاں ہوتی ہی بے وقوف ہو ۔ اب چلو بھی احتجاجی مارچ ختم ہوا ، لیڈروں کی تقریرں ہونگیں ، سیما اچھا بولتی ہے ، مجھے اس کی تقریر سننی بھی ہے ۔۔۔۔۔۔
ان دونوں کے پیچھے پیچھے نواز بھی اپنی دنیا میں کھویا ہوا سا اور گزرے ہوئے چند لحموں کے تار آپس میں جوڑتا ہوا سا وہاں پہنچ گیا جہاں لیڈر جمع تھے اور مختلف پارٹیوں کے نمائندے اپنی اپنی باتیں رکھ رہے تھے ۔ سیما کی باری آئی اور بڑے ہی مضبوط اور جوشیلے انداز میں پتلی سی خوبصورت سی لیکن انتہائی نڈر اور بے باک لڑکی کی آواز میں فضا میں گونجنے لگی ۔
تم ہمیں سمان مت دو ، ہمیں تم سے عزت نہیں چاہیے ، ہمیں ماں ، بیٹی ، بہن اور بیوی کے سابقے اور لاحقے سے نفرت ہے ، تم ان خوب صورت اور مقدس رشتوں کا نام لے کر ہمارا استحصال کرتے ہو، ہم عورت ہیں ، نصف انسانیت ، ہمیں عورت رہنے دو ، اور یہ تم ہمیں دیوی مت بناؤ ، ہمیں تم سے کچھ اور نہیں بس ایک بات کرنی ہے اور کھل کرکرنی ہے کہ جس طرح باپ بیٹے بھائی ہونے کے باوجود مرد ہونا تمہارا غرور ہے اسی طرح ہمارا عورت ہونا ہمارا غرور ہے ، تم بس اپنے آپ کو سنبھالو ہم اپنی دیکھ ریکھ کے لیے خود ہی کافی ہیں ۔ اب بہت ہوچکا ، اب ہم تمہاری قوامیت کے چنگل سے نکلنے کا عزم بالعزم رکھتے ہیں ۔ یاد رکھنا عزت صرف ہماری نہیں لٹتی ، بے عزت تو تم بھی ہوتے ہو ۔۔۔۔۔ ہم تمہیں بتانا چاہتے ہیں کہ جنسی عمل دوطرفہ ہوتا ہے ، اس لیے بے عزتی کا طعنہ بھی اب ہم پر کوئی اثر کرنے والا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریر پورے جوش و خروش سے ہورہی تھی ، لڑکے لڑکیاں بے تحاشا تالی پیٹ رہے تھے ، سیما کا اتساہ اور بھی بڑھتا جارہا تھا اور نواز کے سامنے ایک بارپھر لائبریری کے باہر کا منظر تھا ۔ تم نے مجھے برباد کردیا ۔۔۔۔ میں کہیں کی نہیں بچی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا کیا ہوگا ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔ اب کسی ۔۔۔۔ اور کے ۔۔۔۔ قابل نہیں رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواز سیما کی جوشیلی تقریر اورلائبریری کے باہر پڑی ہوئی دوشیزہ کی چیخ و پکار کے بیچ کوئی رشتۂ انسلاک تلاش کرتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔