اردو کی کلاسیکی شاعری کا نادر نمونہ: کلیات عابد پشاوری

ڈاکٹر مشتاق احمد
جرمن فلاسفر وشاعر گوئٹے کا خیال ہے کہ کسی بھی ادب کی عظمت کا انحصار اس ادب کے معیار تحقیق وتنقید پر ہے۔ اس لئے اس نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’دی فاؤسٹ‘ کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا کہ نئی نسل کے محقق اور تنقید نگار ہی اس وراثت کو دنیا کے سامنے پیش کرسکیں گے۔ کچھ اسی طرح کا خیال ڈنکن فاربس کا بھی تھا، فاربس لندن کے کنگس کالج میں مشرقی زبان وادب کے پروفیسر تھے۔ ان کے مضامین کا مجموعہ ’سلیکٹیڈ آرٹیکل‘ ادبی مباحث پر مبنی ہے۔ فاربس نے مشرقی ادب کی تحقیق وتنقید کا دلدادہ تھا، اس نے بھی ادب میں تحقیق وتنقید کے معیاری ہونے کی وکالت کی تھی۔ ہمارے یہاں تذکرہ کی صورت میں جو تحقیقی وتنقیدی سرمایہ موجود ہے، اس کے مطالعے سے یہ عقدہ اجاگر ہوتا ہے کہ ہمارے محققین نے دور آغاز میں کس قدر محنت ومشقت کی ہے ، جبکہ ان کے سامنے تحقیق وتنقید کا کوئی اعلی نمونہ موجود نہیں تھا اور نہ وہ مغربی دنیا سے ہی واقف تھے۔ ایسے میں جو تنقیدی و تحقیقی اثاثہ موجود ہے وہ ہمارے ادب کے معیار ومیزان متعین کرتے ہیں۔
اٹھارہویں صدی میں جب ہمارے اکابرین کا رشتہ مغربی دنیا سے استوار ہوا تو پھر مغربی تحقیق وتنقید کے اصول بھی عام ہوئے اور عالمی ادب کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی لیکن بیسویں صدی میں چند ایسے تحقیقی وتنقیدی نمونے سامنے آئے کہ اسے عالمی سطح پر بھی قبولیت حاصل ہوئی۔ پھر اس کے بعد تحقیق وتنقید کے میدان میں ایسے ایسے شہسوار شامل ہوئے کہ ان کی بدولت ہی تخلیق کا وقار ومعیار بڑھا اور ایک زمانے تک اردو تحقیق اور تنقید مشرقی ادبیات میں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی رہی لیکن اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ یہ المیہ بھی سامنے آیا کہ ہماری تحقیق وتنقید جامعات میں مقالات برائے پی ایچ ڈی کی ڈگری تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ جامعات سے باہر اس صحرا میں صحرا نوردی کرنے والوں کی تعداد انگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہے۔ ہماری جامعات میں جس طرح کی تحقیق وتنقید کے کام ہورہے ہیں اس کے میعار کے متعلق یہاں کوئی تبصرہ مقصود نہیں کہ اس حقیقت سے قما حقہ ہم سبھی واقف ہیں۔
بہر کیف! جامعات سے باہر رہ کر جن چند لوگوں نے اردو تحقیق کے صبر آزما کام کو آگے بڑھایا ہے اور معیار کا بھی خیال رکھا ہے ان میں ڈاکٹر جمیل اختر کا بھی شمار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اختر ایک کل وقتی ادیب ہیں، ان کا خاص میدان عمل تحقیق وتنقید ہے۔ اب تک ان کی تقریباً چالیس تصانیف وتالیفات شائع ہوچکی ہیں اور دنیائے ادب میں قبولیت حاصل کرچکی ہیں۔ یوں تو ان کے تحقیقی وتنقیدی مضامین اردو زبان وادب کے مؤقر رسائل جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کے علمی وادبی کاموں کا خاصہ یک موضوعی ہے۔ قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، بلونت سنگھ، محمد حسن، کتابیات رسائل، اشاریہ سازی وغیرہ ان کے علمی وادبی کارناموں کے نمونے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل اختر تراجم کے شعبے میں بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں، انہوں نے اٹل بہاری باجپئی جی کی ہندی نظموں کا ترجمہ کیا تھا جسے بر صغیر میں مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔
مختصر یہ کہ ڈاکٹر جمیل اختر کے اندر تحقیقی وتنقیدی بصیرت وبصارت کا چراغ روشن ہے اور ان کا ذہن بھی منظم ہے۔ وہ کسی بھی کام کو یکسوئی سے کرنے کے قائل ہیں اور ہر کام کو اعلی سے اعلی صورت دینے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے علمی وادبی کارناموں سے چند ایسے اکابرین شعرا وادبا کو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے جن سے اردو کا علمی حلقہ کم کم واقف تھا۔ بالخصوص اردو میں جن لوگوں نے کلیات کی روش کو عام ومستحکم کیا ہے ان میں جمیل اختر کے کارنامے قابل تحسین ہیں۔ اس وقت میرے پیش نظر ڈاکٹر جمیل اختر کی تحقیق وتدوین کا ایک اعلی ونادر نمونہ ’’کلیات عابد پشاوری‘‘ ہے۔ یہ کلیات دو جلدوں پر مشتمل ہے، جلد اول 528صفحات اور جلد دوم 500 صفحوں پر مشتمل ہے۔ دونوں جلدیں اردو ادب کے نامور شاعر شیام لال کالرا، عابد پشاوری کی غزلیہ شاعری کا احاطہ کرتی ہیں۔ اردو ادب کے سنجیدہ قارئین عابد پشاوری سے بخوبی آشنا ہیں، عابد درس وتدریس سے وابستہ رہے اور تمام عمر تصنیف تالیف کا کام کرتے رہے لیکن ان کی غزلیہ شاعری حلقہ ادب کی آنکھوں سے اوجھل تھی۔ ظاہر ہے کہ کسی شاعر کے تمام مطبوعہ وغیر مطبوعہ کلام کو بہ اعتبار ادوار یکجا کرنا صحرا میں کشتی چلانے کے مترادف ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر جمیل اختر نے اپنی جانفشانی سے اس کلیات کو نہ صرف میعار وقار بخشا ہے بلکہ تحقیق وتدوین کے تقاضوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ڈاکٹر جمیل اختر نے اپنے 15 صفحات کے پرمغز مقدمے میں عابد پشاوری کے حیات وماحول کے ساتھ ساتھ ان کے نظرےۂ ادب وزندگی پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے اس کلیات کی علمی و ادبی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے اور عابد پشاوری کو عہد حاضر کا ایک معتبر شاعر وادیب تسلیم کیا ہے۔بقول ڈاکٹر اختر’’عابد پشاوری کی کلیات ان کے چاہنے والوں کی خواہش کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اردو کے شعری اثاثہ میں ایک انمول اضافہ بھی ثابت ہوگا اور عابد پشاوری کے محاسن اور معابد شعری کا مجموعی محاکمہ بھی ممکن ہوسکے گا، بحیثیت شاعر ان کی قد وقامت کا تعین بھی کیا جاسکے گا۔ تنقید کا نیا در وا ہوا چاہتا ہے۔‘‘
یہ ذکر پہلے ہی آچکا ہے کہ ڈاکٹر جمیل اختر کو فکشن سے خاص لگاؤ رہا ہے، اس لئے ناول نگاری اور افسانہ نگاری کے تعلق سے وہ کام کرتے رہے ہیں لیکن عابد پشاوری کی کلیات مرتب کر کے انہوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کی شعر فہمی کا سمندر بھی کس قدر گہرا ہے۔ انہوں نے خود بھی اس کا اعتراف کیا ہے’’فکشن سے شاعری کی کلیات کی طرف مراجعت کسی مجبوری کا نتیجہ نہیں بلکہ شوق دیدمیں اضافہ ہے اور ادبی وراثت کو سنجوگنے، سنبھالنے اور محفوظ کرنے کے عمل کا بھی نتیجہ ہے‘‘۔
اب ضروری یہ ہے کہ عابد پشاوری کے چند اشعار قارئین کی خدمت میں بطور نمونہ پیش کیے جائیں:
مٹتے مٹتے ہی تری یاد مٹے گی دل سے
ہم ہی مٹ جائیں گے پتھر کا جگر ہونے تک

خوگر غم جو کرلیا دل کو
غم نے گھبرا کے خود کشی کرلی

کب فرشتوں کو پیار ہے حاصل
آدمی کے نصیب کیا کہئے

وفا کے نقش محبت کے مستقل رشتے
مٹا رہا ہے زمانہ بنا رہے ہیں ہم

زمانہ جنت ودوزخ کے گن گاتے نہیں تھکتا
کوئی سنتا نہیں ہم اس جہاں کی بات کرتے ہیں

مسلسل برہمی، پیہم ستم رانی، غضب دائم
کسی سے اس طرح تقدیر بھی برہم نہیں ہوتی

مجھے بھی میرؔ ہی سمجھوگے اے عابدؔ
اگر میں چھوڑ گیا، اپنے بعد کلام اپنا

بلا شبہ ڈاکٹر جمیل اختر نے عابد پشاوری کے کلام کو دنیائے ادب کے سامنے پیش کرکے عابد پشاوری کی دیرینہ خواہش کو بعد از مرگ پوری کردی ہے ۔ میرے خیال میں اردو شاعری بالخصوص غزلیہ شاعری پر تحقیق وتنقید کرنے والوں کے لئے عابد پشاوری کی تقریباً 350 غزلیں، ان کی نظمیں، آزاد نظمیں، گیت، قطعات وربارعیات چراغ راہ ثابت ہوں گی کہ کلیات عابد پشاوری کے مطالعے سے بیسویں صدی کی اردو شاعری کے مزاج ومذاق کا پتا چلتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عابد پشاوری کی علمی وادبی اہمیت کا اعتراف بھی ہے کہ نئی نسل اپنے اس جید عالم اور فنکار سے واقف ہوسکے گی۔ اس تحقیقی کارنامے کیلئے ڈاکٹر جمیل اختر مبادکباد کے مستحق ہیں ۔ یہ نادر علمی تحفہ ایجوکیشنل پبلیکیشنگ ہاؤں دہلی سے جلد اول 259 اور جلد دوئم بھی 259 روپئے میں حاصل کی جاسکتی ہیں۔(ملت ٹائمز)
ای میل: rm.meezan@gmail.com
Mob: 9431414586