آہ !پدم وبھوشن استاد غلام مصطفٰی خان مرحوم: ہمیں اکثر تمہاری یاد آئے گی!

افتخار رحمانی فاخر ، نئی دہلی
رام پور – سہسوان گھرانہ کلاسیکی موسیقی کے باب میں محتاجِ تعارف نہیں، اس گھرانے سے میرا گہرا، قلبی اور اٹوٹ تعلق ہے، گویاکہ اِس خاندان سے میرا ازلی اور خونی رشتہ ہو، یہ رشتہ اپنے آپ میں بہت ہی معنویت کا حامل بھی ہے۔ مجھے بوجوہِ ممانعت ِ شرعی ذاتی طورپرفنونِ لطیفہ کی نوع’موسیقی‘ سے کوئی دلچسپی نہیں؛لیکن اِن تفاوتوں اور تعارضات کے باوجود اِس خاندان سے میرا قلبی تعلق ضرور ہے، البتہ فنونِ لطیفہ کی دوسری نوع ’شاعری‘ سے شرعی حکمِ حرمت کے نہ ہونے کے باعث قر ُب اور انسیت ہے۔ ہمیں موسیقی کے ’’سارے ، گاما ، پادھا ، نی سا ‘‘ کی ابجد کا بھی علم نہیں ، کجا ’’ بھیروی ، درباری‘‘ اور ان جیسے مشکل راگوں کا علم ہو!، فقط نام سن لینے پرہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔گزشتہ دنوں 17جنوری 2021 کی تاریخ رام پور-سہسوان گھرانے کے لئے تاریک ترین ثابت ہوئی،جب اس گھرانے کے سرپرست اور فن موسیقی میں کئی نامور لوگوں کے استاد اورحکومت ِہند کے اعلیٰ ترین شہری ایوارڈ سے سرفراز کئے گئے پدم و بھوشن استاد غلام مصطفی خان داعیِ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ملک بھر کے میڈیا ہاؤس اور مداحوں نے اس خبر کو دوسرے لوگوں تک شیئر کیا۔ یہ خبر رام پور-سہسوان گھرانہ کے مداحوں اور تعلق خاطر رکھنے والوں کے لئے صاعقہ بن کر دل و دماغ کو متأثر کر گئی۔ راقم بھی بوجہ تعلقِ قلبی اس خبر سے افسردہ ہوا،ا س خبر پر یقین نہ ہوسکا، تذبذب کی کیفیت میں اپنے ’عزیز‘ کے چچا زاد بھائی (کزن )سے اس خبر کی تصدیق چاہی ، تو اس نے تصدیق کی کہ سچ مچ دادا جان کا ممبئی میں باندرہ واقع اپنے گھر سہ پہر 1بجے کے قریب انتقال ہوگیاہے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔تھوڑی دیر کے بعد وزیراعظم نریندر مودی اور صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے خان صاحب کے انتقال پر تعزیتی ٹوئٹ کرکے اہل خانہ سے تعزیت پیش کی ، اور سوگوران کیلئے صبرِ جمیل کی ’’پرارتھنا‘‘ کی، علاوہ فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد جن میں اے آر رحمٰن ، سونونگم، لتا منگیشکر وغیرہم نے بھی اپنے عظیم استاد کی رحلت پر دکھ، افسوس اور غم کا اظہار کیا۔
استاد غلام مصطفی خان صاحب کی ولادت برطانوی ہند کے بدایوں کے قصبہ ’سہسوان‘ میں 1931 میں 13 مارچ کو ہوئی تھی۔یہ وہ وقت تھا، جب رام پور کے روہیلہ نوابوں کی ریاست رام پور زمانے کی ظلمتوں اور عداوتوں کی آتشِ ہمہ گیر سے برسرِپیکار تھی ، اِسی زمانے میں استاد عنایت حسین خان اور پدم بھوشن استاد مشتاق حسین خان مرحومین نواب سید محمد حامد علی خان کے دربار میں موسیقی کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ استاد غلام مصطفی خان مرحوم چونکہ استاد عنایت حسین خان کے نواسے اور استاد وارث حسین کے صاحبزادے تھے، اِس خاندانی وجاہت کے باعث ان کے رگ و پے میں موسیقی ہی موسیقی تھی، گویا منھ میں سونے کے چمچے کے بجائے موسیقی کی ابجدسارے ، گاما،پا دھا نی سا ‘‘ لے کر پیدا ہوئے۔ راجیہ سبھا ٹی وی کے ایک خصوصی انٹرویو’شخصیات‘ میں انہوں نے ایام ِ طفولیت کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:’انہیں طفولیت میں زیادہ کھیل کود اور بچپنے کے لہو و لعب میں مشغولیت کا زیادہ موقعہ نہ مل سکا، والد مرحوم استاد وارث حسین خان اور والدہ ماجدہ نے ابتدائی دنو ں سے ہی موسیقی کی تعلیم اور ’ریاض‘ میں انہیں مصروف کردیاتھا۔ خان صاحب کے مطابق جب وہ دوسال ڈھائی کے تھے، اُن دنوں اُن کے والدوارث حسین خان اپنے سینے پر بٹھا کر ’’سارے ، گاما ، پادھا، نی سا ‘‘ کا ورد کروایا کرتے تھے۔ دراں حالے کہ دو سال کا بچہ اس عمر میں ’’آں ، اُوں اور ’بابا ، دادا ‘ کے تلفظ پر ہی قدرت رکھتا ہے۔انہوں نے محض آٹھ سال کی عمر میں پہلی بار اپنے فن کا مظاہر ہ پیش کیا۔ یہ فنی مظاہرہ بدایوں میں واقع جنم اشٹمی کے میلہ کے موقعہ پر پیش کیاگیا تھا۔ اُس وقت سے لے کر تادمِ آخر اِس فن کی خدمت انجام دی۔ جس کے صلہ میں ہندوستانی حکومت کی طرف سے وقتاً فوقتاً اُنہیں کئی ایوارڈ دیئے گئے ،1991میں پدم شری کا ایوارڈصدر جمہوریہ آر- ویکنٹ رمن کے ہاتھوں ملا، بعدازاں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ 2003 میں بدست صدر جمہوریہ مرحوم اے پی جے عبدالکلام سرفراز کیا گیا۔ پھر پدم بھوشن کا ایوارڈ 2006میں صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کے ہاتھوں نوازا گیا۔ گزشتہ سالوں 2018میں صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کے ہاتھوں ’’پدم و بھوشن‘‘ کااعلیٰ ترین سویلن ایوارڈ خدمت میں پیش کیا گیا۔ یہ ایوارڈز اور اعزازات یقیناً ان کے فن موسیقی میں لازوال خدمات کے صلے میں ہی دیئے گئے، جن سے ان کی شخصیت اور ان کا خصوصی فن نکھر کر سامنے آتا ہے ،اور ان کے فن میں عظیم تر ہونے کی دلالت پیش کرتا ہے۔ کم و بیش انہوں نے 50 سال سے زائد عرصے تک موسیقی کی خدمات انجام دیں ،سینکڑوں دستاویزی فلم میں انہوں نے اپنی کلاسیکل آواز کا جاد جگایا۔ کئی مردہ اور گم شدہ غزلوں کو اپنی آواز دے کر نئی زندگی عطا کی۔ سینکڑوں لوگوں، گویوں اور موسیقاروں کو فن موسیقی کی باریکیوں سے روشناس کرایا ، جن میں ہری ہرن ، اے آر رحمن، سونو نگم ، لتا منگیشکر ، آشا بھونسلے ، منا ڈے جیسے بے شمار لوگوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے استاد غلام مصطفی خان صاحب سے فن موسیقی کو سیکھا ، فن کی باریکیوں کوجانا ، اور اُن سے شاگردی کا سندِ اعز ازحاصل کیا ۔
اچھی طرح یاد ہے ، جب تین سال قبل عزیزم احمد خان نیازی سلمہُ الباری سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی ،اور موصوف سلمہُ نے اپنا خاندانی پس منظر اور جدامجد پدم بھوشن استاد مشتاق حسین مرحوم کے متعلق بتایا تھا، تو بڑا رشک آیا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ خاندان کے دیگر افراد سے واقفیت ہوتی چلی گئی۔ اِسی کڑی میں استاد عنایت حسین خان،استادغلام تقی خان، استاد غلام مصطفٰی خان جیسے رام پور-سہسوان گھرانے کے مشاہیر سے متعارف ہواتھا ،اُس وقت گھرانے کے بحیثیت سرپرست استاد غلام مصطفٰی خان صاحب بقید ِ حیات اور تندرست تھے، اُن سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، مگر انکشاف ہوا کہ وہ مستقلاً ممبئی میں مقیم ہیں،دہلی یا سہسوان کبھی کبھار ہی آتے ہیں۔ ان سے ملاقات کی خواہش تھی۔تاہم بوجوہِ ملازمت اور دیگر مشغولیات کے،ممبئی جانے کا اتفاق نہ ہوسکا اور آہ! ملاقات کی یہ خواہش بیداد ہی ہوکر رہ گئی۔ ان کی وفات سے موسیقی کی دنیا میں کیا خلا پیدا ہوا، اِس بابت موسیقی کے شعبہ سے وابستہ افراد ہی بتاسکیں گے، البتہ میرے علم کے مطابق اِس خاندان نے ایک عظیم مربی اور مشفق کھودیا، جن کی تلافی تا صبحِ قیامت ممکن نہیں۔ وہ ایک نیک دل ، نرم خو ، دیندار ،تسبیح و مناجات کے عادی انسان تھے۔ بچپنا اور شباب سہسوان اور رام پور میں گزرا تھا ، رام پور نیز سہسوان کی علمی و ادبی فضا کے باعث انہیں اردو شاعری سے گہری قربت تھی۔ اردو کہاوت اور ضرب الامثال اشعار نوکِ زبان ہوا کرتے تھے ۔یہ گھرانہ چونکہ مسلکاً قدرے تشیع کی جانب مائل اور خانقاہی سلسلے سے خانقاہِ نیازیہ ( بریلی) سے ارادت و عقیدت رکھتا ہے۔ بناء بریں خان صاحب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ کے عاشق زار، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سچے پرستار تھے۔بزرگانِ دین سے سچی الفت رکھنے والے اور علماء و مشائخ کے لئے دل میں وسیع مقام کے حامل تھے۔ خانقاہِ نیازیہ کے سجادہ نشیں حسنی میاں سے ارادت و تعلق کے باعث ان کے قصیدہ خواں اور سچے جاں نثار تھے۔ محرم الحرام کے موقعہ پر مراثی بڑے ہی شوق، جذبے اور سوز و درد سے پڑھا کرتے تھے۔ میرؔ انیس اوردیگر شعرا کے مر ثیے انہیں ازبر تھے ۔گاہے بگاہے سہسوان ( بدایوں) محرم الحرام کے موقعہ پرحاضر ہوا کرتے۔ ان کی ذات میں کئی خوبیاں تھیں، جو ایک بڑے فنکار میں بمشکل نظر آتی ہیں۔ملکی سطح کا سب سے بڑا ایوارڈ پدم و بھوشن ان کی شخصیت کو تابناک بناتا ہے ، لیکن اِن اعزازت و تفاخرات کے باوجود خاندانی بُردباری، حلم اور وقار میں غرور اور کسی طرح کی تمکنت کا شائبہ نظر نہ آیا، بڑے لوگوں کی یہی خوبیاں ہوا کرتی ہیں۔ کم و بیش 50 سال ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کی خدمات انجام دے کر موسیقی کا وہ آفتاب جو سہسوان (بدایوں) کی دھرتی پر طلوع ہوا تھا، ممبئی کی خاک کے ابر میں ہمیشہ کے لئے چھپ گیا۔ انہیں تمام سرکاری اعزاز کے سا تھ آخری وداعی پیش کی گئی اورممبئی کے سانتا کروز کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا ۔
ان کی بہو نمرتا گپتا خان، جو خود ایک مصنف ہیں ،نے غلام مصطفی خان صاحب کی نگرانی میں انگریزی زبان میں خان صاحب کی سوانح حیات ’’ اے ڈریم آئی لائیوڈ الون‘‘ ( A Dream I Lived Alone ) مرتب کی ہے۔ یہ کتاب آن لائن امیزون پر بھی دستیاب ہے، پرستاروں قدردانوں اور فن کے چاہنے والوں کے قابلِ مطالعہ ہے ۔
وہ ہمارے بیچ موجودنہیں ، ان کے اور ہمارے درمیان قیامت تلک کے لئے کبھی ختم نہ ہونے والا پردہ حائل ہوچکا ہے ، لیکن ان کی یادیں ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گی ، ان کی آواز نے فضاؤں کو کل بھی مسحور کیا تھا، آئندہ بھی کرے گی۔ مستقبل میں اُن کے گائے ’’دیپک ‘‘ راگ سے اُن کی یادوں کی شمع روشن ہوگی، اور ’ملہار‘ سے یادوں کی برسات۔ جب بھی ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا ذکر چھڑے گا، پدم وبھوشن غلام مصطفٰی خان کے ذکر ِخیر کے بغیر اِس کی داستان ادھوری ہی رہے گی، ہندوستانی کلاسکی موسیقی کے باب میں استاد غلام مصطفی خان مرحوم کا نام نہایت ہی عزت ، احترام ،اور وقار کے سا تھ لیا جاتا رہے گا ۔

نگاہوں سے ہماری تم ہوئے اوجھل
مگر اکثر تمہاری یاد آئے گی
٭٭٭
Email: iftikharrahmani9@gmail.com