اسرائیل نواز مارچ کو مسجد اقصیٰ جانے سے روک دیا گیا

آج پیر کے روز اسرائیلی پولیس کی جانب سے فلسطینی مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل اورسٹن گرینیڈ پھینکے گئے اور ربڑ کی گولیاں برسائی گئیں جبکہ فلسطینی مظاہرین کی جانب سے اسرائیلی فوج پر پتھراؤ کیا گیا۔

تازہ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی پولیس نے اسرائیلی شہریوں کے مارچ کو شہر کے پرانے حصے میں داخلے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اسی مارچ کے منتظمین کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ پولیس کے احکامات مانتے ہوئے یروشلم کے قدیمی علاقے میں نہیں جائیں گے لیکن ”مارچ کے شرکاء مغربی دیوار کے قریب اکٹھا ہوں گے۔‘‘
دوسری جانب حماس کی جانب سے اسرائیل کو کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر مسجد الاقصیٰ اور اس کے ارد گرد کے علاقے سے پولیس کو واپس بلائے اور حراست میں لیے گئے فلسطینوں کو رہا کرے۔
پیر کو یروشلم میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپوں کی ایک وجہ نوجوان فلسطینیوں کا رات بھر مسجد اقصیٰ کے احاطے میں رکنا بنا تاکہ وہ اسرائیلی مارچ کے شرکاء کو الاقصیٰ کے احاطے میں جانے سے روک سکیں۔ جمعے سے اب تک اس تصادم میں اب تک تقریباً چھ سو فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کی وزارت انصاف نے اتوار کے روز کہا کہ وہ اس مقدمے کی سماعت کو موخر کر رہا ہے جس کی وجہ سے مشرقی یروشلم میں آباد فلسطینی خاندانوں کو ممکنہ طور پر ان کے گھروں سے بے دخل کیے جانے کا خدشہ ہے۔ یہ اعلان یروشلم میں گزشتہ کئی روز کی جھڑپوں کے بعد کیا گیا ہے۔

اس زمینی ملکیت کے تنازعے کے سبب ہونے والے پر تشدد مظاہروں اور جھڑپوں میں سینکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے ہیں جبکہ بعض اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے بھی زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اس دوران اسرائیلی وزارت دفاع نے اتوار کے روز اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ غزہ کے علاقے سے اسرائیل میں دو راکٹ داغے گئے ہیں۔ ایک راکٹ کو اسرائیلی دفاعی نظام نے فضا میں ہی تباہ کر دیا اور اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
غزہ کے علاقے میں سرگرم اسلامی تنظیم حماس نے دھمکی دی تھی کہ اگر فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے لیے عدالتی کارروائی جاری رہی تو وہ اسرائیل پر مزید حملے کرے گی۔
اسرائیلی پولیس کے ایک ترجمان ایلی لیوی نے اتوار کے روز کہا تھا کہ پیر دس مئی کے روز ہونے والی سالانہ ‘یروشلم ڈے پریڈ’ کو منسوخ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس پریڈ میں سخت گیر نظریات کے قوم پرست یہودی حصہ لیتے ہیں اور یروشلم کے ان علاقوں سے گزرتی ہے جس کے حوالے سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔ اسرائیل کے اس فیصلے پر شدید نکتہ چینی ہوئی ہے کیونکہ اس سے کشیدگی میں مزید اضافے کا خدشہ بڑھ گیا تھا۔
یہ تقریب سنہ 1967 میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل کے مشرقی یروشلم پر قبضے کی یاد میں منائی جاتی ہے۔
جھڑپیں اور تشدد میں سینکڑوں فلسطینی زخمی
فلسطین میں ہلال احمر کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو کو بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے فلسطینی مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے اسٹن گرینیڈ اور ربر کی گولیوں کا استعمال کیا جس میں کم سے کم 90 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ محکمہ صحت کے مطابق جمعے کے روز جب سے اس تشدد کا آغاز ہوا تھا اس وقت سے اب تک 600فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔
حالیہ جھڑپوں کا تعلق یروشلم کے پرانے شہر سے ہے۔ اس علاقے پر اسرائیل اور فلسطین دونوں کا دعوی ہے۔ اس علاقے میں مسجد اقصی بھی واقع ہے اس لیے مذہبی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے یہ بہت اہم ہے۔

عالمی برادری کی تشویش
امریکا، روس، یورپی یونین، خلیجی ممالک کے بعض سفیروں سمیت اقوام متحدہ نے بھی حالیہ کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”ہم اسرائیلی حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جن سے مسلمانوں کے مقدس ماہ کے دوران میں صورتحال مزید خراب ہو جائے۔”
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ تمام رہنماؤں کی ذمہ داری ہے وہ انتہا پسندی کے خلاف کارروائی کریں اور تمام طرح کے تشدد کے خلاف بات کریں۔
تیونس کا کہنا ہے کہ اس تشدد پر بات چیت کے لیے پیر دس مئی کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا بند دروازے میں ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں اسرائیلی کارروائی اور تشدد پر بحث کا ا مکان ہے۔ امریکا نے بھی ایک بیان میں فریقین سے کشیدگی کم کرنے کو کہا ہے۔
متحدہ عرب امارت، بحرین، مراکش اور سوڈان جیسے ممالک، جنہوں نے اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات استوار کر لیے ہیں، نے بھی اسرائیلی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ادھر اردن نے مسجد اقصی میں نمازیوں پر ”جابرانہ” کارروائی بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو عبادت گزاروں کا احترام کرنا چاہیے اور اس علاقے میں بین الاقو امی قوانین کا احترام کرتے ہوئے وہ عرب برادری کے حقوق کی پاسداری کرے۔
ترکی کے صدر طیب ایردوآن نے یروشلم کے شہریوں پر اسرائیلی تشدد کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ”دہشت گرد ریاست قرار دیا۔” انہوں نے اقوام متحدہ اور اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم او آئی سی سے اس کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
اس کے علاوہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سمیت دنیا کے دیگر اسلامی ممالک نے بھی اسرائیلی کارروائیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
نیتن یاہو کا دفاع
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے فلسطینیوں کے خلاف اپنے فورسز کی کارروائی کا دفاع کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”اسرائیل یروشلم میں امن و قانون کے احترام کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ عبادت کی آزادی مہیا کرنے کے لیے ذمہ داری سے کارروائی کر رہا ہے۔”
(ڈی ڈبلیو)