اسرائیل اور حماس کی لڑائی جاری، فلسطینی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ

ویک اینڈ پر بھی حماس اور اسرائیلی فوج کے درمیان جنگ جاری رہی۔ دونوں کی جانب سے ایک دوسرے پر حملے کیے جارہے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ جب تک ضروری ہوگا حماس کو نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔
اسرائیلی اخبار، ‘دی یروشلم پوسٹ’ کے مطابق ہفتے کی شب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو  نے ایک ویڈیو خطاب میں کہا،”آگ کا جواب آگ سے دیا جائے گا۔‘‘ نیتن یاہو نے کہا کہ فوجی آپریشن تب تک جاری رہے گا جب تک اسرائیل اپنے اہداف حاصل نہیں کر لیتا اور جب تک تمام اسرائیلی شہریوں کو امن اور سلامتی حاصل نہیں ہو جاتی۔
دوسری جانب حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیلی حملوں کے باعث شکست تسلیم کرنے والے نہیں۔ دوحہ میں فلسیطین کی حمایت میں جاری ریلی کے دوران ہانیہ کا کہنا تھا کہ یروشیلم کی مسجد الاقصیٰ “ریڈ لائن” ہے، ”آج اس تنازعے کا نام، اس جنگ کا نام اور اس انتفادہ (مزاحمتی تحریک) کا نام ہے یروشلم، یروشلم، یروشلم۔‘‘
حماس اور اسرائیل کے مابین جاری جنگ کے دوران غزہ میں کئی خاندان اپنی جان بچانے کی کوشش میں محفوظ مقام تلاش کرتے رہے، دکھی والدین بمباری میں اپنے ہلاک ہونے والے بچوں کو یاد کر کے روتے رہے اور صحافیوں کو اپنے دفاتر سے اسرائیلی بمباری کی وارننگ پر جان بچانے کے لیے فوری بھاگنا پڑا۔

ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ

حماس کے زیر کنٹرول غزہ میں  حالیہ تنازعہ کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 174 ہو گئی ہے۔ ان ہلاکتوں میں 47 بچے اور 23 خواتین شامل ہیں۔ دو ملین آبادی والی غزہ پٹی میں جمعے کو ایک ہی خاندان کے دس اور ایک ہی خاندان کے چھ افراد اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہوئے۔
اسرائیل جہاں عرب اور یہودی آبادی ساتھ ساتھ رہائش پذیر ہے، وہاں اطلاعات کے مطابق پر تشدد واقعات میں دو بچوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ بچوں کے تحفظ کے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف  کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں بہت بڑے پیمانے پر تشدد کیا جا رہا ہے اور بچے اس تنازعے کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے مطابق انہوں نے اتوار کی شب حماس کے ایک ٹاپ لیڈر یحییٰ السنوار کے گھر کو نشانہ بنایا ہے۔ حماس کے اس لیڈر کا گھر غزہ کے جنوبی علاقے خان یونس میں واقع ہے۔ دوسری جانب حماس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کے اب تک بیس جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔ حماس اور اسرائیل کے مابین گزشتہ ایک ہفتے سے پرتشدد لڑائی جاری ہے۔ حماس اسرائیل کی جانب تقریبا دو ہزار سے زائد راکٹ فائر کر چکا ہے، جن میں سے زیادہ تر کو اسرائیلی دفاعی نظام نے راستے میں ہی تباہ کر دیا تھا۔ دوسری جانب اسرائیل غزہ میں سینکڑوں جان لیوا حملے کر چکا ہے۔ اس خونی تنازعے کو ختم کرنے کی بین الاقوامی کوششیں ابھی تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

امریکی صدر کی نتین یاہو اور محمود عباس سے بات چیت

غزہ پٹی میں بین الاقوامی میڈیا کے زیر استعمال ایک بلند عمارت پر اسرائیلی فضائی حملے کے بعد امریکا نے صحافیوں کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا۔ دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے، جس میں لڑائی کے خاتمے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو بائیڈن نے فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی ٹیلی فون پر رابطہ کیا، جو ان کے صدر بننے کے بعد پہلا رابطہ تھا۔ فلسطینی صدر کے ایک ترجمان کے مطابق یہ ٹیلفون کال ‘انتہائی اہم‘ تھی تاہم اس کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔
حالیہ تنازعہ شروع کیسے ہوا؟
ایک ماہ قبل اسرائیلی پولیس کی جانب سے یروشلم میں مسجد الاقصیٰ میں ایک کارروائی تنازعہ کی وجہ بنی۔ مسجد الاقصیٰ یروشلم کی ایک پہاڑی پر قائم ہے اور مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے ایک انتہائی مقدس مقام ہے۔ مشرقی یروشلم میں بھی تناؤ اس وقت بڑھا جب اس ماہ کے آغاز میں فلسطینیوں کی جانب سے ان اسرائیلیوں کے خلاف احتجاج کیا گیا جنہوں نے کچھ فلسطینی خاندانوں کو زبردستی گھروں سے نکال دیا تھا۔ گزشتہ پیر کو حماس کی جانب سے یروشلم میں راکٹ داغے گئے اور یہ پیغام دیا گیا کہ وہ فلسطینی مظاہرین کے ساتھ ہے۔ اسرائیلی نے جواب کارروائی کرتے ہوئے فضائی بمباری کا آغاز کر دیا۔
اب حالیہ پر تشدد کارروائیوں کے باعث خدشہ ہے کہ غزہ میں تیسرے انتفادہ یا فلسطینیوں کی اسرائیل کے خلاف مزاحمتی تحریک کا آغاز ہو سکتا ہے۔ پہلی تحریک سن 1987 سے 1993 تک جاری رہی جبکہ دوسری مزاحمتی تحریک یا انتفادہ کا آغاز  سن 2000 میں ہوا اور یہ قریب پانچ سال تک جاری رہی۔