ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوئی تھی مہسا امینی کی موت، عالمی طاقتوں کی جانب سے ایران کے خلاف یہ ”میڈیا وار“ کی شروعات ہے: ہندوستان میں ایرانی سپریم لیڈر کے نمائندہ حجۃ الاسلام مہدی مہدوی پور کا خصوصی انٹرویو

ایران میں حجاب کے خلاف احتجاج کے تعلق سے عالمی میڈیا کی خبروں کا مقصد ایران کو بدنام کرنا اور میڈیا وار کی شروعات ہے۔ عالمی طاقتوں نے مختلف محاذ پر ایران کو ناکام پہونچانے کی کوشش کی ہے، مختلف ذارئع سے ایران پر حملہ کیاہے، ایران کی معیشت، ایران کی حکومت اور ایران کے اسلامی نظام کو کمزور کرنے کیلئے ہر طرح کے ہتکھنڈے اپنائے گئے، معاشی پابندی لگائی گئی، معاہدہ کا خاتمہ کیاگیا جب یہ سب کرنے کے باوجود عالمی طاقتوں کو اپنے عزائم میں کامیابی نہیں مل سکی تو اب ایران کے خلاف میڈیا وار کی شروعات کی گئی ہے اور 22 سالہ ایرانی خاتون مہسا امینی کی موت کا بہانہ بناکر ایران کو عالمی سطح پر نقصان پہونچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار ملت ٹائمز کے ساتھ خاص بات چیت میں ہندوستان میں ایران کے سپریم لیڈر علامہ خامنہ ای کے نمائندہ حجۃ الاسلام مہدی مہدوی پور نے کیا۔ انہوں نے ملت ٹائمز سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ مہسا امینی کو پہلے سے ہارٹ کا مرض تھا، وہ بیمار تھیں اور پولس کسٹڈی میں اس کی موت ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوئی تھی لیکن اس خبر کو غلط طریقہ سے عالمی میڈیا نے ایران کے اسلامی نظام کو بدنام کرنے کیلئے پیش کیا اور دنیا میں یہ غلط تاثر دیا کہ ایران میں حجاب نہیں کرنے پر پولس پٹائی کرتی ہے جبکہ یہ حقیقت کے خلاف ہے۔ایران حجاب کیلئے کسی بھی خاتون کے ساتھ زور زبردستی کا معاملہ نہیں کیا جاتاہے، ایران کی راجدھانی تہران اور دوسرے شہروں میں کچھ خواتین ایسی بھی نظر آتی ہیں جو مکمل طور پر حجاب نہیں کرتی ہیں لیکن انہیں کبھی بھی اس کی وجہ سے زدو کوب نہیں کیاجاتاہے نہ پولس انہیں گرفتار کرتی ہے، دراصل ایران کا معاشرہ مکمل طور پر اسلامی ہے اور وہاں کی خواتین اپنی مرضی سے حجاب کرتی ہیں اور برقع پہنتی ہیں۔
انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مہسا امینی کی موت ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوئی تھی، لوگوں میں غصہ تھا اسلئے اس کی موت کے خلاف پہلے دن کچھ مقامی لوگوں نے پرامن مظاہرہ کیا اور احتجاج درج کرایا۔ یہ احتجاج پرامن اور غصہ کا اظہار تھا، حجاب کی ذرہ برابر اس میں کوئی مخالفت نہیں تھی لیکن عالمی طاقتوں، امریکہ اور مغربی ممالک نے اس احتجاج کی آڑ میں اپنا ایجنڈا نافذ کردیا، اپنے ایجنٹوں اور شرپسند عناصر کو احتجاج میں شامل کردیا جس کے بعد اگلے دنوں کا احتجاج پر تشدد ہوگیا۔ مظاہرین نے موت کے خلاف ہورہے احتجاج کو حجاب کے خلاف احتجاج میں تبدیل کردیا جو پہلے سے طے شدہ ایجنڈا تھا، اس کے بعد شدت پسند عناصرین نے پولس کی گاڑیوں پر فائرنگ کی، پتھراؤ کیا جس کے نتیجے میں 7 سات پولس اہلکار شہید ہوگئے، مجبوری میں پولس کو فائرنگ کرنی پڑی جس میں صرف تین الگ جگہوں پر ایرانی شہریوں کی موت ہوئی، میڈیا میں احتجاج کے دوران ہلاکت کی جو تعداد بتائی جارہی ہے وہ مکمل طور پر جھوٹ پر مبنی ہے اور حقیقت کے خلاف ہے۔ حجتہ الاسلام مہدی مہدوی پور نے مزید کہاکہ احتجاج میں ملوث عناصر کے تعلقات شرپسند اور دہشت گروپ سے تھے، کچھ عناصر پاکستان کی دہشت گرد تنظیم جیش العد ل سے تعلق رکھتے تھے جس کا ان لوگوں نے اعتراف بھی کیاہے، دہشت گرد تنظیم جیش العدل نے ایک مردہ شخص کومظاہرہ میں لاکھ رکھ دیا اور اس کے قتل کا الزام بھی ایرانی پولس پر عائد کیا جس کا اعتراف تحقیق کے دوران خود جیش العدل کے دہشت گردوں نے کیا۔
سپریم لیڈر کے نمائندہ ہندوستان حجتہ الاسلام مہدی مہدوی پور نے مزید کہاکہ ایک طرف چند خواتین کا احتجاج عالمی طاقتوں کے تعاون سے حجاب کے خلا ف تھا جس کو بہت بڑا بناکر پیش کیاگیا لیکن دوسری طرف لاکھوں خواتین نے حجاب کی حمایت میں سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا اور مختلف شہروں میں یہ مظاہر ہوا جس کی مغربی میڈیانے کوئی خبر شائع نہیں کی، حجاب کی حمایت میں ہونے والے احتجاج کی کوئی کوریج نہیں کی گئی جبکہ ایک معمولی احتجاج کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے ایران کی شبیہ خراب کرنے کام کیاگیا ہے۔عالمی میڈیا کا یہ طرزعمل بتاتاہے کہ وہ ایران کے خلاف صرف منفی پیروپیگنڈہ کرنا چاہتاہے اور اس کی دلچسپی ایران کو بدنام کرنے اور اسلامی نظام کے خلاف سازش رچنے میں ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر علامہ خامنہ ای کے نمائندہ حجة الاسلام مہدی مہدوی پور کے ساتھ ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی

حجتہ الاسلام مہدی مہدوی پور نے مزید کہاکہ فرانس میں ایک لادین حکومت ہے جہاں مذہب پر عمل کرنا ممنوع سمجھاتاجاہے، وہاں حجاب پر پابندی ہے، حجاب اختیار کرنے پر سزا دی جاتی ہے، خواتین کو معاوضہ دینا پڑتاہے، سینکڑوں خواتین کو محض حجاب استعمال کرنے کی وجہ سے ملازمت سے نکال دیاگیا لیکن اس ظلم وزیادتی کو کبھی بھی عالمی میڈیا نے نہیں بتایا، جس دن ایران میں مہسا امینی کا قتل ہواتھا اس کے اگلے روزہ ہی امریکی فوج نے عراق میں ایک معصوم بچہ کا بہیمانہ قتل کردیا لیکن کسی نے اس پر سوال قائم نہیں کیا، کسی نے بھی امریکہ کی بربریت پر اعتراض نہیں، ابھی ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے کابل میں ایک مدرسہ میں خود کش حملہ ہوا جس میں دو سو سے زیادہ طالبان علوم نبوت ہلاک ہوگئے، اس واقعہ کی کسی نے مذمت نہیں کی، کسی نے اس پر سوال نہیں اٹھایا عالمی میڈیا نے اس پر کوئی خبر شائع نہیں کی، دنیا کے مختلف ملکوں میں مسلمانوں کا قتل کیا جارہاہے، ان پر بربریت کی جارہی ہے لیکن عالمی میڈیا خاموش رہتی ہے دوسری طرف ایران میں ایک خاتون کی مرض سے ہونے والی موت پر اتنا بڑا ہنگامہ کردیاگیاہے جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ مغربی ممالک اب ایران کے خلاف میڈیا وار کی شروعات کررہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے ایران میں ہر شعبہ میں خواتین نے بے پناہ ترقی حاصل کی ہے۔ ایرانی خواتین کو اتنی ترقی پہلے کبھی نہیں ملی، ایران میں ہر شعبہ میں خواتین کی بھر پور نمائندگی ہے، اعلی عہدوں سے لیکر چھوٹے کام، ہر جگہ وہاں خواتین نظر آتی ہیں اور پردہ کے ساتھ خواتین کام کرتی ہیں۔ میڈیا، میڈیکل، ایجوکیشن، پولس، انتظامیہ، عدلیہ سمیت تمام شعبوں میں خواتین موجود ہیں بلکہ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ فعال ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اسپورٹس میں بھی خواتین حصہ لیتی ہیں، خواتین اسپورٹس کی ٹیم بھی ہے، ان کیلئے علاحدہ اسٹیڈیم بنے ہوئے ہیں، ہر طرح کی سہولیات موجودہے، ایران میں خواتین کبڈی ٹیم بھی ہے جس نے عالمی مقابلہ میں کچھ دنوں قبل ہندوستان کی کبڈی ٹیم کو شکست سے دوچار کیاہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ایران میں مکمل طور پر جمہوریت ہے،سرکار کی پالیسی اور دیگر معاملوں میں حزب اختلاف اور اپوزیشن پارٹیوں کو اختلاف، تنقید اور احتجاج کا مکمل حق حاصل ہے، عوام کو کبھی بھی احتجاج، تنقید اور اعتراض سے نہیں روکاگیا ہے، مہسا امینی کے معاملہ میں بھی شروع میں جوا احتجاج ہواتھا وہ پرامن اور عالمی سازش سے پا ک تھا لیکن مغربی ممالک کے ایجنٹوں نے اس کا فائدہ اٹھاکر اگلے دن ہی ایران کے خلاف سازش شروع کردیا اور اس کو میڈیاوار میں تبدیل کردیا، مہساامینی ایک کرد خاتون تھیں اس لئے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فارس اور کرد قوم کے درمیان بھی لڑائی کرانے یک کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہیں ملی، حجاب کی حمایت میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے اور پھر یہ احتجاج ختم ہوگیا، اب ایران میں کوئی احتجاج نہیں ہورہاہے، ہر طرف سکون ہے۔بارہ ربیع الاول کی مناسبت سے ایران میں بین الاقوامی وحدت اجتماع کا اجلاس بھی شروع ہوگیاہے جس میں دنیا بھر کے ممالک سے 500 اسکالرس اور علماء شرکت کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ہندوستان کی میڈیا میں بھی ایران کے تعلق سے زیادہ تر خبریں عالمی میڈیا کے منفی پیروپیگنڈہ کے زیر اثر دکھائی جاتی ہیں، ایران کی اصل تصویر اور حقیقت پر مبنی خبریں یہاں کی میڈیا نشر نہیں کرتی ہے جو ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔
(نو ٹ: ہندوستان میں ایران کے سپریم لیڈر علامہ خامنہ ای کے نمائندہ حجۃ الاسلام مہدی مہدوی پور کے ساتھ ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے 12 اکتوبر 2022کو ایران کلچر ہاؤس میں یہ انٹرو لیا، ترجمانی کا فریضہ ڈاکٹر ضابط رضا حیدر نے انجام دیا)