کب ختم ہوگی مجبور بن کر ووٹ ڈالنے کی یہ روایت؟

پس آئینہ : شمس تبریز قاسمی
اترپردیش اسمبلی انتخابات کے دن بہت قریب آچکے ہیں ۔11 فروری سے 8 مارچ تک سات مرحلوں میں انتخاب ہونا طے ہے اور 11 مارچ کو یوپی سمیت دیگر چارریاستوں کے نتائج سامنے آجائیں گے جن میں سے دو میں ووٹنگ ہوچکی ہے اور دو میں باقی ہے ،سال رواں یوپی میں ساڑھے چودہ کڑورلوگ ووٹ ڈالیں گے جس میں آٹھ کڑور مرد اور چھ کڑور خواتین شامل ہیں۔ اس انتخاب میں20 فیصد مسلمانوں کاووٹ بھی شامل ہے جبکہ 40 فیصد اوبی سی ،21 فیصد دلت اور 22 فیصد بڑی ذ اتوں سے تعلق رکھنے والی عوام ہے ۔رواں الیکشن میں تین فرنٹ سرفہرست ہے ،سماج وادی ۔کانگریس اتحاد ،بہوجن سماج وادی پارٹی اوربھارتیہ جنتا پارٹی ۔اس کے علاوہ مجلس اتحاد المسلین بھی گیارہ سیٹوں پر انتخاب لڑرہی ہے جن کے دویاتین نمائندوں کے جیتنے کی توقع ہے ، مغربی یوپی میں راشٹریہ لوک دل بھی اچھا خاص اثر ورسوخ رکھتی ہے ،بی جے پی کا اپناایک مخصوص ووٹ بینک ہے جسے کسی بھی حالت میں کسی طرف منتقل نہیں کیا جاسکتاہے ۔ایک جرنلسٹ کے بقول برہمن ٹھاکر اور بھونمیہار وغیرہ مرتے وقت اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرجاتے ہیں کہ’’ بیٹا ماں کا خیال رکھنا، کام پر توجہ دینا اور بی جے پی کو ووٹ دینا‘‘ ۔دوسری طرف ایس پی ۔ کانگریس اتحاد اور بہوجن سماج وادی پارٹی ہے ۔دونوں کو جیت کیلئے مسلم ووٹ درکار ہیں اور مسلمان بھی پش وپیش کے شکار ہیں ۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق اتر پردیش میں عام مسلمانوں کا رجحان مایاوتی کی جانب تھا اور تقریبا 70 فیصد سے زائد امکانات اس کی جیت کے تھے لیکن ایس پی ۔کانگریس اتحاد کے بعد پوراگیم تبدیل ہوگیا ہے اور مسلمانوں کا رجحان اب اسی اتحاد کی جانب ہے ۔جمعیۃ علماء ہند اور جماعت اسلامی سمیت کئی بڑی تنظیموں نے بھی اشارتا اسی اتحاد کو ووٹ دینے کی اپیل کی ہے ۔دوسری طرف مولانا کلب جواد سمیت بہت سے مسلم رہنماء ماویاتی کے ساتھ ہیں اور انہیں ووٹ دینے کی اپیل کررہے ہیں ۔ماویاتی کی بھی پوری توجہ مسلم ووٹوں کی جانب ہے ،یہ پہلا موقع ہے جب انہوں نے99 مسلم امید وارکھڑے کئے ہیں اور وہ مسلسل دلت ۔مسلم اتحاد کی باتیں کررہی ہیں۔جبکہ دوسری طرف اکھلیش کے ایجنڈے میں مسلمانوں کو زیادہ فوکس نہیں کیا جارہاہے اور نہ اکھلیش پہلے کی طرح مسلم ایشوز پر کوئی خاص بات کررہے ہیں تاہم دو نوجوان لیڈر راہل گاندھی اور اکھلیش یادومسلمان سمیت نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں لگے ہیں اور 2012 کے منی فیسٹو میں شامل مسلمانوں سے کے گئے جو وعدے اب تک پورے نہیں ہوسکے ہیں اس کو عملی جامہ پہنانے کی پیشکش کررہے ہیں۔
ایس پی اور بی ایس پی میں کوئی فرق نہیں ہے اگر یہ کہاجاسکتاہے کہ بی ایس پی سپریمومایا وتی کب بی جے پی سے ہاتھ ملالے اور اقتدار کی خاطر کچھ بھی کر گزرے تو یہ باتیں ایس پی کیلئے بھی کہی جاسکتی ہے ۔مرکز میں بی جے پی کو ایس پی کی حمایت ملتی رہتی ہے، اکثر مواقع پر ایس پی نے بی جے پی کا ساتھ دیاہے ، اکھلیش کی جانب سے دیاگیا مظفر نگر کا زخم ابھی بھی تازہ ہے اس کے علاوہ چار سو چھوٹے بڑے فسادات ہوئے ہیں،کانگریس کے دور اقتدارمیں ہونے والا ہاشم پورہ کے مسلمانوں کا قتل عام ذہن ودماغ سے محو نہیں ہوا ہے بھلے ہی عدالت سے تمام مجرمین رہاکردیئے گئے ہوں ۔ان سب کے باوجودمسلمانوں کے پاس یہی دومتبادل ہیں ۔ بی ایس پی اور ایس پی۔ کانگریس اتحاد۔ دونوں فرنٹ کی پوری توجہ مسلم ووٹ کے حصول پر ہے ، انہیں یقین ہے کہ جب تک مسلم ووٹ نہیں ملیں گے اقتدار تک پہونچنا ناممکن ہے۔ اس لئے مسلم قائدین اور رہنماؤں کیلئے یہ بہتر موقع ہے کہ وہ کسی ایک کے سامنے اپنے مسائل رکھیں ،اپنا ایجنڈا پیش کریں اور صاف لفظوں میں یہ بات کریں کہ اگر ہمارے مسائل حل کئے جائیں گے،مسلمانوں کو اقتدار میں شریک کیا جائے گا تو ہم ووٹ دیں گے۔ ماویاوتی اور اکھلیش دونوں سے بات کی جاسکتی ہے جہاں مسائل کے حل کا وعدہ کیا جاتاہے اس کی حمایت ہونی چاہئے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ دیگر کئی انتخابات کی طرح اتر پردیش میں بھی مسلمان ساری توانائی کسی کو جتانے پر صرف کرنے کے بجائے بی جے پی کو ہرانے پر کررہے ہیں ،ان کی فکرمندی کسی کو فاتح بنانے کے بجائے کسی کوشکت سے دوچار کرنے کی ہے ،حالاں کہ اس وقت کے حالات ایسے نہیں ہیں،2015 کے بہار اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کے پاس صرف دوراستے تھے ۔ایک طرف بی جے پی تھی اور دوسری طرف عظیم اتحاد تھا اس لئے یکطرفہ ووٹ عظیم اتحاد کو دیا گیا لیکن یہاں تین مورچے ہیں اور مسلمانوں کے پاس دو متبادل ہیں وہ کسی کو بھی اپنی شرطوں کے مطابق منصب اقتدار پر فائز کرسکتے ہیں اور انتخاب میں کسی کا ساتھ وہ کسی کو جتانے کیلئے بآسانی دے سکتے ہیں۔
حالات وقرائن ایسے بتارہے ہیں ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کو 2014 کے لوک سبھا انتخاب کے نتائج جیسے ماحول کا سامناکرنا پڑے گا ،ایسی بیشتر سیٹوں پر سیکولر پارٹیوں کے نمائندے شکست سے دوچار ہوسکتے ہیں جو مسلم اکثریتی حلقے مانے جاتے ہیں،یوپی میں تقریبا 78 سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد 30 فیصد سے زائد ہے اور کسی کی جیت وہار میں مسلم ووٹ کا کلیدی کردار ہوتاہے،گذشتہ اسمبلی انتخابات میں 26 سیٹو ں پر مسلم نمائندوں کی شکست ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ہوئی تھی۔2012 کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کا ساٹھ فیصد ووٹ تنہا سماج وادی پارٹی کو گیاتھا اور اسی ووٹ کے سہارے اکثریت کے ساتھ ایس پی اقتدار میں آئی تھی،2017 کے اسمبلی انتخابات میں پھر ساری توجہ مسلم ووٹ کے حصول پر ہے ،دوسری طرف مایاوتی بھی مسلم ووٹ کے سہارے وزیر اعلی کی کرسی تک رسائی حاصل کرنے کی تگ وود کررہی ہیں، اویسی صاحب بھی ماویاتی کی مخالفت میں کچھ نہ بول کر بی ایس پی کے تئیں نرم گوشہ رکھنے کا تاثر دے رہے ہیں اور یہ امکان ظاہر کیا جارہاہے کہ بی ایس پی ایم آئی ایم سمیت دیگر چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے سہارے حکومت سازی کی کو شش کرے گی۔
بہر حال اتر پردیش کے دونوں نمایاں چہرے مسلم ووٹوں کے محتاج ہیں اب یہ فیصلہ مسلمانوں کو کرنا ہے کہ وہ دوسروں کواپنے سامنے مجبور دیکھنا چاہتے ہیں یا بی جے پی کو ہرانے کی خاطر خود مجبور ہونا چاہتے ہیں،یہ بات ذہن میں رہنی چاہیئے کہ اگر ہم کو کسی کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں ہمیں یقینی طور پر احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، ہماری قربانیوں کو یاد رکھا جائے گا ،ہمارے مطالبات تسلیم کئے جائیں گے اور اگرہم کسی کو ہرانے کیلئے کسی کا ساتھ دیتے ہیں اور یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار سے دورکھنے کیلئے مسلمان متحدہوکر ووٹ دیں، بی جے پی کو حکومت میں نہ آنے دینے کا عزم مصمم کریں تو پھرہماری کوئی قدروقیمت نہیں ہوگی ، ہماری جدوجہد ہماری مجبوری اور بے بسی سمجھی جائے گی ، ہماری سیاسی حیثیت ایک مرتبہ پھر بے اثر ثابت ہوگی۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com