نائب ولی عہد امریکہ کیلئے روانہ ،ٹرمپ سے ملاقات اور اقتصادی امور پر بات چیت اہم ایجنڈا

ریاض(ملت ٹائمز؍ایجنسیاں
سعودی عرب کے بہت بااثر سمجھے جانے والے نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکا روانہ ہو گئے ہیں۔ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے ان سے ملاقات کرنے والے اعلیٰ ترین سعودی رہنما ہوں گے۔سعودی دارالحکومت ریاض سے پیر تیرہ مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ملک میں اقتصادی اصلاحات کے ایک بڑے منصوبے کے تحت سعودی عرب میں زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی کوششیں کر رہے ہیں اور وہ آج پیر کے روز امریکا روانہ تو ہو گئے ہیں تاہم ان کا یہ دورہ سرکاری طور پر جمعرات سولہ مارچ سے شروع ہو گا۔سعودی پریس ایجنسی ایس پی اے نے لکھا ہے کہ اس دورے کے دوران ملکی نائب ولی عہد کی کوشش ہو گی کہ امریکی رہنماؤں سے ان کی بات چیت کے دوران توجہ دوطرفہ روابط کو مزید بہتر بنانے اور علاقائی معاملات سے متعلق مشترکہ مفادات پر مرکوز رہے۔شہزادہ محمد بن سلمان نائب ولی عہد ہونے کے علاوہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے بیٹے اور ملکی وزیر دفاع بھی ہیں تاہم سعودی عرب کی اس تیسری اہم ترین شخصیت کی توجہ زیادہ تر اقتصادی امور پر مرکوز رہتی ہے۔اسی سعودی شہزادے نے گزشتہ برس ’وژن 2030ء‘ کے نام سے وسیع تر سماجی اور اقتصادی اصلاحات کے اس پروگرام کی ابتدا کی تھی، جس کے تحت اس خلیجی ریاست کی اب تک تیل کی برآمد پر انحصار کرنے والی معیشت میں تنوع پیدا کیا جانا ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ واشنگٹن اور ریاض کے باہمی تعلقات عشروں پرانے ہیں، جن کی بنیاد سعودی تیل کے بدلے اس ریاست کو مہیا کی جانے والی قومی سلامتی کی امریکی ضمانتوں پر ہے۔ تاہم ان روابط میں سابق امریکی صدر باراک اوباما کے آٹھ سالہ دور صدارت میں وہ گرمجوشی دیکھنے میں نہیں آئی تھی، جو اس سے پہلے تک پائی جاتی تھی۔
اس کا ایک اہم سبب سعودی حکمرانوں میں پایا جانے والا یہ احساس بھی تھا کہ باراک اوباما امریکا کے شام کی جنگ میں شامل ہونے سے ہچکچاتے رہے تھے اور ان کا جھکاؤ کسی حد تک سعودی عرب کے علاقائی حریف ملک ایران کی طرف تھا، جس کے ساتھ واشنگٹن نے اوباما کے دور صدارت میں تہران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام سے متعلق معاہدہ بھی کر لیا تھا۔اسی تناظر میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر اس امید کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکا خلیج فارس کے علاقائی معاملات، خاص طور پر ایرانی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے سلسلے میں اپنی زیادہ عملی شمولیت کا مظاہرہ کرے گا۔
شہزادہ محمد بن سلمان دورہء امریکا پر ایک ایسے وقت پر روانہ ہوئے ہیں جب ان کے 81 سالہ والد شاہ سلمان تقریباایک مہینے کے کئیایشیائی ملکوں کے اس دورے پر ہیں، جس دوران مختلف ملکوں سے اقتصادی روابط بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔
اسی دوران اے ایف پی نے یہ بھی لکھا ہے کہ سعودی عرب کے 56 سالہ ولی عہد اور ملکی وزیر داخلہ شہزادہ محمد بن نائف کے بجائے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کا امریکا کے دورے پر جانا کسی حد تک یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ سعودی تخت کے مستقبل کے ان دونوں وارثوں کے مابین رقابت بھی پائی جاتی ہے۔