یہ مودی لہر نہیں ، فسطائیت بہ نام سیکولرزم کی جیت ہے

سچ بول دوں۔میم ضاد فضلی
یو پی میں اسمبلی انتخابات کے سنسنی خیز نتا ئج نے فاشزم کو سمجھنے اور اس بیماری کے علاج کی مناسب اور مؤثر دوا ڈھونڈنی اب بے حد ضروری کردیا ہے۔نوٹ بند ی سے کراہ رہے عوام اور تھوک کے بھاؤ میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے جاں بہ لب غریب ہندوستا نیوں کو انہیں درپیش مسائل سے گمراہ کرکے انتہا پسندی اور نام نہاد مذہبی عقیدت کوبھڑ کا کر آخر کس طرح فاشزم نے اپنی طرف کھینچ لیا۔یہ سوال اب اور بھی زیادہ سنجیدہ اوراہم ہو گیا ہے۔ اب جبکہ اترپردیش اور سیاحتی ریاست اتراکھنڈ میں بھگوا پرچم لہرا یا چکا ہے تو ہمارے لئے یہ ضروری اور قومی فریضہ ہوگیا ہے کہ ہم فاشزم کی گتھی کو سلجھانے کے جتن کریں اورسادہ لوح عوام کوسمجھائیں کہ انہیں دھرم کے نام پر بلیک میل کر کے فاشسٹ طاقتیں اپنا الو سیدھا کرر ہی ہیں ’دھرم کے سیاسی استعمال سے ان کا جذباتی استحصا کیا جاتا ہے اور اس طرح ایک شاطر سیاستداں عوام الناس کواصل مدعوں اور مسائل سے بھٹکا دیتا ہے،فسطائی طاقتوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ مذہبی عقیدت میں اندھی بن چکی قوم کے مذہبی جذبات کومعمولی سابھڑکا کرہی بازی ماری جاسکتی ہے۔اب آ ئیے! اس پہلو پر کہ یہ فاشزم کیا ہے اور وہ کس طرح عوام کے حقوق کی پامالی بھی کرتا ہے اورسادہ لوح عوام کے سینوں میں دھرم کی آگ کے شعلوں کو ہوا دیکر بآسانی اپنی سیاسی روٹی سینکتارہتا ہے۔اس موضوع پر ایک امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں الائیڈ کمیکلز، موبل اور زیروکس کارپوریشن سے وابستہ رہ چکے لارنس برٹ نے اپنے ایک ناول میں فاشزم کی عام فہم اور سٹک وضا حت پیش کرکے دنیا بھرمیں مذہبی جذبات کی فصل کاٹنے والوں کے چہرے سے نقاب اتار نے کی بھرپور سعی کی ہے۔فسطائیت یا فاشزم کے پس منظر میں سنہ 1998 میں ان کا سیاسی ناول ’جون 2004‘ کے نام سے شائع ہوا۔اس ناول کی روشنی میں کسی بھی سماج یا ریاست میں فاشزم کی مقدار ناپنے کی نشانیوں کو سنہ 2003 میں نیویارک سے نکلنے والے انٹرنیٹ میگزین ’دی فری انکوائری‘ نے ایک خلاصے کی شکل دی تھی۔ اس خلاصے کا انٹرنیٹ پر بارہا تذکرہ اور اس پر تنقیدی بحث سامنے آتی رہتی ہے۔آج کل پھر فاشزم کی یہی تعبیر انٹرنیٹ پر تیر تی نظر آ رہی ہے۔اس کے مطابق فسطائی نظام حب الوطنی کو اندھی قوم پرستی کی شکل دینے کے لیے پرچموں، قومی نغموں، نعروں اور ملبوسات کا بے تحاشا استعمال کرتا ہے تاکہ لوگوں کو صرف ایک ہی بیانیے اور آواز کی جانب رکھ کے ان کا لہو مسلسل گرم رکھا جا سکے۔دیدہ و نادیدہ دشمنوں کے خوف اور’ قومی سلامتی خطرے میں ہے‘ کا پرچار مسلسل ہوتا ہے، تاکہ عوام کو ریاستی تحفظ اور حب الوطنی کے نام پر بنیادی انسانی حقوق سے دستبرداری پر آمادہ کیا جا سکے اور لوگ اذیت رسانی، نا انصافی سرسری سزاؤں، قتل اور قید کے وسیع استعمال کو ایک معمول کا عمل سمجھ کر نظرانداز کر سکیں۔فاشزم ایک مشترکہ دشمن یا قربانی کے کمزور بکرے پر فوکس کرتا ہے، تاکہ لوگ قومی دیوانگی سے سرشار ہو کر مسلسل کنفیوز اور مشکوک رہیں۔ یہ مشترکہ دشمن کوئی نسلی، علاقائی یا مذہبی اقلیت، لبرل، کیمونسٹ، متبادل سماجی و مذہبی بیانیہ، حزبِ اختلاف یا غیر ملکی سازشوں سمیت کوئی بھی اور کچھ بھی ہو سکتا ہے۔فسطائیت کو استحکام بخشنے کیلئے عسکریت پسند رجحان اور عسکری اداروں کی کارکردگی اور کردار کو خصوصی طور پر ابھارا جاتا ہے، تاکہ قومی وسائل کا ایک بڑا حصہ ان کے لیے وقف رہے اور وہ فسطائی نظام کی شان و شوکت اور ہیبت کا مظہر بنے رہیں۔ یوں عام لوگوں کے لیے دیگر بنیادی موضوعات و مسائل کی حیثیت ثانوی یا غیر اہم رہ جاتی ہے۔چونکہ یوپی میں سماجوادی پارٹی نے ترقیاتی کاموں کی جھڑی لگا دی تھی اور مذ ہب کا چولا پہن کر عوام کو گمراہ کرنے کی بجائے انہوں نے ترقی کو اپنا اصل انتخابی مدعا بنایا تھا ۔مگر ملک کے کم فہم لوگوں کی نفسیات سے اچھی طرح واقف فسطائی طاقتوں نے ساری ترقی کومذہبی عقیدت کی آگ میں جھونک دیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ تین برسوں سے مسلسل ’’جملے بازی ‘‘ کرنے والی جماعت اور اس کے نمائند�ۂ خصوصی نے ایک بار پھر عوام کو ان کے بنیادی حقوق اور مسائل سے دوررکھنے میں کامیابی حاصل کرلی اور اس طرح اتر پردیش میں دھرم کی آنچ پرسیکولرزم کے ٹکے ،کباب اور پراٹھے سینک سینک کر کھائے گئے۔اس میں شبہ نہیں کہ عوامی جمہوریہ میں اتار چڑھاؤ معمول کا حصہ ہیں ۔مگر کئی برسوں کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد بھی سادہ لوح عوام نے مذہب کی بناوٹی شعبدہ بازی پر فریفتہ ہوکر اپنے بنیادی حقوق اوراہم ترین سماجی و ذاتی مسائل کو کبھی بھی مڑکر دیکھنے کی زحمت نہیں کی اور پرو پیگنڈ ے کی بنیاد پر اپنا مقدر اس طاقت کے سپرد کر آ ئے جس نے پورے ملک کو نظر انداز کرکے محض چند لوگو ں اور کارپوریٹ گھرانوں کی صلاح وفلاح کو ہی ساریہندوستان کی ترقی باور کرلیا ہے۔چونکہ ہم جس معاشرے کا فرد ہیں اس نے سیاست میں ’’پاکھنڈیوں‘‘ کے فریب کو برابر اور قریب کی نظروں سے دیکھا ہے ۔ہندوستانی سیاست میں آئے دن بھونچال آتے رہتے ہیں، جس کے باعث عوام الناس کو درست فیصلے لینے کی اخلاقی تربیت نہیں ہوپاتی۔ ملک کی جن پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا ہے، اس میں اگر عوام کے راست فیصلے کے بارے میں بحث چھیڑی جائے تو مختلف عنوانات کا آتش فشاں پھٹ پڑے گا۔ اترپردیش میں بی جے پی کی کامیابی کو مودی کی لہر قرار دینے والے شاید یہ بھول گئے کہ پنجاب میں یہ لہر بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ یہاں کسی لیڈر کی لہر کی بات نہیں ہے، بلکہ مخالف حکمرانی جذبات نے کام کر دکھایا ہے۔اور اسی مخالفت کو کیش کرانے میں فسطائی طاقتوں نے ساری توانائیصرف کی اورآ سا نی کے ساتھ بازی مارلی۔دریں اثنا فسطائیت کی زہریلی فصل کو کھادپانی دیکر مضبوط کرنے اور تن آور درخت بنانے میں سیکولرزم کے کچھ نام نہادفنکاروں نے بھی تاریخی کردار اداکئے ہیں،جسے شاید ملک کی تاریخ ہمیشہ کیلئے اپنے صفحات پر محفوظ کرلے اور جب کبھی فاشزم کے توے پرجمہوریت کے سیخ کباب اور ٹکے سینکنے والوں کا ذکر آ ئے گا تو وہ پورا صحیفہ ان کے تذکرے کے بغیر دم بریدہ تصور کیا جائے گا۔ہاں! مجھے کہہ لینے دیجئے کہ بی ایس پی سپریمومایا وتی کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ ان کا دلت کیڈر برہمنی سازش کے دام تزویرمیں بری طرح الجھ چکا ہے،جس سے گلوخلاصی ان کیلئے ممکن نہیں ہے،لہذا انہوں نے عمداًمسلم کارڈاچھال دیا، تاکہ فسطائی طاقتوں کو پولرائزیشن کا غنیمت موقع فراہم ہوجائے۔پوری انتخابی مہم کے دوران ما یا وتی مسلم مسلم کی مالا جپتی رہیں اور جس دلت سیاست کی بیساکھی پر سوار ہوکر کئی مرتبہ اقتدار کے مزے لوٹے تھے ،اس بار اس دلت کیڈر کی یا د انہیں کہیں بھی نہیںآ ئی ۔یوپی میں سیکولرزم کی پسپائی کواس منظم منصوبہ بندی کا نتیجہ ہی کہا جاسکتا ہے۔مایا مسلم مسلم کی گردان کرتی رہیں اور نہایت مستعدی اور خاموشی کے ساتھ سنگھی پرچارکوں نے ایک ایک فرد کے کان تک یہ پیغام پہنچا یا کہ اب مایا وتی کو بھی صرف مسلما نوں کی منفعت عزیز ہے۔ ایسے میں اگر تم نے بی جے پی سے رشتہ توڑ لیا تو کہیں کے بھی نہیں رہوگے۔کچھ صاحبان جبہ و دستار اور کچھ ائمہ بھی اس سازش کی جڑمیں اپنی عنایات کے آنسو ڈال کر فاشزم کے پودھے کو توانائی دینے کی تاریخ رقم کرتے رہے۔چناں چہ نام نہاد ملی دکانداروں کے چکلوں سے متعدد مرتبہ اس قسم کی اپیلیں اخبارات کی زینت بنتی رہیں کہ مایا وتی نے چونکہ زیادہ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں،لہذا آپ کا فرض ہے کہ آپ علاقائی صورت حال ،سیا سی اٹھا پٹک اور نزاکتوں سے لاپروا ہوکربھیڑ کے ریوڑ کی طرح بہن جی کے پرفریب آنچل میں خود کو ڈھانک لیں۔یہ بکے ہوئے ضمیر اور جبہ و دستار کی قوم دشمن اپیلیں سرٹیفکیٹ کی شکل میں فسطائیوں کے کام آ ئیں۔ انہوں نے منظم طریقے سے ’’میاں اور مایا ‘‘ کی کارستا نیوں کو دلتوں کے گھروں تک ثبوت کے طور پرپہنچا یا اور انہیں اس بات کا قائل کرانے میں فتح مندہوئے کہ مایا وتی مسلمانوں کے ساتھ مل کر تمہارا ’’گیم بجانے ‘‘کی سازش مرتب کررہی ہیں ۔ حالاں کہ اس وقت یوپی کے حالات کا تقاضہ یہ تھا کہ یہاں بھی کیجریوال جیساکوئی نیتا ہوتاجو عام آدمی پارٹی کی روش پر چلتے انہیں منہ کی کھانے پر مجبور کردیتا۔مجھے یاد پڑتاہے کہ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں دہلی کے ووٹروں کو گمراہ ہونے سے بچانے کیلئے ایک امام صاحب کی پیش کش ’’آپ‘‘نے پایہ حقارت سے ٹھکرادی تھی کہ ہمیں کسی مذہب کا لیبل لگا کرچکلے نہیں چلانے ہیں۔آپ تشریف لے جائیے ،آپ کا شکریہ، ہمیں آپ کی پیشکش سے فسطائی قوتوں کے خونیں آستینوں کی بوٗ آ رہی ہے۔ہمیں ایسی پیش کش کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ اب تک ملک کی سیاست میں سرایت کر گئی فاشزم کو زیر کرنے کیلئے مصلحت یہ تھی کہ اپنی زبانوں پر ملت کی مظلومیت کے تمام زخم سموکر ہونٹ سی لئے جاتے۔ مگر اس کا کیا کیاجائے کہ نظام فطرت یہی کہ جب بھی امت مسلمہ فطرت سے بغاوت کی راہ پر مست خرام دوڑنے کی غلطی کرتی ہے ، اسی وقت کائنات کا خالق خلیفۃ اللہ فی الارض کی بے راہ روی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ظالم کو ہمارے سروں پر مسلط کردیتا ہے۔جن سیٹوں پر چند سو یا چند ہزار ووٹوں سے سیکولر اتحاد کوشکست ملی ہے وہاں اپنی قیادت کا ڈھول پیٹنے والے سنپولیوں نے جانے یا انجانے میں بی جے پی کی حمایت ہی کی ہے، چونکہ ہم ان کی نیتوں پر شک کرنے کا حق نہیں رکھتے، لہذا ان کے ساتھ انصاف کرنے والی ذات ہمیشہ مستعد ،حی ،قیوم ہے ،جسے نیند تو دور اونگھ بھی نہیں آ تی ہے۔مخصوص نظریہ کے اردواخبار میں لاکھوں روپے کے اشتہار دیکر اس کی ادئیگی جس کے ہاتھوں سے کرائی گئی اسے اپنی مخلوق سے بے پناہ محبت کرنے والا رب دیکھ رہا ہے۔ڈاکٹر ایوب ہوں یا اسدالدین اویسی انہیں یہ فراموش نہیں کرنا چا ہئے کہ ان کی جذباتی تقریروں سے مظلوم ملت کا کچھ بھلا نہیں ہوتا ،بلکہ اس کے برعکس فسطا ئی طاقتوں کی صفوں کوتوانا ئی فراہم ہوتی ہے۔
ہمارا بس اتنا ہی کام ہے کہ ہم اب اس رب کی طرف رجوع ہوجائیں جس کے قبضہ قدرت میں ساری کائنات کا نظام ہے۔اورسی کی بارگاہ میں یہ گریہ وزاری پیش کریں کہ ؂۔۔۔۔
بے کسوں کی تونے کی اگر دلجوئی نہیں
صاف کہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں

SHARE