اسلام آباد(ملت ٹائمز)
عالمی ادارے انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے میانمار میں ہورہی مسلم نسل کشی کیلئے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہاہے وہاں جو کچھ بھی ہورہاہے اس کا تعلق کسی حدتک پاکستان سے ہے ۔
روزنامہ پاکستان نے رائٹر کے حوالے سے لکھاہے کہ انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ جن روہنگیا مسلمانوں نے گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں برمی سرحدی محافظوں پر حملہ کیا ان کی سربراہی ایسے لوگ کررہے تھے جن کے سعودی عرب اور پاکستان سے روابط ہیں۔ یہ حملہ 9 اکتوبر کے روز شمال مغربی ریاست رخائن میں کیا گیا تھا، اور اس کے بعد سکیورٹی فورسز نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف اس خونی آپریشن کا آغاز کیا تھا جو تاحال جاری ہے۔ اس آپریشن کے دوران ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا جاچکا ہے جبکہ لاکھوں اپنے گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش کی جانب ہجرت پر مجبور ہوگئے ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں برمی سکیورٹی فورسز پر کئے جانے والے حملے کی ذمہ داری ’حرکت الیقین‘ نامی گروپ نے قبول کی تھی، جس کے دو ارکان سے رخائن میں اور دیگر سے میانمر سے باہر بات چیت کی گئی ہے۔ مبینہ بات چیت کی بنائ پر بتایا گیا ہے کہ حرکت الیقین کی بنیاد 2012ئ میں ہونے والے فسادات کے بعد رکھی گئی، جن میں 100 سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا گیا تھا جبکہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب بے گھر ہوگئے تھے۔
گروپ کے نامعلوم ارکان کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں عسکری کارروائیوں میں ملوث رہنے والے روہنگیا مسلمانوں نے میانمر جا کر مقامی روہنگیا مسلمانوں کو ٹریننگ دی، جس میں ہتھیاروں کا استعمال، گوریلا حکمت عملی اور دھماکہ خیز مواد کی تیاری اور استعمال کی تربیت بھی شامل تھی۔ حرکت الیقین کے رہنما کا نام عطائ اللہ بتایا گیا ہے، جو مبینہ طور پر کراچی میں پیدا ہوا اور بعد ازاں سعودی عرب چلا گیا، اور یہ کہ اس کے والدین روہنگیا پناہ گزین تھے جو کچھ دہائیاں قبل میانمر میں ہونے والے فسادات کی وجہ سے پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کا دعوٰی ہے کہ عطائ اللہ نے سعودی عرب سے ہی ریاست رخائن میں جاری اپنے گروپ کی سرگرمیوں پر نظر رکھی۔ گروپ نے یہ تمام دعوے کرنے کے بعد ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ یہ معلومات مصدقہ نہیں ہیں، جبکہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی نے بھی اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ امریکی حکام کے علم میں ہے، لیکن انہوں نے اس پر مزید گفتگو کرنے سے معذرت کی۔