شیر میسور کے دیار میں (چوتھی قسط)

شمس تبریز قاسمی

میسور کی یہی وہ خصوصیات ہیں جس کی بنیاد پر وہاں سب سے زیادہ زائرین جاتے ہیں، دنیا بھر کے لوگ وہاں پہونچتے ہیں، اس چھوٹے سے شہر کی آمدنی کا بڑا ذریعہ بھی سیاحت ہے۔ اس تاریخی شہر میں قدم رکھنے اور حضرت ٹیپو سلطان شہید رحمۃ اللہ کی قبر پر حاضری میری بھی دیرینہ خواہش تھی، بارہا جانے کی چاہت ہوئی لیکن کوئی موقع نہیں مل پارہا تھا، کئی دوستوں اور بزرگوں نے اصرار کے ساتھ کہاکہ اس خطے میں جب بھی جانے کا موقع ملے حضرت ٹیپو سلطان شہید رحمۃ اللہ کی قبر پر ضرور جانا۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے میری یہ خواہش پوری ہوئی ۔ پروردگار عالم کے حضور میں میر ی دعاء قبولیت سے نوازی گئی اور ملک کی مؤقر تنظیم آل انڈیا ملی کونسل کی میسور میں ہونے والی سلور جبلی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی دعوت ملی۔ 22 تا 26 فروری 2018 میسور میں آل انڈیا ملی کونسل کی چار روزہ جشن سمیں منائی جانی تھی۔ اتفاق سے اسی تاریخ میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بھی مدارس کے نصابِ تعلیم عنوان پر حیدر آباد میں منعقد ہونے والی ایک مشاورتی میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی، لیکن شیر میسور کی قبر پر حاضری کا شوق غالب رہا اور حیدر آباد کے بجائے میں نے میسور کے سفر کو ترجیح دیا۔ معروف دانشور ڈاکٹر محمد منظور عالم کے ساتھ پہلی مرتبہ سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ یوں علم دوست حضرات کے ساتھ 22 فروری کی صبح سویرے دہلی سے نکل کر حیدر آباد ہوتے ہوئے ہم دن کے گیارہ بجے بنگلور پہونچ گئے ۔ شام چار بجے تک میسور کی سرزمین میں ہمارا قافلہ پہونچ گیا۔میسور پہونچنے کے بعد میری سب سے پہلی خواہش ٹیپو سلطان کے مزار پر حاضری کی تھی لیکن پہلے دن یہ ممکن نہیں ہوسکا ۔ دوسرے دن بعد نماز جمعہ ہم وہاں کے لئے چل پڑے، میرے ساتھ میں مولانا حبیب اللہ ہاشمی، مولانا اشفاق صدیقی اور بھی کئی لوگ تھے۔
میسور شہر سے تقریبا 15 کیلومیٹر کی دوری پر سرنگا پٹنم واقع ہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے زمانے میں یہی شہر دارالخلافہ تھا ۔ دو ندی کے کنارے پر یہ موجود ہے، جائے وقوع انتہائی خوبصورت اور پرکشش ہے، بنگلور میسور ہائی وے سے چند کیلو میٹر اندر جاکر ٹیپو سلطان کا مقبرہ ہے۔ ایک وسیع احاطہ ہے جس کا نام گنبذ ہے، چاروں طرف گارڈن بنے ہوئے ہیں، بیچ میں ایک گنبد نما مکان ہے جہاں حضرت ٹیپو سلطان رحمۃ اللہ علیہ، ان کے والد حیدر علی اور والدہ محترمہ کی قبر ہے۔ سب سے پہلے والدہ محترمہ ہیں اس کے بعد والد محترم اور پھر آپ۔ حیدر علی اور والدہ کی قبر پہلے سے وہاں حضرت ٹیپو سلطان نے بنا رکھی تھی۔ اپنے بارے میں یہی تدفین کئے جانے کی نصیحت کر رکھی تھی۔مقبرہ کے احاطے میں داخل ہوتے ہی میری آنکھوں سے آنسو بَہ پڑے ، عجیب سے کیفیت طاری ہوگئی اور بے خودی کے عالم میں مقبرہ کے پاس کھڑا ہوکر قرآن شریف کی تلاوت کرنے لگا کافی دیر کے بعد میں نے وہاں سے قدم پیچھے ہٹایا تو دیکھا میرے ساتھ آئے تمام احباب وہاں سے جاچکے ہیں۔ تینوں قبر پر چادر چڑھی ہوئی تھی، کچھ پھول بھی رکھے تھے، حضرت ٹیپو سلطان شہید رحمۃ اللہ کی قبر پر شیر کی کھال رکھی ہوئی تھی، گنبد کے خادموں نے بتایاکہ حضرت اپنے زمانے میں اسی پر بیٹھتے تھے اس لئے اسے ان کی قبر پر اوڑھا گیا ہے ۔ مقبرہ کے تین دروازے ہیں، یہ تینوں دروازے سونے کے تھے جسے انگریزوں نے غصب کرلیا، مقبرہ کے چاروں طرف کچھ چھتیس کھمبے بھی بنے ہوئے ہیں، اس کی احاطے میں چاروں جانب خوبصورت عمارت ہے جن کی حیثیت دورِ بادشاہت میں مسافر خانے کی تھی ۔ اس احاطے میں ایک مسجد بھی بنی ہوئی ہے جس کا نام مسجد اقصی ہے۔ حضرت ٹیپو سلطان رحمۃ اللہ علیہ نے ہی اس مسجد کی تعمیر کرائی تھی۔ مقبرہ کے بالکل سامنے سرخ رنگ کا وہ جھنڈا لہرایا گیا ہے جو آپ کے زمانے میں تھا، لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ لکھا ہوا ہے اور ایک علامت بھی بنی ہوئی ہے ۔ گنبد کے بالکل سامنے ہے اور یوں لگتا ہے کہ آج بھی وہاں اسی جھنڈے کی حکمرانی ہے۔ گنبد کے بائیں جانب اور مسجد اقصی کے بالکل سامنے چند اور قبریں بنی ہوئی ہیں جس میں آپ کی اہلیہ اور دیگر رشتہ داروں کی قبریں شامل ہیں، اس احاطہ میں اور بھی کئی قبریں ہیں۔ یہ جگہ اور مقبرہ وقف بورڈ کے قبضے میں ہے ، مزار پر جانے کیلئے کوئی ٹکٹ نہیں ہے، ہزاروں کی تعداد میں ملک و بیرون ملک کے زائرین وہاں آتے ہیں، درگاہ کے خادم زائرین کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آتے ہیں۔ ٹیپو سلطان کی مختصر تعریف بتاتے ہیں، ان خادموں کو وقف بورڈ کی جانب سے سات ہزار روپے بطور تنخواہ دی جاتی ہے۔ مزار پر صفائی ستھرائی الحمد للہ بہت عمدہ اور قابل ستائش تھی ، انتظامات بھی دلکش اور دیدہ زیب ہیں، خادم مفت میں ترجمانی اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں، یہ سب کرتے وقت وہ زائرین سے کچھ مطالبہ نہیں کرتے ہیں اور نہ لینے کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔
یہاں سے تقریباً تین کیلو میٹر کے فاصلے پر مسجد اعلی ہے، یہ وہی مسجد ہے جس کی تعمیر کے بعد حضرت ٹیپو سلطان شہید رحمۃ اللہ علیہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ ” اس مسجد کی امامت کا فریضہ وہ شخص انجام دے گا جس کی بلوغیت کے بعد ایک بھی وقت کی کوئی نماز قضاء نہ ہوئی ہو، “ طویل انتظار کے بعد جب کوئی شخص امامت کیلئے آگے نہیں بڑھ سکا تو ٹیپو سلطان خود آگے بڑھے اور کہا کہ میں اپنا یہ راز فاش کرنا نہیں چاہ رہا تھا لیکن آج مجبوراً یہ سب کرنا پڑا ۔ پھر انہوں نے پہلی نماز کی امامت کا فریضہ انجام دیا۔ یہ مسجد مخدوش ہوتی جارہی ہے، اس کی مرمت پر بھی کوئی توجہ نہیں ہے، چند سالوں قبل تک یہاں ایک مدرسہ بھی چل رہا تھا لیکن اب وہ بند کردیا گیا ہے ، پانچ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ٹیپو سلطان رحمۃ اللہ علیہ کا قلعہ بھی موجود ہے، جہاں آپ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے، اسی کے پاس سے آپ کی نعش مبارک دریافت ہوئی تھی ، فی الحال وہاں ایک علامت بنی ہوئی جس سے جگہ کی شناخت ہوسکے۔ بتایا جاتا ہے کہ ا سی خطے میں چند کیلو میٹر کے فاصلے پر میر صادق کی بھی قبر موجود ہے جہاں لوگ جاکر چپل مارتے ہیں تاہم مجھے وہاں جانے کا اتفاق نہیں ہوسکا۔ (جاری)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں