شمس تبریز قاسمی
(گذشتہ سے پیوستہ)
میسور کے تاریخی مقامات میں ایک میسور پلس ہے ، دراصل اس کا تعلق اسی ویدیار بادشاہت سے ہے جو 1565 میں قائم ہوئی تھی اور آزادی کے بعد تک قائم رہی ، ٹیپو سلطان رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کے بعد بھی انگریزوں نے اس فیملی کی بادشاہت کو کوئی نقصان نہیں پہونچایا، تمام تر اختیارات انگریزوں کے قبضے میں تھے لیکن برائے نام اس فیملی کی بادشاہت برقرار تھی، ان کا قلعہ میسور پلس کہلاتا ہے ، برائے نام یہ بادشاہت آج بھی برقرار ہے اور یہ جگہ حکومت کے بجائے اسی فیملی کی ملکیت ہے۔ سال میں دو ماہ کیلئے یہاں انٹرنیشل تجارتی میلہ لگتاہے جہاں دنیا بھر کے تاجر اور زائرین آتے ہیں ، لوگ بتاتے ہیں کہ ان دنوں میں میسور میں ازدحام ہوتاہے ، پاﺅں رکھنے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے ، میلے میں دنیا کی تمام نایاب چیزیں دستیاب ہوتی ہیں ، بہت سے ممالک کی نایاب چیزیں اس علاقے میں بنائی بھی جاتی ہیں،اس موقع پر دسہرہ کے دس دنوں میں قلعہ کے مالک اور مہاراجہ کی آمد بھی ہوتی ہے ، ان کا دربار لگتاہے۔ لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے ، عام دنوں میں ودیار فیملی کے یہ بادشان لندن میں ہوتے ہیں۔ میرے دوستوں نے بتایاکہ حکومت نے کئی مرتبہ اس محل کو اپنے تصر ف میں لینے کی کوشش کی لیکن ہائی کورٹ سے کامیابی نہیں مل سکی۔ یہ میسور کے خوبصورت اور تاریخی مقامات میں سے ایک ہے، چمنڈی پہاڑ کے دامن میں واقع ہے ،قلعہ میں کئی ایک خوبصورت کمر ے اور ہال بنے ہوئے ہیں، راجاﺅں کے مجسمے نصب ہیں ، چاندنی اور سونے کے بنے دروازے ، کرسی اور دیگر چیزوں کو برقرار رکھاگیا ہے۔ چالیس روپے کا یہاں کا ٹکٹ ہے ، داخل اور خارج کا راستہ الگ الگ ہے۔ میسور پلس کی ایک اہم خصوصیت اس کا لائٹنگ سسٹم ہے، دسہر ہ کے دس دنوں میں رات کے اوقات میں یہ لائٹ جلتی ہے جبکہ عام دنوں میں بھی شام کو ساڑھے سات بجے آدھے گھنٹے کیلئے لائٹ جلائی جاتی ہے اور زائرین شوق کے ساتھ اس منظر کا نظارہ کرتے ہیں ۔ میرا جانا دن میں ہواتھا اس لئے نہیں دیکھ سکا اور نہ ہی میرے دوست ضیاءالحق صاحب کو یاد رہا جو یہاں لیکر آئے تھے ۔
میسور کے تاریخی مقامات میں آدم مسجد بھی شامل ہے جس کی تعمیر سلطان حیدر علی کے زمانے میں ہوئی تھی یہ لکڑی کی مسجد ہے لیکن اس کا رخ انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب ہے ،اسی مسجد میں دربھنگہ سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک دوست مولانا ضیاءالحق امامت کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ میسور پہونچ کر ان سے ملاقات ہوئی ،فیس بک پر جب میں نے ٹیپو سلطان کے مزار پر جانے کی تصویر ڈالی تو انہیں میرے میسور میں ہونے کی خبر ملی اور یوں ان سے ملاقات ہوئی، اپنا قیمتی وقت انہوں نے میرے ساتھ گزارا، میسور پلس اور کئی مقام کو ان کے ساتھ دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ ضیاء الحق صاحب کے تذکرہ کے ساتھ مجھے ایک رکشہ پولر بھی یاد آگئے ، در اصل ظہر کا وقت قریب ہورہا تھا اور ضیاءالحق صاحب کا وہاں رہنا ضروی تھا دوسری طرف مجھے بروقت ہوٹل پہونچنا تھا ۔یہیں آکر ظہر کی نماز ادا کرنے کا پرگرام تھا۔ چناں چہ انہوں نے مجھے ایک رکشہ میں بیٹھا دیا ،انہیں ہوٹل کا پتہ بتادیا اور کہاکہ آپ نکلئے میں تین بجے تک پہونچتا ہوں ۔ دس کیلومیٹر کا تقریباً فاصلہ تھا، اس دوران رکشہ ڈرائیور سے کافی دلچسپ گفتگو ہوئی ، وہ انتہائی حساس ، زندہ ضمیر ، باغیرت اور دینی حمیت سے سر شار نظر آئے ۔ حضرت ٹیپو سلطانؒ سے بے پناہ محبت کرنے والے تھے، دورانِ سفر انہوں نے کہاکہ ہر ایک بچہ کو ہمارے حکمرانوں اور بزرگوں کی تاریخ سے واقف ہونا چاہیئے ، یہ لوگ تاریخ بدل رہے ہیں، ہمارے بچوں کے ذہن کو خرا ب کررہے ہیں ایسے میں ہر والدین کی ذمہ داری ہے وہ اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں اور مسلم حکمرانوں کی صحیح تاریخ انہیں بتائیں ، حضرت ٹیپو سلطان رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت کے بارے میں آگاہی حاصل کریں ۔ انہیں شمالی ہندوستان کے مسلمانوں سے بھی بہت شکوہ تھا ، برملا کہنے لگے کہ یوپی، بہار، آسام اور دیگر ریاستوں میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے لیکن وہ انتہائی بزدل، کم ہمت اور بے حوصلہ ہیں ۔ جبکہ ہمارے جنوبی ہند کے مسلمانوں میں ایک جذبہ ، جنون اور اسلامی حمیت موجود ہے ۔ یہ بات کرتے ہوئے ہم ہوٹل کے پاس پہونچ گئے ، جیب سے پرس نکال کر ہم نے انہیں پیسہ دینا چاہا تو سرے سے انکار کردیا ، ہم پانچ سو کا نوٹ نکال کر انہیں دینے پر بضد رہے اور وہ انکار پر قائم رہے ، بار بار یہی کہتے رہے کہ آپ مہمان ہیں، ملی کونسل جیسی تنظیم کے جلسہ میں آئے ہیں، آپ کی خدمت، آپ کا استقبال ہمارا فریضہ ہے ، ان کے خلوص اور جذبہ کے سامنے ہمیں پیسہ واپس جیب میں رکھنا پڑا اور یوں اپنی باتوں کے ساتھ حسنِ اخلاق کے ذریعہ بھی انہوں نے میرا دل جیت لیا ۔
اس سفر میں میسور سے تعلق رکھنے والے جناب عبد الرحیم فلاحی سے بھی ملاقات ہوئی ، میری آنے کی خبر ملتے ہی وہ ہوٹل آئے، کافی دیر تک ان سے ملاقات ہوئی ، تاریخی، سماجی، ملی اور سیاسی ایشوز پر کافی طویل بات چیت ہوئی، ان کے جذبات، افکار و خیالات کو جان کر بیحد خوشی ہوئی۔
پورے میسور شہر میں ایک جشن کا سماں تھا، آل آنڈیا ملی کونسل کی سلور جبلی تقاریب کو لیکر سبھی شہری فرطِ جذبات سے مغلوب تھے ، پورا شہر ہندوستان بھر سے تشریف لائے مہمانوں کیلئے اپنی پلکیں بچھائے ہوا تھا، سیاست داں ، سماجی کارکنان، ملی رہنما ، علماء، دانشوران سبھی طبقہ کے لوگ پرجوش، پرعزم اور فرط جذبات سے سرشار تھے ، اہل شہر کی عقیدت ، محبت اور خدمت کو دیکھ یہ محسوس ہورہاتھا کہ آل انڈیا ملی کونسل سے انہیں خصوصی عقیدت، لگاﺅ اور محبت ہے ، اس کی تاریخ میں میسور کا کلیدی رول ہے اور اس سلسلہ کہ اہلیان میسور ہر حال میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ (جاری)