شمس تبریز قاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ایک معتبر، مستند اور بے پناہ اہمیت کا حامل فقہی ادارہ ہے جسے عالم اسلام کے نامور فقیہ، متبحر عالم دین حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی نور اللہ مرقدہ نے 1989 میں قائم کیا تھا، جدید مسائل کی تخریج، قرآن و سنت کی روشنی میں مسائل کا حل اور اجتہاد کے ذریعہ شرعی راہ ہموار کرنا اس تنظیم کے اغراض و مقاصد میں سرفہرست ہے، ہر سال ملک کے مختلف شہروں میں فقہی سمینار کا انعقاد عمل میں آتا ہے جس میں ملک بھر کے نامور فقہاء، علماء، اسکالرس اور مفتیان عظام حصہ لیتے ہیں اور نئے موضوعات کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کرتے ہیں، جن مسائل کا تذکرہ قدیم فقہی کتابوں میں نہیں ہے اس کا شرعی حل بتاتے ہیں، ہندوستان جیسے ملک میں اس تنظیم کی اور زیادہ اہمیت ہوجاتی ہے جہاں حکومت کا اسلامی قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے اور بیشتر امور اسلام کے متصادم ہوتے ہیں۔ یہ تنظیم صرف ہندوستان نہیں بلکہ عالم عرب، جنوبی ایشیا اور مسلم اقلیتی ممالک میں ایک معتبر اور مستند ادارہ کی حیثیت رکھتی ہے، اس میں کئے گئے فیصلوں کے مطابق بعض مسلم ممالک نے اپنا نظام مرتب کیا ہے، ارباب افتاء اسے مشعل راہ مانتے ہوئے اس کے مطابق فتاوی دیتے ہیں اور اقلیتی مسلم ممالک اس کے فیصلے کے مطابق اپنے معاملات کرتے ہیں، اس کا شمار ہندوستان کی انتہائی منظم اور مقبول تنظیم میں ہوتا ہے، اس کا پروگرام اور انتظام قابل صد ستائش ہوتا ہے موجودہ جنرل سکریٹری فقیہ عصر، سلیس قلم کے مالک حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب اپنی جدوجہد اور کوششوں سے اسے مزید مقبولیت فراہم کررہے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ آج عالم اسلام کے مشہور اسکالرس ڈاکٹر یوسف القرضاوی، ڈاکٹر سلطان صلاح، مفتی تقی عثمانی، ڈاکٹر اکرم کلش وغیرہ بھی اس کی تعریف کررہے ہیں اور ہندوستان سمیت پوری مسلم دنیا کیلئے اسے ایک قابل تقلید اور عظیم فقہی ادارہ قراردے رہے ہیں۔
آج سے تقریباً دس سال قبل 2007 میں اکیڈمی کے اٹھارہویں سمینار میں فقیہ ملت استاذ گرامی حضرت مولانا زبیر احمد قاسمی صاحب کے ساتھ میری شرکت ہوئی تھی جس کا انعقاد تمل ناڈو میں واقع شہر مدورائی میں ہوا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ اکیڈمی کے پروگرام میں شرکت کا موقع نہیں مل سکا۔ سال رواں ایک دن اکیڈمی کے دفتر سے ایک دعوت نامہ موصول ہواجس میں 4 تا 6 مارچ 2017 تاریخی شہر اجین میں ہونے والے 26 ویں فقہی سمینار میں شرکت کی دعوت تھی، اس کے بعد اکیڈمی کے اہم ذمہ دار جناب انیس احمد صاحب نے فون کرکے اجین سفر ٹکٹ وغیرہ بھی بک کردیا۔ اسی دوران ہمارے کرم فرماؤں میں شامل مفتی احمد نادر القاسمی صاحب اور مفتی امتیاز احمد قاسمی صاحب نے بھی نے اجین چلنے پر اصرار کیا اور یوں مجھے یہاں آنے کا پروگرام یقینی بنانا پڑا، حالاں کہ 27 فروری کو میں بہار کے ضلع سپول میں تھا جہاں جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول بہار میں دینی مدارس اور یونیورسٹیز کے درمیان تدریسی تعاون کے عنوان پر ہونے والے ایک سمینار میں شریک ہونے گیا تھا، وہاں سے سیتامڑھی تقریباً ایک سو پچاس کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے لیکن وہاں سے اپنے گھر نہیں جاسکا کیوں کہ دو مارچ کو دہلی سے اجین کیلئے روانگی تھی، میں نے بذات خود یہاں آنے میں دلچسپی ظاہر کی اور اسے اپنے لئے باعث فخر اور ضروری سمجھا کیوں کہ فقہ اکیڈمی نے سمینار کے کوریج کیلئے ملت ٹائمز کا انتخاب کیا تھا جس کے اغراض و مقاصد میں ملی اداروں، اس کی خدمات اور کارنامے کو کوریج دینا سر فہرست شامل ہے۔
2 مارچ کا مالوا ایکسپریس سے ٹکٹ بک تھا، ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے یہ ٹرین نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر پہونچی اور اجین پہونچتے پہونچتے ساڑھے تین گھنٹہ لیٹ ہوگئی، ٹرین میں اجین اور اطراف سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں سے بات چیت ہوئی ان میں کئی فوجی بھی شامل تھے جو کشمیر سے آرہے تھے اور موجودہ حکومت کی پالیسی سے ناراض لگ رہے تھے۔ ٹرین میں ان لوگوں نے بتایا کہ اجین مندروں کا شہر ہے، ایک مذہبی مقام ہے لیکن یہاں مذہبی روا داری ہے، اتحاد و یکجہتی ہے، ہندو مسلم کے درمیان کسی طرح کی کوئی کشیدگی نفرت اور تعصب نہیں ہے، اجین ریلوے اسٹیشن پر اترتے ہی یہاں کی فضاء سے اتحاد یکجہتی کا اظہار ہونے لگا، جو کچھ ٹرین میں سننے کو ملا تھا اس کا عملی مشاہدہ ہونے لگا اور ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کسی پرسکون جگہ پر آگئے ہیں، ٹرین سے اتر کر پلیٹ فارم پر جیسے ہی چند قدم چلا میری جانب دو شخص دوڑتے ہوئے آنے لگے، دونوں کے سر پر ٹوپی تھی، نورانی چہرہ تھا، کرتا پائجامے میں ملبوس تھے اور گلے میں رضا کار برائے فقہی سمینار بیج لٹکائے ہوئے تھے، انہیں دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ یہ سمینار میں آنے والے مہمانوں کے استقبال کیلئے یہاں موجود ہیں لیکن مجھے اس بات بر تعجب ہوا کہ ان لوگوں نے میرے بارے میں کیسے یقین کرلیا کہ میں یہاں کا مہمان ہوں، میری آمد سمینار میں شرکت کیلئے ہوئی ہے، کیوں کہ میرا لباس بھی زیادہ اچھا نہیں تھا اور نہ ہی میری شکل و صورت سے کوئی بھاری بھر کم آدمی ہونے کا احساس ہوتا ہے، بہر حال ان دونوں نے آکر انتہائی خلوص کے ساتھ مصافحہ کیا، کچھ پوچھے بغیر میرے ہاتھ سے انہوں نے بیگ پکڑ لیا اور کہا چلئے، راستے میں انہوں نے یہ پوچھا کہ دہلی سے آئے ہیں؟ ان کے ایک ساتھی اسٹیشن پر ہی کسی اور مہمان کو ریسیو کرنے چلے گئے، پلیٹ فارم عبور کرنے کے دوران انہوں نے بار بار یہ جملہ دہرایا ’’ حضرت آپ کیسے ہیں، آنے میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی، آپ سے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے ‘‘ اسی دوران میں نے ان سے ان کا نام اور پیشہ معلوم کیا تو پتہ چلا کہ جسے شکل سے دیکھ کر میں نے کسی مدرسے کا طالب علم تصور کیا تھا وہ ایک بیکری کے مالک ہیں۔
اسٹیشن کے باہر قدم رکھتے ہی میں نے دیکھا کہ کار اور آٹو کی ایک طویل قطار لگی ہوئی تھی، ہر ایک کے سامنے والے شیشے پر فری سروس برائے سمینار کا پوسٹر لگا ہوا تھا جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی تو وہیں بہت سے لوگ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے بھی تھے جو مہمانان کرام کی خدمت کے جذبے سے اپنی گاڑی وقف کرچکے تھے او رعلماء کرام کی خدمت سعادت سمجھ کر اپنے جان و مال کی قربانیاں پیش کررہے تھے۔ دوسری طرف میری نظر اسٹیشن کے مرکزی عمارت پر پڑی جس کی شکل و صورت مندر جیسی تھی اور یہ انداز تعمیر اجین کے مندروں کا شہر ہونے کی اطلاع دے رہی تھی، اس عمارت سے شہر کی تاریخ، کلچر اور تہذیب و ثقافت کی نمایاں طور پر ترجمانی ہورہی تھی۔ ( جاری )