ایم ودودساجد
داعش جیسی مردودوملعون‘قابل نفرت اور دہشت گرد جماعت دنیا کے کسی بھی ملک میں دہشت گردانہ حملہ کرے پوری دنیااس سے متاثر ہوجاتی ہے۔لہذا پچھلے دنوں خود کش بم دھماکے بنگلہ دیش کی راجدھانی ڈھاکہ میں ہوئے اور افراتفری ہندوستان میں مچ گئی۔ان سطورکے لکھے جانے تک یہ افرا تفری جاری ہے اور اسلام اور دہشت گردی پرٹی وی چینلوں پر ہونے والی طوفان خیز بحثوں میں ایسے ایسے لوگ بھی حصہ لے رہے ہیں جنہیں خود اسلام کی الف کا علم نہیں ہے اور جو مسلم گھرانوں میں پیداہونے کے باوجودخود کو لامذہب کہلوانے پر فخر محسوس کرتے رہے ہیں۔یہاں تک کہ ایک صاحب توایک عالم دین کے گھرپیدا ہوئے لیکن پچھلی چار دہائیوں میں اپنی اردو صحافت کے ذریعہ مسلمانوں کی حمایت کے نام پرپیش کی جانے والی خون آلود شہ سرخیوں کے برخلاف اپنی ذاتی زندگی میں دین ومذہب کی دھجیاں اڑاتے رہے۔نماز ‘روزہ‘زکوۃ‘حج اور بیاہ شادی یہ انسان کے ذاتی افعال ہیں اور ان کی بنیاد پرکسی کوعوامی طورپرمعتوب ومطعون نہیں کیا جانا چاہئے۔لیکن ان لوگوں کی گرفت ضرور ہونی چاہئے جو خود تو اسلامی تعلیمات کو علی الاعلان پاؤں تلے روندتے رہے اور آج موقع پاتے ہی اسلام کی تشریحات کرتے پھر رہے ہیں اور ایک مبلغ اسلام کو دہشت گردی کا ملجا وماوی قرار دے رہے ہیں۔ اس عمل میں افسوس یہ ہے کہ خود کو محبین علی اور عاشقین رسول ﷺ قرار دینے والے بھی پیش پیش ہیں۔
اس موضوع پر بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک دوسرے متعلقہ موضوع پر بات کرنا ضروری ہے۔وہ موضوع انتہائی اہم اور ضروری ہے لیکن اس سے جان بوجھ کر صرف نظر کیا جارہا ہے۔موجودہ حکمرانوں اور مسلمانوں کے ازلی دشمنوں کے منصوبوں سے واقف ہونے کے باوجودہمارے مذکورہ کلمہ گو بھائی محض مسلکی عنادکا حساب بے باق کرنے کے لئے برسوں سے تبلیغ دین میں مصروف ایک جارح‘غیر عالم اور اردو سے نابلد مبلغ دین کو دہشت گردی کا مبلغ بناکر پیش کر رہے ہیں۔اگر اپنی بات کو بلند آواز سے‘پوری طاقت اورجارحیت سے پیش کرنے کا نام دہشت گردی ہے تواس عمل میں تو خود یہ نام نہاد محبین اور عاشقین بھی ملوث ہیں۔لیکن ان کے اور زیر بحث مبلغ دین کے درمیان ایک ہمالیائی فرق یہ ہے کہ ان کے پاس دلائل نہیں ہوتے جبکہ وہ مبلغ اسلام دلائل سے بات کرتا ہے۔تسلیم کہ وہ بلند آواز‘پوری طاقت اور جارحیت سے اپنی بات کہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اسلامی تعلیمات ‘قرآن وحدیث اور حیات پاک رسول وصحابہ سے دلائل بھی پیش کرتا ہے۔
آئیے موضوع بدلتے ہیں۔2دسمبر1978کو(سابق جن سنگھی)جنتا پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ او پی تیاگی نے لوک سبھا میں ایک پرائیویٹ بل پیش کرکے لالچ‘دھمکی یا کسی جبر کے ذریعہ کرائے جانے والے تبدیلی مذہب پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔اوپی تیاگی نے 1967میں اڑیسہ‘1968میں مدھیہ پردیش اور 1977میں اروناچل پردیش میں اسی طرح کے بل پاس کئے جانے کی مثال دی۔ان تینوں ریاستوں میں کانگریس کی حکومتیں تھیں۔یہی نہیں آج یہ قانون کانگریس کی مہربانی سے ملک کی28 ریاستوں میں نافذ ہے۔اس قانون کا ناجائز استعمال بھی ہوتا ہے اور جو لوگ اپنی مرضی اور عرفان حق سے اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہتے ہیں ان کو پولس اور انتظامیہ ہراساں کرتا ہے۔اس قانون میں اپنی مرضی اور عرفان حق سے مذہب تبدیل کرنے والوں پر بھی اتنی سخت بندشیں عاید کی گئی ہیں کہ جائز طریقہ سے بھی کوئی مذہب تبدیل کرنے سے پہلے دس بار سوچتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چند ریاستوں کو چھوڑ کر یہ قانون عملاً پورے ملک میں نافذ ہے۔لیکن اوپی تیاگی نے لوک سبھا میں اس بل کو پیش کرکے دراصل پورے ملک میں نہ صرف تبدیلی مذہب پر پابندی لگوانے کی کوشش کی تھی بلکہ اس کا مقصد تبلیغ واشاعت دین کے حق کو غصب کرانا تھا۔اس کے خلاف جماعت اسلامی نے تحریک چلائی اور یہ بل پاس نہ ہوسکا۔موجودہ قوانین تبلیغ کے حق کو تسلیم کرتے ہیں جن کے تحت ملک کی مسلم جماعتیں خاص طورپرتبلیغی جماعت ‘جماعت اسلامی اورڈاکٹر ذاکر نایک کی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن اپنے اپنے طورپرتبلیغ واشاعت دین میں مصروف ہیں۔
موجودہ حکومت اور اس میں شامل بہت سے شدت پسندعناصرکی کوشش ہے کہ پورے ملک میں ایسی رائے عامہ تیارکرلی جائے اور ایسی مسموم فضا بنادی جائے کہ جس کے بعددہشت گردی پر کنٹرول کرنے کی آڑ میں تبلیغ دین کے حق کو غصب کرنے کا قانون بنانا آسان ہوجائے۔سبب یہ ہے کہ اڑیسہ‘مدھیہ پردیش اور اروناچل نے 60اور 70کی دہائیوں میں جو قوانین پاس کئے تھے ان کا ہدف عیسائی مشنریوں کا بڑھتا ہوادائرہ اوردلت‘آدیباسیوں اور انتہائی غریب وکمزور طبقات کے عیسائیت کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان پر قابوپانا تھا۔لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا میں لوگوں کا رجحان اسلام کی طرف مسلسل بڑھ رہا ہے۔اس وقت تیزی سے پھیلنے والے مذاہب میں اسلام پہلے نمبر پر ہے۔ہندوستان مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے دنیا میں انڈونیشیااور پاکستان کے بعد تیسرا مقام رکھتا ہے۔ ذیلی اعتبار سے ہندوستان میں سنی مسلمانوں اور ان میں بھی دیوبندی مکتب فکر کے مسلمانوں کا علمی ‘سیاسی اور سماجی غلبہ ہے اور پورے ملک میں ان کے بڑے تعلیمی اور مذہبی ادارے قائم ہیں۔اس علمی ‘سیاسی اور سماجی غلبہ کو توڑنے کے لئے بی جے پی نے 2014کے الیکشن سے پہلے نفرت کی غلیظ سیاست کرنے والے سبرامنیم سوامی کو کام پر لگایا تھا۔انہوں نے ’آج تک‘ چینل کو ایک انٹر ویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ میری کوشش ہے کہ ہندؤں کو اکٹھا کروں اور مسلمانوں میں تقسیم درتقسیم کرادوں۔اس کوشش میں شیعہ اور بریلوی ہمارے ساتھ ہیں۔‘‘یہ انٹرویو یوٹیوب پر موجود ہے۔ابھی تک شیعہ اور بریلوی حضرات نے اس کی تردید نہیں کی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نایک کے بہانے اس وقت مسلمانوں کے ان دوطبقات سے وابستہ ایک خصوصی گروہ کا جو طرز عمل ہے وہ سبرامنیم سوامی کے مذکورہ بیان کی تائید کر رہا ہے۔تو کیا واقعی ہمارے شیعہ اور بریلوی بھائی بی جے پی کے ہاتھوں مسلمانوں کی تقسیم درتقسیم کے منصوبہ کا حصہ بن رہے ہیں؟اس سوال کا جواب ذاکر نایک کے خلاف جاری نفرت آمیز تحریک نے دے دیا ہے۔شیعہ طبقہ کا ایک مفاد پرست ٹولہ تاریخ کربلا پر ذاکر نایک کے موقف کے سبب اور بریکوی مکتب فکر کا ایک مفاد پرست ٹولہ بدعات وخرافات پر ذاکر نایک کے موقف کے سبب انہیں دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔اسلام میں جو بنیادی عنصر ہے وہ توحید کا ہے۔ایسے اعمال یا افکار جن سے شرک لازم آتا ہو قرآن کی روشنی میں مردودہیں اور ان کا اسلام یا پیغمبر اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔لیکن مذکورہ دونوں طبقات ایسے افکارواعمال روا رکھتے ہیں کہ جن کا یہاں ذکر بھی کفر کے درجہ میں آجائے گا۔اس کے باوجود دیوبندی یا دوسرے طبقات شیعہ اور بریلوی طبقات کو دہشت گرد قرار دینا تو دور کی بات ہے انہیں عوامی طورپربرا نہیں کہتے۔اور ضرورت پڑنے پر ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ثبوت کے طورپرصرف دوواقعات کا ذکر کافی ہوگا۔
2012میں ایک شیعہ صحافی کو دہشت گردی کے ایک معاملہ میں ماخوذ کیا گیا تو ہندوستان کے تمام مسلمان اس گرفتاری کے خلاف سڑکوں پر آگئے۔اور ایک سنی وکیل نے کسی لالچ اور فیس کے بغیرتمام حکمت ومصالح کا استعمال کرکے انہیں سپریم کورٹ سے محض سات ماہ کے اندر ضمانت پر رہا کرالیا۔حالانکہ اس سے پہلے ہزاروں سنی نوجوان ماخوذ کئے گئے‘جن میں سے بیشتر آج بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں لیکن اس کے خلاف نہ شیعہ عوام کھڑے ہوئے اور نہ ان کے علماء۔یہی نہیں جس وقت پریشان حال سنیوں کو مددکی ضرورت تھی اس وقت شیعہ علما ء اٹل بہاری باجپائی‘لال کرشن اڈوانی ‘لال جی ٹنڈن‘مرلی منوہر جوشی ‘کلراج مشرا اور راجناتھ سنگھ سے بغل گیر ہورہے تھے۔لیکن جب ایک شیعہ صحافی پر افتاد آئی تو سنی علما اور سنی عوام نے سب کچھ بھلاکران کا ساتھ دیا۔اس کے بعدبریلوی مکتب فکر کے عالم دین علامہ یاسین اختر مصباحی کو دہلی پولس نے اٹھالیا۔لیکن اوکھلا کے تمام مسلمان جن میں سنیوں اور اہل حدیث (جنہیں آج کل گالی کے طورپروہابی کہا جارہا ہے)کی تعدادزیادہ تھی ‘اس حراست کے خلاف سڑکوں پر آگئے اور سب نے بیک آواز مصباحی صاحب کا ساتھ دیا۔آخر کار پولس کو انہیں چھوڑنا پڑا۔ذاکر نایک کے معاملے میں جن مفاد پرستوں اور سنگھیوں کے عقیدت مندوں کواپنا رنگ دکھا نا تھاانہوں نے دکھا دیا لیکن شیعہ عالم دین اور امام جمعہ وجماعت مولانا سید محسن علی تقوی‘بریلوی مکاتب فکر کے مفتی محمد مکرم احمد(دہلی)اوردیوان سید زین العابدین(اجمیر)جمعیت علماء ہند کے مولانا سید ارشدمدنی اور مولانا محمود مدنی‘دارالعلوم دیوبند‘جماعت اسلامی اور فرنگی محل کے ذمہ داروں نے اپنے سیاسی اورمسلکی اختلاف کے باوجود کھل کر کہا کہ ذاکر نایک دہشت گردی کے حامی نہیں ہیں۔
اس موضوع پر ابھی کئی نکات باقی رہ گئے ہیں۔لیکن زیر نظر سطورمیں اپنے ان پرجوش ’نام نہاد‘محبین علی اور عاشقین رسول سے ایک بات کہنی ہے کہ اگر یہ حکومت ذاکر نایک کے بہانے اور آپ کی شرانگیزمددسے ’حق دعوت وتبلیغ ‘پر اعلانیہ یا غیر اعلانیہ پابندی لگانے میں کامیاب ہوگئی تواس کی زد میں آپ بھی آئیں گے۔اس وقت نہ سبرامنیم کے دوست بچیں گے اور نہ راجناتھ سنگھ کے حامی کوئی راہ پاسکیں گے۔(ملت ٹائمز)