عالمی عدالت انصاف کافیصلہ

محمد عمران 
ہندوستانی بحریہ کے سابق افسر کلبھوشن جادھو کو عالمی عدالت آئی سی جے(انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس) سے ملنے والی راحت بلاشبہ نہ صرف ان کے لئے اوران کے اہل خانہ ورشتہ داروں کے لئے بلکہ تمام ہندوستانی شہریوں کے لئے اور پھرسفارتی سطح پر کامیابی حاصل کرنے میں وطن عزیزکے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔بلاشبہ نیدرلینڈ کے ہیگ میں واقع عالمی عدالت نے 15 مئی 2017کوہندوستان اور پاکستان کے وکلاء کے نوے اورپچاس منٹ کے دلائل سننے کے بعد 18 مئی کو 3:30بجے اپناعبوری فیصلہ سنایا اور پاکستان کی فوجی عدالت میں سنائی گئی یکطرفہ موت کی سزا پر حتمی فیصلہ آنے تک روک لگاکر انصاف کے نظریاتی پیمانے میں ہندوستان کے موقف کی حمایت کی ۔ آئیے ہم یہاں یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ جادھو ہندوستانی بحریہ کے سابق افسر ہیں جو ایران میں تجارت کرتے تھے ۔ہندوستان کے موقف کے مطابق پاکستان نے 16مارچ2016کومبینہ طور پر جاسوسی کے الزام میں وہاں سے گرفتار کرنے کے بعدفوجی عدالت میں ان پر خود ساختہ مقدمہ چلایا اورگزشتہ10 اپریل کو انہیں پھانسی کی سزا سنادی۔
اس کے بعد حکومت ہند نے اپنے شہریوں کے تحفظ کے پیش نظر اور حقائق سے روبرو ہونے کے لئے کلبھوشن جادھو سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور یہ کوشش تقریباً 16مرتبہ کی گئی،پاکستان سے کلبھوشن جادھو کے خلاف چارج شیٹ کی کاپی بھی طلب کی گئی لیکن پاکستان نے ہندوستان کی تمام سفارتی کوششوں کے باوجودبھی نہ تو کسی کو کلبھوشن جادھو سے ملنے کا موقع دیااور نہ ہی ایف آئی آر دستاویزات کی کاپی ہی سونپی ،جس کے نتیجے میں مجبور ہوکرہندوستان نے پاکستان کے اس جارحانہ فیصلہ کے خلاف انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس میں اپیل دائر کی ۔9مئی کو عالمی عدالت نے کلبھوشن کی پھانسی کی سزا پرعبوری روک لگادی تھی۔پھر15مئی کو عدالت نے دونوں ممالک کے وکلا ء کے دلائل سنے اور 18مئی2017 کو اپناتاریخ ساز فیصلہ سنادیا۔
اپنے ٹھوس دلائل کے ساتھ ہندوستان نے پاکستان کے اس دلیل کو یکسر خارج کردیاکہ یہ معاملہ بین الاقوامی عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ہندوستان کی جانب سے پیش وکیل ہریش سالوے جنہوں نے کلبھوشن کو مقدمہ لڑنے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور ٹوکن منی کے طور پر صرف ایک روپیہ کی فیس پر مقدمہ لڑکر ایک مثال قائم کی،نے عدالت کو یہ بتایاکہ قونصلر رسائی نہ دینا واضح طور پر ویانا معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے عدالت کویہ بھی بتایا کہ ہندوستان کوجادھوکے خلاف کوئی ثبوت بھی نہیں دیئے گئے ہیں اوراب اگر مدد بھی مانگی جارہی ہے تو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد،جادھو ایران سے پاکستان کیسے پہنچ گئے اس کی کوئی بھی اطلاع نہیں ہے،کلبھوشن جادھو کے خلاف جو ایف آئی آر درج ہوئی ہے اس میں انہیں ہندوستانی تو ضرور بتایاگیاہے لیکن ہائی کمیشن کے حکام سے انہیں ملنے تک نہیں دیاگیاہے،اس لئے اس بات کا شدید ڈر ہے کہ کہیں بین الاقوامی عدالت میں چل رہے اس کیس کی سماعت کے دوران ہی پاکستان کی جانب سے انسانیت کے حدود کو پار کرتے ہوئے جادھو کو پھانسی کی سزا نہ دے دی جائے۔
اس موقع ہرہندوستان نے یہ بھی واضح کیاکہ اگر جادھو کو پھانسی دی جاتی ہے تو اسے جنگی جرائم کے برابر ہی تصور کیاجائے گا۔ہندوستان کایہ موقف تھاکہ کلبھوشن جادھو کو ایران سے اغوا کیا گیا ہے اور انہیں پاکستان میں جاسوس کے طور پر پیش کیاگیاہے۔اور فوجی حراست میں ان سے زبردستی ناکردہ گناہوں کو بھی قبول کرنے پر مجبور کیاگیاہے۔جبکہ پاکستان نے یہ الزام لگایا ہے کہ کلبھوشن جادھو کے ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہونے کی صورت میں انہیں پاکستانی حکام کے ذریعے گرفتار کیاگیاتھا۔اس کے بعد انہیں فوجی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
عدالت نے بھی اپنے فیصلے میں ہندوستان کے وکلاء کے دلائل کو بہت سنجیدگی سے لیا،اور یہ تسلیم کیا کہ کلبھوشن کو یقینی طور پر قانونی مدد ملنی چاہئے،اوراس مقدمہ کی مکمل سماعت ہونے اور اگست کے مہینے میں اس کاحتمی فیصلہ آنے تک پاکستان جادھو کو پھانسی نہیں دے سکتا ہے،جسٹس رونی ابراہم نے ہیگ میں بین الاقوامی عدالت کا فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان کے تمام دلائل کوخارج کرتے ہوئے کہا کہ جاسوسی اور دہشت گردی جیسے معاملات میں گرفتار لوگوں کے ساتھ بھی ویانا معاہدہ کے تحت ہی سلوک کیاجائے گا۔اور اس عدالت کو مکمل طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس سنگین معاملے کی شنوائی بھی کرے۔عدالت نے جادھو کی گرفتاری کے مقدمہ کو ایک متنازع معاملہ بھی قرار دیا ۔عالمی عدالت کایہ بھی مو قف تھاکہ ہندوستان اور پاکستان 28دسمبر 1977سے ویانا کنونشن کے رکن ہیں اور دونوں میں سے کوئی بھی اس کا منکر نہیں ہوسکتا ہے۔جج نے یہ بھی کہا کہ آرٹیکل 1کے تحت ویانا معاہدہ کی تشریح میں کسی طرح کی تفریق ہونے کی بنیاد پر عالمی عدالت کو اپنا فیصلہ دینے کا حق حاصل ہے۔
واضح رہے کہ کلبھوشن جادھو پر پاکستان نے اپنے چارج شیٹ میں یہ الزامات عائد کیے ہیں کہ انہوں نے گوادر اور تربت میں ہوئے حملوں کو اسپانسر کیاتھا،جیوانی بندرگاہ پربوٹ اور راڑاد حملے کی سازش کی تھی،بلوچستان میں پاکستانی نوجوانوں کو علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کی جانب راغب کرنے لئے مالی معاونت کی تھی،بلوچستان کے سوئی علاقہ میں گیس پائپ لائن دھماکہ میں شامل رہے تھے۔لیکن اس بابت ہندوستان کا بہت ہی ٹھوس اور واضح موقف ہے کہ پاکستان کے ذریعے جادھو پر عائد کردہ یہ تمام الزامات محض فرضی اور من گھڑت ہیں اور ان کا کوئی بھی ثبوت پاکستان کے پاس موجود نہیں ہے،جس کو وہ عالمی سطح پرپیش کرسکے ۔مذکورہ الزامات کی روشنی میں مبصرین کایہ ماننا ہے کہ پاکستانی حکام کے ذریعے کلبھوشن جادھو کو محض فلمی انداز میں ایک ویلن کے کردار میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،اور ان کی یہ کہانی بھی محض فلمی اور من گھڑت ہی ثابت ہوئی ہے ،حقیقت کی دنیا سے اس کا کوئی بھی واسطہ نہیں ہے۔
اس معاملے میں ہندوستان کے تمام شہریوں اور سیاسی جماعتوں کا ایک ہی موقف رہا ہے۔اس دوران جادھو کی پھانسی کی سزا کا رکنا ہرایک کے لئے یقیناً بہت ہی اہم تھا۔حکومت کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں نے بھی عالمی عدالت کے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیاہے۔وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کہاکہ ’عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ کلبھوشن جادھو کے خاندان اور ملک کے باشندگان کے لئے بڑی راحت کا باعث بن کر سامنے آیاہے۔میں ملک کو یقین دلانا چاہتی ہوں کہ وزیر اعظم کی قیادت میں ہم کلبھوشن جادھو کو بچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ہم ہریش سالوے کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے اس کیس کو عالمی عدالت انصاف کے سامنے مضبوطی سے پیش کیا۔ساتھ ہی ہم وزارت خارجہ کی اپنی ٹیم کے بھی ممنون ہیں جنہوں نے اس معاملے کو انجام تک پہنچانے میں انتہائی جد وجہد اور محنت سے کام کیا۔‘دوسری جانب کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے بھی اس معاملے میں ہندوستان کے موقف کی مکمل حمایت کرتے ہوئے کہاکہ’یہ امر قابل ستائش ہے کہ عالمی عدالت کو ہندوستانی اپیل میں معقولیت نظر آئی اور اس نے پاکستانی غلط پروپگینڈے کے ادراک کے ساتھ صحیح قدم اٹھاتے ہوئے ماقبل سماعت کے دوران ایک فرضی اعتراف نامے کا ویڈیو دکھانے کی درخواست مسترد کردی۔بین الاقوامی عدالت میں ملک کی نمائندگی کرنے والی ہندوستانی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتاہوں،اور اپیل کرتا ہوں کہ حکومت کلبھوشن جادھو کو انصاف دلانے اور وطن واپس لانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھنے کو یقینی بنائے گی۔‘
حالانکہ ابھی تو حتمی فیصلہ آناباقی ہے اور پاکستان بھی عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنی ہٹ دھرمی پر قائم نظر آرہاہے اور ملکی مفاد کا بہانہ بناکر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا پابند ہونے سے انکار کررہاہے ۔غالباًاس کایہ بھی کہنا ہے کہ عالمی عدالت نے تو ایسے فیصلے تین بار دیئے ہیں ۔اس نے ہندوستان پر کلبھوشن کیس کو انسانیت کاحوالہ دے کردنیاکی توجہ ہٹانے کی کوشش کرنے کاالزام بھی لگایاہے ۔وہ آئندہ جادھوکے خلاف عدالت میں بہت ہی ٹھوس ثبوت پیش کرنے کی بھی بات کررہاہے۔دوسری جانب پاکستان میں اس عبوری لیکن بہت ہی اہم فیصلہ کے آنے کے بعد ایک زبردست ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔خبروں کے مطابق ہرطرف ایک ماتم ساچھایا دکھائی دے رہاہے۔آئی سی جے کافیصلہ آنے کے اگلے دن یہی خبر وہاں کے تمام اخباروں کی شہ سرخی بھی بنی تھی۔
تبصرہ نگاروں کی مانیں تو اس معاملے میں عالمی سطح پر پاکستان کی سبکی ہونے کے لئے وہاں ایک دوسرے پر الزامات کی بارش بھی ہورہی ہے، کوئی بین الاقوامی عدالت کے فیصلے پر ہی سوالیہ نشان لگارہاہے تو کوئی پاکستانی حکومت کے موقف اور اس کے طریقہ کار کو مورد الزام ٹھہرارہاہے تو کوئی ان وکلاء کوہی اس کاذمہ دارقرار دے رہاہے جو نوے منٹ کے متعینہ وقت کااستعمال کرنے اور اپنے ٹھوس دلائل پیش کرنے میں ناکام رہے اور محض پچاس منٹ میں ہی اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگئے۔ اس حوالے سے اب ماہرین کا بھی یہی ماننا ہے کہ پاکستان اب یہ بھی کہہ سکتاہے کہ وہ عالمی عدالت کا یہ فیصلہ ماننے پر مجبور نہیں ہے اور اس کی جانب سے حد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عالمی سطح پر چین کا ویٹو ہوجائے ۔مبصرین مانتے ہیں کہ اس طرح پاکستان رکاوٹیں تو ضرور پیدا کرسکتاہے لیکن سفارتی سطح پر ہندوستان کو جو کامیابی ملی ہے اس کا پاکستان کے پاس اب کوئی جواب نہیں ہے۔ 
بلاشبہ ایک ہندوستانی شہری کے ناطے ہم سب کو یہ امید ہے کہ کلبھوشن جادھو مکمل طور سے بری ہوکر ہندوستان واپس آجائیں گے ۔اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ اگرملک و بیرون ملک میں کوئی بھی ہندوستانی شہری ظلم و تشدد اور تعصب و فریب کا شکار ہے تو اس کو بھی انصاف ضرور ملے گا۔آئیے اس موقع پر اس حقیقت کابھی اعتراف کرتے چلیں کہ جب تک ہندوستانیوں میں صدق دلی سے یکجہتی اور جذباتی ہم آہنگی کایہ سلسلہ قائم رہے گا تفریق سے بالاتر ہوکر ہر ہندوستانی شہری کو انصاف ملتارہے گا۔


(کالم نگار اینگلوعربک اسکول کے سینئر استاذ اور ملت ٹائمز کے مستقل رکن ہیں)
mohd1970imran@gmail.com