تسبیح ،مسواک اور ٹوپی والے دیش دھروہی۔ لاٹھی، ترشول اور چڈھاوالے دیش بھکت !!

عبد اللہ سلمان ریا ض، بنگلور
(ملت ٹائمز)
سرزمین کرناٹک سے تعلق رکھنے والے خطیبِ بے مثال ، مصلح امت، شاہ ملت حضرت مولانا انظر شاہ قاسمی صاحب کی گرفتاری ۶؍ جنوری کو عمل میں آئی۔اس کے بعد جیسے ہی یہ خبر میڈیا میں آئی ہر طرف الکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں ایک کہرام مچ گیا۔پھر کیا تھا الکٹرانک میڈیا نے اپنے سر پر پہاڑ اٹھالیا اور ہر طرف ایک ہی خبر گردش کرنے لگی ۔ بنگلور سے خونخوار القاعدہ کادہشت گرد پکڑا گیا اور نہ جانے کن کن القاب سے نوازاجانے لگا۔دوسری طرف ہر جگہ سے مولانا کی حمایت میں مذمتی بیان، احتجاجی دھرنا کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا لیکن ہمارے یہاں مسلم اراکین پارلیمنٹ و ممبران اسمبلی کی بے حسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ ایسے معاملات میں ابھی بھی خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔ آخر الیکشن میں انھیں اقتدار تک پہنچانے میں انھیں مذہبی رہنماؤں کا اہم رول ہوتا ہے۔ آج جس طرح وہ خاموش دکھائی دے ر ہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا کی حق گوئی و بے باکی سے وہ خوش نہیں تھے ۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ جس شخص نے دین اسلام کی دعوت کے لئے اپنے پورے اوقات کو دین کی حفاظت ، نوجوانوں کی اصلاح، عریانیت و بے پردگی کے خلاف لڑتا رہا اور اسلام کی حقانیت کو عام کرتا رہا اس پرکچھ لوگ طعنے کس ر ہے ہیں اور خوشی کے ترانے گنگنارہے ہیں اس سے بدبختی اور بدقسمتی ہماری اور کیا ہوسکتی ہے۔کیا لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ مولانا کے اصلاحی بیانات سے کتنوں کی کایاپلٹ گئی، کتنے راہ راست پر آگئے، کتنے اپنے گناہوں اور بری عادتوں سے تائب ہوگئے۔مولانا کے چاہنے والوں میں جہاں بلندو بالامحلات میں رہنے والے لوگ ہیں تو وہیں غریب و نادار، رکشاپولر، ٹھیلے لگانے والے بھی کثیر تعدادمیں ہیں۔جن کی رہبری و رہنمائی مولانا کرتے آئے ہیں۔مولانا کے کام سے حکومت بھی واقف ہے۔مولانا پر حکومت کے کارندوں کی کڑی نظر ایک عرصہ ء درازسے تھی یہی وجہ ہے کہ یہاں کے پولیس نے اپنا صاف و واضح بیان دے دیا کہ مولانا پر کوئی کیس نہیں ہے۔ اس کے باوجود دہلی اے ٹی ایس کا مولانا کو ڈرامای انداز سے گرفتار کرنااور پھر میڈیا کے سامنے ننگے سر، مجرم کی طرح پیش کرنا اور بکاؤ میڈیا کا طرح طرح سے فقرے کسنا اور الگ الگ زاویے سے مولانا کو پیش کرنا اس کی اجازت صحافت کے کس قانون میں روا ہے۔ایسے لوگوں کو صحافت جیسے معتبرو مقدس پیشہ سے کس نے جوڑ دیا ہے؟ کیا صحافتی رو سے یہ سب روا ہے؟صحافت کے بھی کچھ اصول وقوانین ہوتے ہیں۔آج جس طرح سے الیکٹرانک میڈیا کا دوغلا پن سامنے آرہا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پورا الکٹرانک میڈیا صیہونی و فرقہ پرست طاقتوں کے ہاتھوں بک چکا ہے ۔جس شخص کے سر سے کبھی ٹوپی نہیں اترتی اُسے بغیر ٹوپی کے ننگے سر عوام کے سامنے میڈیانے کیوں پیش کیا؟ اس سے ان کی بد ذہنیت کی صاف عکاسی ہوتی ہے۔ جرم ثابت ہونے سے پہلے میڈیا کے لوگوں نے کیوں دہشت گرد، آتنک واد اور Terrorist جیسے الفاظ کا استعمال کیا؟کیا یہ سب چبھتے دل دھانے والے سوالات نہیں ہیں جس پر میڈیا کو گرفت میں لیا جاسکتا ہے۔بغور دیکھا جائے تو ان سب معاملات میں سب سے بڑااور بھیانک کردار یہاں کی میڈیا ادا کررہی ہے ۔جانچ و تفتیش کے نام پر حراست میں لئے گئے شخص کودہشت گرداور آتنک واد کے الفاظ و القاب سے نوازتی رہتی ہے۔ پولس کہتی ہے کہ ابھی تفتیش جاری ہے اور میڈیا والے دکھاتے ہیں کہ خطرناک خونخوار دہشت گرد پکڑا گیا۔یہ عوام پر نفسیاتی حملہ کرتے رہتے ہیں اور الفاظ کے جادوسے لوگوں کے ذہنوں میں ایک اچھی شبیہ والے شخص کو دہشت گرد اور ناجانے کیا کیاثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کیا میڈیا کی آزادی کا مطلب یہی ہے؟
مدارس و مکاتب کے لوگوں کو خاص کرحق بولنے اور حق لکھنے والوں اور اہم بڑے مدارس کے فضلا کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے؟ اس کے پس پردہ کون سی حکمت عملی ہے؟سفید صاف ستہرے لباس میں قرآن پڑھنے والے، ٹوپی کرتا ، تسبیح ومسواک والے دیش دھروہی اور بھگوا رنگ پہنے والے ہاتھ میں لاٹھی ڈنڈااورتیرو ترشول کی مشق کرنے والے دیش بھکت نظر آرہے ہیں۔میڈیا آسارام ، سادھوی اور کرنل پروہت کے کارناموں کو عوام کے سامنے طشت ازبام کیوں نہیں کرتا۔کیا پریس اور میڈیا کی آزادی کامطلب یہی ہے؟
آج ہم ان مسلم صحافیوں سے بھی سوال کرتے ہیں جنھوں نے اُردو اخبارات کو اپنی روزی روٹی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں ان کا قلم کیوں خاموش ہے؟ ہمارے دینی اداروں پر حملہ ؟ ہمارے نبی پر حملہ؟ ہمارے بزرگوں پر حملہ؟ہماری تہذیب پر حملہ ہورہا ہے اور ہماراقلم خاموش ہے۔ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ننگا ناچ دیکھ رہے ہیں۔ کیا ہمیں سچائی کو سامنے نہیں لانا چاہئے اس کی تحقیق و تفتیش نہیں کرنی چاہئے۔کیا ایک مسلم صحافی کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ معاملہ کی صحیح جانچ پڑتال کرکے عوام کے سامنے پیش کرے۔آج ہم اپنے آپسی مسائل کو، فرقوں اور مسلکوں کی خبروں کو نمایاں طور پر جلی حروف میں پیش کرتے ہیں اورجب غیر ہم پر یلغار کرتا ہے اور ہماری شبیہ بگاڑ کر پیش کرتا ہے تو اس کے لئے ہمارے اُردواخبار کو جگہ نہیں ملتی،یہ کہاں کا انصاف ہے۔کیا ہمارا کلمہ ایک نہیں، کیا ہمارا قرآن ایک نہیں، کیا ہمارا نبی ایک نہیں، جب سب کچھ ہمارا ایک ہے تو ہم مل کر صدائے احتجاج کیوں بلند نہیں کرتے؟ اپنا پرامن احتجاج کیوں درج نہیں کراتے؟ اے مسلمانو! اللہ کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرو۔ورنہ وہ دن د ور نہیں جب ہمارے پیروں میں بیڑیاں ہوں گی ، ہماری آواز کوئی سننے والا نہیں ہوگا۔ہماری آہ و بکا پر ہنسے والے تو ہوں گے لیکن اس پر کان دھرنے والا کوئی نہیں ہوگا ،قبل اس کے کہ ایسے حالات پیش آئیں ہمیں حکومت کو صاف صاف لفظوں میں انتباہ دے دینا چاہئے کہ حکومت ہمارے ساتھ انصاف کرے، ہمارے حقوق کی حفاظت کرے، ہماری عبادت گاہوں کی حفاظت کرے۔ہمارے مذہبی رہنماؤں کو نشانہ نہ بنائے۔ان کے ساتھ انصاف کرے۔ان کی انکوائری ضرورکرے مگر ٹھیک لوگوں کے ہاتھوں منصف اور حق پسندلوگوں کے ذریعہ ، نہ کہ عہدوں اور تمغوں کے لالچی ،بے انصاف اور ناپاک ذہنیت رکھنے والے آفیسروں سے جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے۔
اس بات سے ہرصاحب نظر واقف ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو یہاں کی عدلیہ پر بھرپور اعتماد و بھروسہ ہے۔اس کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ مسلمانوں نے اس ملک کو اپنے خون جگر سے سینچا ہے۔ اس کی آزادی میں بڑھ چڑھ کر مسلمانوں بالخصوص علماء کرام نے حصہ لیا ہے۔مسلمان اس ملک کے شیرازہ کو بالکل بکھرنے نہیں دینا چاہتا وہ ہمیشہ اس ملک کا وفا دار رہا ہے۔اس کے باوجود اس کو نشانہ بنانادہشت گرد کہنااور اس کے مذہبی رہنماؤں کو زنداں کے حوالہ کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اگر کسی پر شک و شبہ ہے تو اس کی جانچ ہونی چاہئے اور خاطی کو سخت سے سخت سزا دینی چاہئے لیکن جرم ثابت ہونے کے بعد یہ سب کیا جائے۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ ابھی تک دہشت گردی کے نام پر جن مذہبی رہنماؤں کو گرفتار کیاگیا ان میں سے کوئی اس کا مرتکب نہیں رہاہر ایک کی بے گناہی ثابت ہوچکی ہے چاہے وہ مولانا عبدالقیوم ہوں یا پھر مولانا عبد القوی ہر ایک کوعدالت نے بے قصور ثابت کرکے باعزت بری کیا ہے۔مجھے امید ہے کہ مولانا کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگا۔ مولانا کا اگر کچھ جرم ہوسکتا ہے تو وہ ہے حق کو حق کہنا ، جھوٹ کو جھوٹ کہنا ، دن کو دن کہنا ، رات کو رات کہنا۔اسی لئے مولاناباطل کے دلوں میں ہمیشہ دھڑکتے دل کی طرح برابر چبھتے رہتے ہیں۔
سچ بات یہ ہے کہ مودی حکومت پوری طرح سے ناکام ہوچکی ہے۔ اس پر پردہ ڈالنے کے لئے نئے نئے حربے کا استعمال کرکے لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔اس لئے آئے دن نئے نئے کھیل کھیل رہی ہے۔کبھی رام مند کا ایشو اٹھاتی ہے تو کبھی دہشت گردی کاکبھی لوجہاد کا تو کبھی گھر واپسی کا، یہ سب سیاسی ہتھکنڈے ہیں۔ ان کا یہی منشا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا جو ماحول ہے اسے خراب کیا جائے ۔ ملک میں مسلم دشمنی کی ہوا تیز کی جائے اور پھر ان تمام کا تانا بانا مسلمانوں کے ساتھ جوڑدیا جائے اوریہباور کرایاجائے کہ مسلمان شرپسند ہیں انھیں ملکی امن وامان پسند نہیںیہ اس ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ ہیں۔بہر کیف ایسے موقع پر مسلمانوں کو حکمت عملی کا ثبوت دینا چائے اور جو کچھ کرنا ہے وہ پرامن طریقہ سے ہی کرنا چاہئے۔

SHARE