ثناخوانیِ گلشن کو الفاظ کا پابند نہ کر
عمر فاروق قاسمی
موہن بھاگوت کے ایک ناروا بیان کے صحیح ردِ عمل پر ہمارے کچھ روشن خیال لیڈران بھاگوت کے بیان کی تردید کے بجائے اویسی ہی کو طعنہ و تشنیع کا نشانہ بنارہے ہیں، کچھ لوگ اس بھارت ماتا کی جے کے تلفظ میں شرعی جواز تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور اس مردِمیداں ہی پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ بھارت ماتا کی جے کہنا جائز ہے یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ اک اختیاری چیز پر جبر کیسا؟ بھارت ایک سیکولر اور آزاد ملک ہے، عظمت کے اظہار کے لئے ہمارے پاس الفاظ موجود ہیں تو ہم دوسروں کے محتاج اور مجبور کیوں ہوں، اس لیے اویسی کی لڑائی بالکل صحیح ہے، ایک مباح چیز پر جبر کیسا؛؟ لا اِجبار علی التبرعات۔
تعجب کی بات ہے کہ لوگ اویسی کو کوس رہے ہیں۔ کیا ہندوستان میں ہم اتنے مجبور ہو گئے ہیں کہ کسی ناروا سوال کا صحیح جواب بھی نہیں دے سکتے ہیں؛؟ اویسی نے موہن بھاگوت کا جواب ہی تو دیا تھا، لوگ کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں کہ کآر ایس ایس تھپکی دے کر آہستہ آہستہ اپنی تہذیب کو مسلط کر رہا ہے اور حق اختیار کو بھی چھین لینا چاہتا ہے، اویسی کی لڑائی حق اختیار کو چھیننے والے کے خلاف ہے، نام نہاد سیکولر پارٹیاں کہاں ہیں جو مسلمانوں کا دم بھرتی ہیں اور میڈیا کے سامنے بھگوا جماعتوں کو گالیاں دیتی ہیں سچ کہا کسی نے الکفر ملۃ واحدۃ ۔
یاد رکھیں ہمارے یہاں جو ماں اور مادر کا تصور ہے وہ صرف اور صرف ایک خونی اور نسبی رشتہ کا ہے اس کے علاوہ اشیاء پر مجازاً کسی بھی شئے کی اصل اور بنیاد یا جڑ ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن ہندؤں کے یہاں ماتا کا اطلاق جب اپنی نسبی ماں پر ہوتا ہے تو اس وقت نسبی ماں مراد ہوتی ہے لیکن جب اس کے علاوہ پر اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے تو کہیں نہ کہیں وہ ذات مراد ہوتی ہے جو لائقِ پرستش بھی ہو جیسے درگا ماتا، کالی ماتا، گنگا ماتا اور بھارت ماتا وغیرہ،اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ساری کی ساری چیزیں ان کے یہاں لائقِ پرستش ہیں ،ہمارے ہاں نہیں،ہمارے لیے بھارت ماتا کی جے بالارادہ کہنا کہاں تک جائز ہوگا، یہ تو علمائے کرام ہی بتائیں گے، تاہم غیرمناسب تو معلوم ہوتا ہی ہے۔ سب سے عمدہ بات تو یہ کہ یہ میرے اختیار کا مسئلہ ہے، حق اختیار سے ہم دستبردار کیوں ہو جائیں؛؟اس تناظر میں اویسی کی لڑائی بالکل صحیح ہے۔ اویسی اور وارث پٹھان کی جرآت کو ہم سلام کرتے ہیں کہ اس دور پرفتن میں جب کہ الحاد و ارتداد اور خدا بیزاری کی آندھی اور طوفان اپنے ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر خرمنِ اسلامی کو خاکستر کرتا جا رہا ہے اور مسلم سرکاری ملازمین، مسلم افسران اور سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ اس قسم کے جبریہ ترانے اور نعرے کو وہاں کے جبری ماحول میں پڑھنے پر مجبور ہیں اور بہت سارے کمزور دل مسلمان حالات سے سمجھوتہ کرنے ہی میں بھلائی محسوس کرتے ہوئے بصد شوق اس سے بڑھ کر شرکیہ ترانے پڑھتے ہیں ۔ اویسی نے قدامت پسند، شدت پسندی اور بنیاد پرستی کے طعنے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے امید کی ایک لو جلائی ہے، ان کے اس بے باک رد عمل سے ہم جیسے سرکاری ملازمین کی ہمت تو بلند ہو ہی گئی، جو مصلحت کی چادر اوڑھ کر ہر چیز پر خاموش ہو جایا کرتے تھے۔
اس موقع سے روشن خیال روشن دماغ جاوید اختر صاحب پر بھی تعجب ہوا، تعجب ان کے بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانے پر نہیں ہوا، کیونکہ ان سے اس سے بھی زیادہ اسلام مخالفت کی امید ہے، ایک سیکولر اسٹیٹ میں ان کو بھی آزادی ہے کہ وہ ملحدانہ زندگی گزاریں یا مذہبی قید و بند کے ساتھ حیاتِ ابدی کے طلب گار بنیں۔ یہ ان کا اختیاری معاملہ ہے ، اور کم از کم ہم جیسے لوگ ان کے اس اختیار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ تو نہیں کریں گے، لیکن یہی اختیار جب اویسی صاحب ان سے مانگ رہے ہیں تو وہ ان کو دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور مطالبہ پر ان کی پیشانی پر بل بھی آگیا اس پر مجھے ضرور تعجب ہوا، اس سے بھی زیادہ تعجب اویسی کے جواب میں ان کی دلیل پر ہوا، اویسی کے اس سوال پر کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ بھارت ماتا کی جے کہنا ضروری ہے انہوں نے کہا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ شیروانی، ٹوپی، کرتا پاجامہ پہن کر آنا چاہیے، اس بیوقوفانہ سوال پر کافی تعجب ہوا، اگر وہ آنکھوں پر آر ایس ایس کا چشمہ لگا کر آئین کا مطالعہ نہ کرتے تو آئین کے بنیادی حقوق والے دفعات ان کی نظروں کے سامنے سے ضرور گزرتے، جو بھارت کے ہر شہری کو اپنے مذہب، سماجی اور علاقائی رسم و رواج، خاندانی طور طریقوں کے مطابق لباس پہن کر نکلنے، رہنے اور زندگی گزارنے کی اجازت دیتا ہے۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار قومی اہلیتی ٹسٹ (نیٹ) پاس ہیں اور ودّیا پتی ہائی اسکول بسفی میں استاد ہیں)