شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
قرآن مجید وہ کتاب الٰہی ہے جو تمام انسانیت کی رہنمائی کے لئے ہے ، اسی لئے اس نے اپنا تعارف ’’ ھدی للناس ‘‘ ( سورۃ بقرہ:۱۸۵) سے کرایا ہے اور پیغمبر اسلامؐ کی نبوت بھی پوری انسانیت کے لئے ہے : ’’ وما ارسلناک الا رحمۃ للعلمین ‘‘ ( سورۃ انبیاء:۱۰۷) نہ اس میں زمانہ و عہد کی قید ہے ، نہ کسی علاقہ ، کسی ملک اور کسی نسل کی ، اسی طرح انسان جس طرح کی بھی صورتِ حال سے دوچار ہو، اور اسے جو بھی مسائل درپیش ہوں ، قرآن اور پیغمبر اسلام اکی سیرت و سنت اس کی رہبری کرتی ہے ، غرض کہ شریعتِ اسلامی ایک طرف جامع اور ہمہ گیر ہے اور دوسری طرف ابدی اور لافانی ۔
البتہ کتاب و سنت کے ذریعہ بعض مسائل کے متعلق تو ہمیں صریح ، واضح اور متعین رہنمائی ملتی ہے، اور بعض مسائل کے سلسلہ میں اُصول و مقاصد کی رہنمائی کی گئی ہے ، علماء کی ذمہ داری ہے کہ ٹکنالوجی کی ترقی ، جدید آلات و وسائل کی پیدائش ، سیاسی و اقتصادی نظام میں تغیرات ، عرف و رواج کی تبدیلیوں اور اخلاقی قدروں میں آنے والی گراوٹ کی وجہ سے جو نئے مسائل پیدا ہوں ، کتاب و سنت کے بیان کئے ہوئے اُصول و مقاصد سے روشنی حاصل کرکے ان کا حل پیش کریں ، اسی عمل کو اجتہاد کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ، ( سنن ابوداؤد،حدیث نمبر:۲۹۵۳) ہمیشہ علماء اس فریضہ کو انجام دیتے رہے ہیں اور یہی شریعت اسلامی کے دوام و استمرار کا راز ہے ، اجتہاد کی ایک شکل انفرادی اجتہاد ہے کہ مختلف علماء اور اربابِ افتاء ایسے مسائل پر اپنے شخصی فتاویٰ سے عوام کی رہنمائی کریں ، دوسرا طریقہ اجتماعی اجتہاد کا ہے کہ علماء و اربابِ افتاء انفرادی طورپر فتویٰ دینے کے بجائے اجتماعی طورپر غور و فکر کریں ، پھربھی فیصلہ کریں۔
اجتہاد کے یہ دونوں طریقے حدیث سے ثابت ہیں ، رسول اللہ انے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا قاضی بناکر بھیجا تو ان سے استفسار فرمایا : تمہارے سامنے جب کوئی مسئلہ آئے گا تو کس طرح اس کا فیصلہ کروگے ؟ انھوں نے عرض کیا : کتاب اللہ سے ، آپ انے دریافت فرمایا : اگر کتاب اللہ میں نہ ملے ؟ انھوں نے جواب دیا : سنت رسول کے ذریعہ ، آپ نے پوچھا : اگر سنت میں بھی نہیں ملے ؟ انھوں نے عرض کیا : پھر میں اجتہاد کروں گا ، صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی پوری کوشش کروں گا اور اپنی دانست میں کوئی کوتاہی نہیں ہونے دوں گا ، آپ انے ان کے جواب کو پسند فرمایا اور تحسین کی ، ( ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۲۹۵۳) اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں : ایک یہ کہ بعض مسائل ایسے ہوسکتے ہیں ، جن کا صراحت کے ساتھ قرآن و حدیث میں ذکر نہیں ہو ، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ایسے مسائل میں رسول اللہ کے بتائے ہوئے اُصول کے مطابق اجتہاد کرنا چاہئے ، یہ انفرادی اجتہاد کا طریقہ ہے ، جس کی آپ انے حضرت معاذؓ و تعلیم دی ۔
دوسرا طریقہ جیساکہ مذکور ہوا ، اجتماعی اور شورائی اجتہاد کا ہے ، یعنی تنہا ایک شخص اپنے اجتہاد کی بناء پر فتویٰ نہ دے ؛ بلکہ مختلف اہل علم ، اربابِ افتاء ، اور شرعی علوم کے غواص اجتماعی طورپر غور و فکر کے ذریعہ کسی مسئلہ کا حل تلاش کریں اور حسب ضرورت زیر بحث مسائل کے فنی ماہرین سے استفادہ کرتے ہوئے اور صورتِ مسئلہ کو سمجھتے ہوئے کوئی فیصلہ کیا جائے ، اس اجتماعی اجتہاد کا ذکر بھی حدیث میں موجود ہے ، یمن ہی کے ایک اور علاقہ میں رسول اللہ انے حضرت علیؓ کو قاضی بناکر بھیجا اور انھیں ہدایت دی کہ اگر کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو تو تنہا فیصلہ کرنے سے گریز کرو ، ایسے مسائل کے لئے فقہاء اور عابدین کو جمع کرو اور ان کے مشورہ سے طے کرو : ’’ أجمعوا لہ الفقہاء والعابدین و شاوروھم‘‘ ( مجمع البحرین : ۱؍۵۲۲ ، حدیث نمبر : ۱۴۲) فقہاء اور عابدین سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اجتہاد کرنے والی شخصیتیں ایسی ہونی چاہئیں کہ ان میں تفقہ کی شان بھی ہو اور ورع و خشیت بھی ہو ، تفقہ انھیں نادانستہ غلطی سے بچائے گا اور ورع و تقویٰ انھیں دانستہ غلطی سے بچائے گا ۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو اہم نئے مسائل درپیش ہوں ، ان کے حل کے لئے یہی اجتماعی طریقہ زیادہ مفید ہے ، اور سلف صالحین ہی کے عہدسے اجتہاد کی یہ صورت بھی عمل میں آتی رہی ہے، اسی مقصد کے لئے ۱۹۸۹ء میں ممتاز فقیہ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی بنیاد رکھی ، اور طے کیا کہ اس کام کو ضمنی طورپر نہیں ؛ بلکہ مستقل طورپر یہ ادارہ انجام دے ؛ چنانچہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ہر سال اپنا سالانہ فقہی سیمینار منعقدکرتا ہے ، جس میں ملک بھر سے تین سو سے زیادہ علماء و اربابِ افتاء کی شرکت ہوتی ہے ، جن کا مختلف مسالک ، مختلف علاقوں اور ملک کی بڑی دینی جامعات سے تعلق ہوتا ہے ، اس کے علاوہ عالم اسلام اور بیرونی ملکوں سے بھی اہم علمی و فقہی شخصیتیں ان سیمیناروں میں شریک ہوتی ہیں ۔
اب تک اکیڈمی کے ۲۶ ؍ فقہی سیمینار منعقد ہوچکے ہیں ، ان میں عبادات کے علاوہ سماجیات ، معاشیات ، سیاست ، جدید میڈیکل مسائل، تجارت ، انفارمیشن ٹکنالوجی ، مسلمان اقلیتوں کو درپیش چیلنجز وغیرہ موضوعات سے متعلق سینکڑوں مسائل پر تفصیلی غور و فکر کے بعد فیصلے کئے گئے ہیں ، یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ یہ جنوبی ایشیاء میں اجتماعی طورپر نئے فقہی مسائل پر بحث کرنے والا سب سے بڑا اور معتبر فقہی ادارہ ہے ، جس کے فیصلوں کو عالم اسلام میں بھی قدر و وقعت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔
اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ اکیڈمی کے نئے مسائل پر غور و فکر کرنے کا نہج کیا ہے اور تحقیق و تنقیح کے بعد کس طرح فیصلے کئے جاتے ہیں ؟ سب سے پہلا مرحلہ سیمینار میں زیر بحث آنے والے موضوعات کے انتخاب کا ہے ، اس کے لئے سیمینار میں شریک ہونے والے حضرات سے آئندہ سیمینار کے لئے تحریری رائے لی جاتی ہے ، اب تک مختلف سیمیناروں میں جو آراء آئی ہیں ، اس کی مکمل فہرست مرتب کردی گئی ہے ، اکیڈمی کی مجلس علمی بھی عنوانات کے سلسلہ میں اپنا مشورہ پیش کرتی ہے ، جس میں پورے ملک سے ممتاز اہل قلم اور اہل علم شامل ہوتے ہیں ، پھر مجلس منتظمہ ان تمام آراء کو سامنے رکھ کر اور عالمی اور ملکی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ سیمینار کے لئے موضوعات کا انتخاب کرتی ہے ، کوشش کی جاتی ہے کہ یہ موضوعات مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق اور موجودہ حالات و ضروریات سے زیادہ مطابقت رکھنے والے ہوں ۔
اب اس موضوع سے متعلق قابل بحث نکات پر مشتمل سوالنامہ اکیڈمی کے سکریٹریز مرتب کرتے ہیں ، یہ سوالنامہ ملک و بیرون ملک کے فقہاء ،اربابِ افتاء اور اسکالرس کے پاس بھیجا جاتا ہے، اور اگر سوال کا تعلق کسی جدید سائنسی ایجاد ، یا سماجی و معاشی مسئلہ سے ہو تو اس کے عملی اور سائنسی پہلو پر ان شعبوں کے ماہرین سے مقالات لکھائے جاتے ہیں ، یہ مقالات اگر انگریزی میں ہوں تو ان کا اُردو ترجمہ کرایا جاتا ہے اور یہ بھی علماء و اربابِ افتاء کے پاس بھیجا جاتا ہے ؛ تاکہ صورتِ مسئلہ پوری طرح واضح ہوجائے اور وہ اس کی تفصیلات سے واقف ہوجائیں ، ہندوستان میں اہل سنت کے تمام مکاتبِ کر سے متعلق اہم درسگاہوں کے اربابِ افتاء ، نیز ان تمام شخصیتوں کے نام یہ دعوت نامہ جاتا ہے ، جو تصنیف و تالیف ، تدریس ، قضاء یا اور کسی جہت سے فقہ سے مربوط ہوں ۔
اہل علم کی طرف سے جو مقالات آتے ہیں ، ان کی بڑی تعداد ہوتی ہے؛ اس لئے اکیڈمی کے شعبۂ علمی کے رفقاء ان مقالات کی اس طرح تلخیص کرتے ہیں کہ ہر مسئلہ میں تمام مقالہ نگاروں کی رائے آجائے ، اگر اتفاق ہو تو متفقہ رائے ذکر کی جائے اور اختلاف ہو تو اختلافِ رائے کا اظہار کیا جائے نیز مقالہ نگاروں نے کتاب و سنت سے جو استدلال اور فقہاء کی عبارتوں سے جو استشہاد کیا ہو ، اختصار کے ساتھ اس کا بھی ذکر ہو ، یہ تلخیص سیمینار کے موقع سے شرکاء کے درمیان تقسیم کردی جاتی ہے ؛ تاکہ انھیں بحث کرنے میں سہولت ہو ۔
پھر موضوع کے مختلف پہلوؤں کے لئے ’’ عارض‘‘ مقرر کیا جاتا ہے ، اس پہلو سے متعلق تمام مقالات کی فوٹو کاپی انھیں فراہم کی جاتی ہے ، وہ ان مقالات میں پیش کئے ہوئے نقاطِ نظر کو مرتب کرتے ہیں ، جو دلائل آئے ہیں ، ان کا ذکر کرتے ہیں اور پھر کسی ایک نقطۂ نظر کو ترجیح دیتے ہوئے اس کے دلائل اور وجوہ کا ذکر کرتے ہیں ، اب شرکائے سیمینار خود اپنی تحقیق و مطالعہ ، مقالات کی تلخیص اور عارض کی بحث کو سامنے رکھتے ہوئے اظہارِ خیال کرتے ہیں ، تمام ہی شرکاء کو بحث میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے اور اس کے لئے خاصا وقت دیا جاتا ہے ، یہ بحث ریکارڈ کے ذریعہ ٹیپ بھی کی جاتی ہے اور ایک صاحبِ علم کو اسی کام کے لئے متعین کیا جاتا ہے کہ وہ مباحثہ کے درمیان آنے والے تمام نکات کو نوٹ کرتے جائیں ، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ پوری بحث نہایت ہی سنجیدہ اور ٹھنڈے ماحول میں حق اور صواب کو حاصل کرنے کے جذبہ سے باہمی احترام کی رعایت کے ساتھ ہوتی ہے اور اختلافِ رائے کی وجہ سے کبھی کوئی ناخوشگواری پیدا نہیں ہوتی ۔
اس موقع سے صورتِ مسئلہ کو واضح کرنے کی ذمہ داری ماہرین کو دی جاتی ہے اور اسی لئے زیر بحث موضوع کی مناسبت سے چند ماہرین بھی سیمینار میں شریک ہوتے ہیں ، انھیں حکم شرعی کے بارے میں اظہارِ خیال کی اجازت نہیں ہوتی ؛ کیوںکہ یہ علماء اور اربابِ افتاء کا حق ہے ،وہ صورت مسئلہ کوواضح کرتے ہیں، بحث مکمل ہونے کے بعد ہر مسئلہ پر تجویز مرتب کرنے کے لئے ایک سب کمیٹی بنادی جاتی ہے ، کمیٹی کے انتخاب میں اس کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ یا تو انھوں نے اس موضوع پر بہتر مقالہ لکھا ہو ، یا نمایاں طورپر بحث میں حصہ لیا ہو ، یا ان کو فتویٰ نویسی کا قدیم تجربہ ہو ، اگر بحث کے دوران اتفاق رائے نہیں ہوسکا تو کمیٹی میں دونوں آراء کے حامل نمائندہ افراد کو شامل کیا جاتا ہے ، اب یہ کمیٹی مقالات اور بحث کے دوران آنے والے نکات کو سامنے رکھتے ہوئے مزید تبادلۂ خیال کے بعد تجویز مرتب کرتی ہے ، پھر کچھ سینئر اور تجربہ کار اہل علم کی ایک کمیٹی ان تجاویز پر نظر ثانی کرتی ہے اور حسبِ ضرورت الفاظ کے نوک و پلک درست کرتی ہے ، اس کے بعد تجاویز سیمینار کے مندوبین کی عمومی مجلس میں پیش کی جاتی ہیں اور بعض اوقات اس مرحلہ میں بھی جزوی ترمیمات کی جاتی ہیں ، نیز سب کمیٹی کی مرتب کی ہوئی تجویز لوگوں پر مسلط نہیں کی جاتی ، جس تجویز پر اتفاق ہوا ہے ، اسے متفقہ حیثیت سے ذکر کیا جاتا ہے ، جس میں شرکاء کی غالب ترین اکثریت کی ایک رائے ہو اور ایک دو اشخاص کو اختلاف ہو ، ان میں پہلی رائے کا بحیثیتِ تجویز ذکر کرتے ہوئے اختلاف رکھنے والے حضرات کے نام ذکر کئے جاتے ہیں، اوراس دوسرے نقطۂ نظر کے حاملین کی بھی مناسب تعداد ہو تو تجویز میں اختلافِ رائے کا ذکر کرتے ہوئے دونوں نقاطِ نظر کو مساویانہ حیثیت میں بیان کیا جاتا ہے اور ہر رائے کے قائلین میں معروف ، نمایاں اور اہم شخصیتوں کا بھی ذکر کردیا جاتا ہے ، پھر جس طرح تجاویز سیمینار میں پیش کی جاتی ہیں ، بعینہٖ اسی طرح اسے طبع کیا جاتا ہے ، یہ ہے اکیڈمی کا وہ محتاط ، منصفانہ اور شورائی طریقہ غور و فکر جو احکام شرعیہ کے حل کرنے میں اختیار کیا جاتا ہے ۔
ابھی ۲۵تا ۲۷؍ نومبر ۲۰۱۷ء کو عروس البلاد ممبئی میں اس کا ستائیسواں فقہی سیمینار منعقد ہونے جارہا ہے ، جس میں چار نہایت اہم مسائل زیر بحث آئیں گے ، پہلا مسئلہ مطلقہ عورتوں کو درپیش مسائل کا حل ہے ، جو لوگ بے سہارا ہوجاتے تھے ، اسلامی حکومت میں بیت المال کے ذریعہ ان کی کفالت کی جاتی تھی ، ظاہر ہے ہندوستان جیسے ملک میں یہ نظام قائم نہیں ہے ، اس صورتِ حال میں خاندان کی کیا ذمہ داریاں ہیں ، سماج کے کیا فرائض ہیں اور شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے سابق شوہر سے اسے کیا مدد مل سکتی ہے ؟ یہ مسائل اور طلاق کی بعض خاص صورتوں کے بارے میں غور کیا جائے گا اور اُمید ہے کہ اس سے مطلقہ کے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی ۔
دوسرا مسئلہ دینی ماحول کے ساتھ عصری تعلیمی اداروں کے قیام اور طریقۂ کار کا ہے ، اسلام کی نظر میں ہر وہ علم مطلوب ہے جو انسانیت کے لئے نفع بخش ہو ، اسلام عصری تعلیمی اداروں کا مخالف نہیں ؛ لیکن وہ چاہتا ہے کہ جو بھی کام انجام دیا جائے ، اس طرح انجام دیا جائے کہ شریعت کا دامن نہ چھوٹے اور اخلاقی قدریں پامال نہ ہوں ، اسی پس منظر میں ان مسائل پر غور و خوض کیا جائے گا ، جو مسلمانوں کے زیر انتظام چلنے والے عصری تعلیمی اداروں کو درپیش ہیں اور ان حدود و آداب کو پیش کیا جائے گا ، جن کی رعایت بحیثیت مسلمان ہمارے لئے ضروری ہے ۔
تیسرا عنوان حیوانات سے متعلق ہے ، حیوانات کے بارے میں اسلام کی تعلیمات کیا ہیں ؟ جانوروں سے متعلق ملکی قوانین کے بارے میں ایک مسلمان کا کیا رویہ ہونا چاہئے ؟ یہ بڑا اہم موضوع ہے ، اس سے جہاں مسلمانوں کی رہنمائی ہوگی ، وہیں غیر مسلموں تک اسلام کی رحمدلانہ تعلیمات پہنچیں گی اور بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے گا ۔
چوتھا مسئلہ جس پر سیمینار میں بحث ہوگی ، وہ ہے:’’ مکانات کی خرید و فروخت ‘‘ کا مسئلہ ، دیہی آبادیاں تیزی سے شہر کی طرف منتقل ہورہی ہیں اور شہر میں زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ پڑ رہی ہے ، اس کا نتیجہ ہے کہ شہر فلک بوس عمارتوں کا جنگل بنتا جارہا ہے ، اس لئے آج فلیٹس کی خرید و فروخت سب سے اہم تجارت بن گئی ہے ، اس تجارت میں ایک ناپسندیدہ صورت حال یہ پیدا ہوگئی ہے کہ حکومت سلم آبادی کی جھونپڑیوں میں آباد غریبوں کو فلیٹ دیتی ہے ؛ تاکہ وہ خود تکلیف سے بچیں اور دوسرے لوگوں کے لئے بھی تکلیف کاباعث نہیں بنیں؛ لیکن افسوس کہ یہ فلیٹ بھی غیر قانونی طورپر فروخت کردیئے جاتے ہیں اور مسئلہ جہاں کا تہاں باقی رہتا ہے ، نیز تجارت کے اس شعبہ میں اور بھی بہت سے ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں جو شرعی نقطۂ نظر سے قابل غور ہیں ، اسی پس منظر میں اس عنوان کا انتخاب کیا گیا ہے اور اُمید ہے کہ اکیڈمی کے فیصلوں سے مکانات کی خرید و فروخت سے متعلق شرعی مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی ۔
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے علاوہ ہندوستان میں، مسلم اقلیت ممالک میں اور مسلم ممالک میں جدید شرعی مسائل کو حل کرنے کے اور بھی کئی ادارے قائم ہیں ، یہ اس بات کی علامت ہے کہ شریعت اسلامی ایک دائمی قانون ہے ، وہ ہر دور اور ہر عہد میں انسانیت کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور بحیثیت مسلمان ہمارا فریضہ ہے کہ ہم زندگی کے تمام مسائل میں اسلام سے روشنی حاصل کریں اور مغربی تہذیب یا دنیا کے کسی اور نظام کے سامنے کاسہ گدائی نہ پھیلائیں ۔
(ملت ٹائمز)