شیخ عبدالمعید مدنی
سنگھی سرگرمیاں
آنجہانی مہنت رام چندر اپرم ہنس چیرمین رام جنم بھومی نیا س اینڈ ٹرسٹ اپنا خیال نوے کے دہے میں دہرایا کرتے تھے۔
“The sangh Pirllar strategy to wrest Geographical Social and Cultural Control of the Country was a Work in Prograss Lasting Several Decades and it Moves on in Starats and Spurts Highs and Lows Shocok and awe as also thrust and reterat”
سنگھ کا اساسی نظریاتی منصوبہ ہے کہ اسے ملک پر جغرافیائی، سماجی اور تہذیبی غلبہ حاصل ہو جائے اور ملک پر اس کا قبضہ ہو جاے، اس کے لیے عمل جاری ہے اور روبہ ترقی ہے، اس راہ میں کئی دہے لگ سکتے ہیں۔
سنگھ پر یوار کی یہی کہانی ہے اوریہی کل اس کا لیکھا جوکھا منصوبہ عمل ، خیال اورنظریہ ہے۔ چند جملوں میں اس سے بہتراس کا خاکہ کھینچا بھی نہیں جاسکتا۔ سنگھ پریوار ملک پر تہذیبی سماجی اورجغرافیائی بالا دستی حاصل کرنے کے لئے کئی دہائیوں سے لگی ہوئی ہے۔ اس نے اس کے لئے ہرممکن اورہرجائز ناجائز کی تیاری کرلی ہے اوراس راہ میں ہر جائز ناجائز عمل کوروا رکھا ہے بلکہ سیکولر دستورکی پامالی ہی میں اسے کامیابی کی راہ نظرآتی ہے۔ سنگھ پریواروہی سب کچھ کررہا ہے جو مہنت نے کہاہے، جس طرح اس نے کہا ہے، اسی طرح شروعات بھی ہیں سرعتیں بھی ہیں ، رفعتیں بھی ہیں اورپستیاں بھی ہیں، حیرتیں بھی ہیں عجوبہ کاریاں بھی ہیں ۔دھمکیا ں بھی ہیں جذبات بھی ہے ۔دبنگیاں بھی ہیں اورقتل وخوں ریزیاں بھی ہیں اور یہ عمل رکا بھی نہیں، مسلسل جاری ہے اورہدف کے قریب پہنچ بھی رہاہے۔
غیر منقسم ہندوستان ایک خوبصورت ملک تھا، مغلوں نے اسے سجایا بنایا اوردنیا کا خوبصورت ترین، امیر ترین اورمتحد ترین ملک بنادیا ۱۶ویں ۱۷ویں اور۱۸ویں تین صدیوں میں دنیا کی کل معاشیات میں ہندوستان کا حصہ ۲۵فیصد۲۴فیصد اورساڑھے تیئس فیصد تھا، لیکن یورپ کے استعماری ڈاکوؤں کے قدم جمانے کے بعد ملک بھکاربھی ہوا، اس کا حسن بھی گیا، اوراس کی وحدت بھی گئی۔ اس نے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اورصلیبیت کی حاسدانہ آگ بجھائی۔ اس نے ایسے فریب خوردہ لوگوں کو چن لیا جو استخلاص وطن کی جدوجہد سے دور تھے اورانھیں فرقہ پرستی کے زہریلے افکار ا سے بھردیا۔
گائے کی سیاست
سنگھ پریوار کو فرقہ پرستی کا زہر شیوا جی اور اس کے جنگل راج سے ملتا ہے۔ پوری تاریخ ہند میں اسے صرف شیوا جی اوراس کے خیالی مرہٹہ حکومت سے انسپائزیشن ملتی ہے، اس کا زہریلا انجکشن صلیبیت نے لگایا، پھراسے فرقہ پرستی کے زہر کا ایک سنگ میل پنجاب میں دیانند سرسوتی کی شکل میں ملا۔ قافلہ اور آگے بڑھا، پھر تومہاراشٹر، اترپردیش ، اوربنگال سے زہریلے نیتاؤں کی ایک فصل اگ آئی، ہندواحیاء پرستی کا دور دورہ ہوا، شدھی وسنگھٹن کا تباہ کن ریلا آیا اورپورے ملک میں فرقہ پرستی کا زہر ہی زہر پھیل گیا،اس کے اثرات اتنے بڑھے کہ ملک میں تقسیم ہند کی بنیاد پڑگئی اورسارا ملک زہر آلود ہوگیا۔ آریہ سماج کے آتشیں کو کھ سے ہندومہاسبھا ، جن سنگھ اور آرایس ایس نے جنم لیا، آریس اس نے جنم لیا، آرایس ایس سے پورے ملک میں ان گنت نربھک چھک، نسل کش اودلا پیدا ہوئی۔ شیوسینا ، وی ایچ پی، ہندو یواواہنی، بے شمار گؤ رکشک انجمنیں ، بے شمار علاقائی وریاستی مسلم دشمن تنظیمیں، ان کے سوا ان کی برانچ ہرقریہ میں قائم ہوتی جارہی ہے۔ اور تہذیبی سماجی تعلیمی ہرطرح کے ادارے قائم ہوچکے ہیں، اور سبھی ہندتونظرےئے کے حامل ہیں۔ ہندوتونظریہ کل کا کل عنصریت اورفاشزم کا نظریہ ہے، انتہا پسندی گپ اوردہشت گردی کا نظریہ ہے۔ نظریاتی امور عوام کی پکڑسے باہر ہوتے ہیں۔ ان انتہا پسندانہ نظریات کو متشددانہ عمل میں ڈھالنے کے لئے آرایس ایس نے لٹھ بازوں کی فوج تیار کی اوران کو مسلمانوں کو چھیڑنے اور مساجد سے گذرتے مختلف تہواروں کے موقعوں پر زور سے باجا بجانے کا حکم دیا۔ پھر فساد کرنے گھروں کو جلانے، معصوموں کو مارنے کا کام۔ تشدد کا یہ عمل مسلمانوں کے خلاف جاری رہا۔ دراصل آریہ سماجیوں کے شدھی اورسنگٹھن اور مسلمانوں کے خلاف تشدد اور جارحیت کے عمل کا آرایس ایس وارث بن چکی تھی ۔ مسلمانو ں کی نسل کشی کا یہ پہلا فارمولہ تھا۔
اس سے بڑا فارمولہ مسلمانوں کی نسل کشی اورخوں ریزی کا ہے گؤ کشی اورگؤ رکشاکا، ویدک پیریڈ اس کے بعدپر ان پریڈ میں گائے کو تقدس کا درجہ حاصل نہیں تھا، آرین بتوں اندروغیرہ کے لئے خاص کرگائے کی قربانی بہت پسندیدہ تھی، رگ وید میں اس کا بار بار ذکر آیا ہے ۔ پران پیریڈ میں بہت سے سادھوؤں کی پسندیدہ غذاگائے کا گوشت تھا۔ اور عوام میں تواس کے گوشت کھانے کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ تھی ہی نہیں۔ گائے کی اہمیت موریہ دور میں شروع ہوئی، لیکن اس سلسلے میں عوام میں کوئی مسئلہ تقدس نہیں بنا تھا بعدمیں چل کر اسے اللہ کا اوتار مان لیا گیا ۔ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق اللہ کے ۱۴؍اوتارہیں یعنی وہ اپنی مختلف مخلوقات کی شکل اختیار کرکے اس دھرتی پر اترآیا، اس میں سے ایک گائے بھی ہے۔ اس لیے اس کا پورا وجود مقدس ہے اور’’پنج گپ‘‘ ہندوعقیدے کے مطابق سب سے زیادہ مقدس کھانا ہے دودھ، دہی، گھی، گوبر، پیشاب، ان پانچوں کو ملاکر ہاتھ کے انگوٹھے اورشہادت کی انگلی کے درمیان کے بالکل پچھلے حصہ میں انھیں رکھ کر کھانا سب سے زیادہ بابرکت کام ہے۔
گائے کو سیاسی فرقہ وارانہ جذباتی مسئلہ سب سے پہلے شیواجی نے بنایا، ہندوؤں کے جذبات کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے اوراس کے سہارے خودکو مضبوط بنانے کے جذبے نے اس کومجبور کیا کہ ’’تحفظ گاؤ‘‘ کا نعرہ لگائے۔ ۱۸۹۲میں دیانند سرسوتی نے تحفظ گائے کے لئے گؤ شالوں کی تحریک چلائی اور گؤرکشا سبھا قائم کی۔ عجیب بات ہے آریہ سماج کے بانی کی یہ رہنما بت پرستی کی مخالفت بھی کرتا تھا اورگائے کو اللہ کا اوتار مانتا تھا اورگائے کو تحفظ دینے کی بات کرتا تھا۔ اس نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف متحد کرنے کے لئے یہ چال چلی تھی۔
دراصل گائے کو حساس فرقہ وارانہ سیاسی قضیہ مہاراشٹر کے برہمنوں نے بنایا اوریہی برہمنیت کی پہچان بن گئی، لیکن ان کی مکاریوں نے اسے ہندوشناخت بنادی۔ اورہندو احیاء پرستی کا مشن شدھی اورشنگھٹن نے کانگریس کے بہت سے لیڈروں کو فرقہ پرست بنادیاتھا۔ ہندومہاسبھا اورہندو احیاء پرست لیڈروں کے علاوہ متحدہ قومیت کا نعرہ لگانے والوں کی بڑی تعداد کے لئے گائے کا مسئلہ بہت حساس بن گیا تھا۔ پنڈت مدن موہن مالویہ اس کے خاص پرچارک تھے۔ گاندھی بھی زندگی بھر گؤ رکشا اوررام راج کا نعرہ لگاکر تمام ہندوؤں کے لئے اوتار بننے کا ناٹک کرتے رہے۔ اس غلیظ فرقہ پرستی اورمنافقت نے ملک کے اندر خونیں تقسیم کو بلاوا دیا اوراہنسا کے جھوٹے پیامبروں کی ناک کے نیچے خون کی ندیاں بہ گئیں اوردولخت ملک کے درمیان ہمیشہ کے ئے خونی لکیر حائل ہوگئی پھر برصغیر کے تمام مسلمانوں کے لئے پورا خطہ جہنم زار بن گیا۔
تقسیم ملک کے بعدمسلمان مستقلا سنگھ پریوار کی ننگی جارحیت کا نشانہ بن گئے۔ گائے کا حساس مسئلہ ان کے بقا اور فروغ کے لئے سب سے اہم اورمرکزی عنوان بن گیا۔ اورسارے ملک میں اب سب سے زیادہ اہم گائے ہے گایوں کی کمی نہیں ۔ کہیں بھی گائے کے نام پر مسلمانوں کا بلیدان آسان ہے۔ رام جنم بھومی ایک ہے اسے اٹھاکر ہرجگہ نہیں لے جایاجاسکتا اس لئے بابری مسجد، اردو زبان مسلم یونیورسٹی، سول کوڈ، پاکستانی میچ اورفن کاروقتی اورعلاقائی مسائل بن گئے ہیں۔ اس وقت گائے کے تحفظ کا مسئلہ ملک کا سب سے زیادہ ہیجانی مسئلہ بن گیا ہے۔
بروقت سنگھ پریوار کی حکمت عملی یہی ہے کہ گائے کے تقد س کا سہارا لے کر اہنسا کے دعوی دار مسلمانوں کا خون بہائیں اور ان کی لاشوں پر اپنا محل بنائیں۔ اس وقت ان کی سیاسی ضرورت ہے اوریہ ضرورت ہرسنگھی کے اوپر بھوت بن کر سوار ہے کہ گائے کے تقد س اور تحفظ کا پرچم لے کر سارے ہندوستا ن میں خون کی ندیاں بہادیں اورسارے ہندوستان کو سنگھی بناکر مستقلا حکومت کرتے رہیں۔ ہندوستان پر غلبے اورتسلط کا یہ بھوت!اورجمہوریت حکومت میں !!یہ ہے سنگھی فاشزم کی سب سے خطرناک شکل اورہند توسنگھی قومیت پرستی کی ننگی جارحیت جو فاشسٹ جرمنی کی ٹروکاپی ہے۔
سنگھی فخرومباحات
سنگھیوں نے اپنے احساس مظلومیت اورذلت کو سیاسی نفاق کے طور پر صدیوں کے واقعات اوراحداث کی جھوٹی تعبیرات و تشریحات سے پالا ہے اور بظاہر اسے احساس تفاخر میں بدل ڈالا ہے، ان سیاہ قلب کی ظلمت میں ان تاریخ میں سب حکمراں خاص کر اورنگ زیب ظالم اور خونخوار تھے۔ تاریخ کا اہم موڑ سنگھی کے نزدیک اورنگزیب بمقابلہ شیوا جی ہے، جو فی الواقع لوٹ مار کرنے والا ایک ناکام فرد تھا، وہ برہمنی اقتدار کا خواہاں تھا اوراس کا ہتکھنڈہ گائے کا تحفظ وتقدس تھا، اس طرح تاریخ ہندمیں سب سے کمزور انسان ان کا آئیڈیل بن گیا۔ اور تاریخ میں ایک شرمناک تاریخی پوائنٹ، سنگھی گائیڈنس اورفخربن گیا اوروہیں سے احساس ذلت کو چھپانے کے لئے قومی تفاخر کا مسالہ حاصل کیا گیا۔ پھر یہی شرمناک پوائنٹ فخر ومباحات کی بنیاد بن گیا اور تاریخی فخر ومباحات کا سنگھی دیوانہ پن اتنا بڑھا کہ اس کے لئے ہندوستانی تاریخ دنیا میں سب سے شاندار اورعظیم بن گئی۔ انساپائریشن ایک لٹیرے سے ملتی ہے اورکل ہندوستانی تاریخ اس سے روشنی حاصل کرتی ہے اور ساری دنیا سے تابناک بن جاتی ہے۔ یہی نہیں ان کا واہمہ سرزمین ہند کے حکمرانوں کوساری دنیا کا فاتح بنادیتا ہے اورجغرافیائی طورپر ہندوستانیوں کو سارا عالم کا حکمراں مانتے ہیں۔
سنگھی ہندوستانی قومیت کے متوہمانہ خصائص میں یہ بات بھی شامل ہوجاتی ہے کہ اس کی تہذیب دنیا کی ساری تہذیبوں سے برترہے اوردنیا میں آج جو بھی سائنسی ایجادات اورصنعتی ترقیاں ہیں بہت پہلے ہندوستان میں ویدک اور پران ادوارمیں انھیں ایجاد کیا جاچکا تھا۔ اس خرافات اورگپ کو سنگھی رہنما ہرہر سنگھی کے دل ودماغ میں اتارچکے ہیں اوراس پروہ پاگلوں کی طرح اچھلتے پھرتے ہیں اورساری دنیا سے خود کو ممتاز سمجھتے ہیں۔
اورسنگھی قومی تفاخر میں یہ بھی شامل ہے کہ ہندودھرم دنیا کا سب سے بہترین ہے۔ اس سے بہتر دھرم دنیا میں ہے ہی نہیں، جبکہ ادیان ومذاہب کے ماہرین کی اکثریت ہندو دھرم کو افسانے Mythکا درجہ دیتی ہے۔
اس طرح سنگھیوں کے نزدیک سنسکرت زبان دنیا کی سب سے شاندار زبان ہے جبکہ سنگھیوں نے بھی ہندوستان میں اس کو شاندار مقام دلانے میں کوئی کوشش نہیں کی ہے۔
اپنی کہتری کے احساس کو مٹانے کے لئے سنگھیوں نے ان اکاذیب اورافسانوں کا سہارا لیا اور اپنا ٹرننگ پوائنٹ شیواجی کی برہمنیت اورلوٹ مار کو بنایا اور انھیں قومی تفاخر بناکر اپنی جارحیت کا رخ مسلمانوں کی طرف پھیر دیا تاکہ فرقہ وارانہ تعصب پھیلا کر جلد سے جلد سنگھیوں کو طاقت وربنالیں اور دوقطبیت کی اسا س پر ہندوغیر ہندو کا بٹوارہ کردیں اور ہندو ووٹ کو اپنی جھولی میں ڈالے ملک پر چین سے راج کریں۔
اس مقصدکے حصول کے لیے سنگھیوں نے خصوصی منصوبہ بندی کی ، سیاسی اقتدار اوربالا دستی کے لئے پرم ہنس کے خیال کے مطابق سنگھیوں نے اس کے لیے زبردست جمپ لگایا اور اپنے پرانے سیاسی مہارتھیوں کو کنارے لگادیا، ان کی جگہ خونخواروں ، موت کے سوداگروں، عدالتوں کے ذریعہ مجرم قرار پائے قاتلوں اوردہشت گردوں کو آگے بڑھایا۔ میڈیا کو خریدا، ترقی کا خواب دکھلایا اورملک کو مہنگائی غربت اورفرقہ پرستی وفساد سے بھردیا۔ دوسری طرف آرایس ایس کے لٹھ برداروں نے کیبنٹ کا لگام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ ملک کو تباہ کرنے اور اہل وطن کو برباد کرنے پر برابر عوام کو اکساتے ہیں۔ ان غیر انسانی عملوں سے اہل وطن کے اندر نفرتوں ، عداوتوں اور محاسدت کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ گائے کے تحفظ کے نام پر سارے لفنگے روڈ مین اورڈگری یافتہ کرسی والے اور بغیرکرسی والے یکساں طورپر اپنی مسلم دشمنی کا زہر پھیلا رہے ہیں ۔
نفرت انگیز سنگھی سیاست کے عجائبات میں سے ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ لوٹ کھسوٹ کرنے والے، فسادپھیلانے والے۔ آگ لگانے والے علاقائیت کی سیاست کرنے والے اورنا ایشوز پرچلانے والے خود کو محب وطن اورملک کا ٹھیکہ دار ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ اوراقلیتوں کو دیش دروہی ہونے کا فلسفہ بگھارتے ہیں۔ جبکہ یہ چھوٹ بھئے سنگھی نہ دستورکی روشنی میں ملک کا معنی جانتے ہیں، نہ قومیت کا۔ اپنی اقلیت دشمن سرگرمیو ں کی وجہ سے دستورکی روشنی میں یہ خود ملک مخالف بن جاتے ہیں ، ان نامرادوں کو کس نے حق دیا ہے کہ اپنے حق میں محب وطن ہونے کا فتوی صادر کریں اور دوسروں کے متعلق ملک دشمن ہونے کا فتوی صادر کریں ۔دراصل یہ بھی سنگھی دہشت گردی کا ایک عمل ہے۔
۲۱؍ماہ پہلے موجودہ حکومت کی تشکیل ہوئی۔ اس وقت سے اب تک حکومت نے ملک کو صرف فساد مہنگائی اورجھوٹے وعدے دےئے ہیں شروع دن سے یہ حکومت سلبیت کی پٹری پر چل رہی ہے۔ اندرون ملک اوربیرون ملک دونوں جگہ ملک کی ساکھ کمزورہوئی ہے۔
اندرون ملک یہ حال ہے کہ زمام حکومت ایک ڈکٹیٹریا بے حس وناسمجھ کے ہاتھ میں ہے، بالکل سنگھی طرز، پر ایک فردی اکثریت (One man majority)ڈکٹیر اگرقابل ہو اندراگاندھی کی طرح توکچھ دیر تک سیاست کا جلوہ برقرار رہ سکتا ہے، گواس کی تباہیاں بڑی دوررس ہوتی ہیں، لیکن موجودہ ایک فردی اکثریت نے توایسا رویہ اختیار کیا ہے کہ اس نے اپنے بھیڑیوں کو چھوڑرکھا ہے وہ اقلیتوں اوردلتوں کے وجود کو مٹادینے کے درپے ہیں۔ ملک کا سربراہ پارٹی کی حدوں سے اوپر اٹھ نہیں پاتا، اس کی پرپرواز تعصب کی لپٹ سے ناکارہ ہوچکی ہے وہ دور سے اپنے بھیڑیوں کے چیرپھاڑ پر خاموش مسکرارہا ہے، گجرات میں خون مسلم جس کے منہ لگ گیاہے وہ مجبورہے کہ اس چیرپھاڑ پرمسکرائے اورخاموش رہے۔
پورے ملک میں اس کی انتہائی مضرتیں جاری ہیں۔ اب تک اس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے، وکاس اورترقی کے سارے وعدے جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں۔ ملک کا امن عامہ تباہ ہوچکا ہے۔ خود اس کے وزراء اورایم پی جلتی پرتیل ڈالنے کا کام برابر کرتے رہتے ہیں معاشی بدحالی روز بروز بڑھ رہی ہے۔
کانگریس حکومت کے کام اورنظام کو زیروبنانے کی اس کی ہوس نے اسے اندھا بنادیا ہے اوراچھے کام اور نظام کو بھی اس نے بگاڑ کررکھ دیا ہے اورپھر اسے نبابھی نہ سکی۔ سارے سیکولر ادارے بند کرتی جارہی ہے۔ مرکز ی حکومت اورریاستی حکومتیں بھاجپاپارٹی کے طرز پر چلتی ہیں۔ اورسارے سنگھی حکمرانی کی حالت کو بھی پارٹی قیادت کے برابر مان کے چلتے ہیں اورملک کی ہرشے پراپنی ملکیت جتلانے کا مزاج رکھتے ہیں۔ اس کی دعوی داری کا ہنگامہ روز نظرآتاہے۔ سنگھیوں کے سوا لگتاہے ان کے نزدیک دوسرے تمام ہندوستانی ان کے غلام ہیں اوریہ ان کے آقا۔
انھوں نے ملک میں دو قطبی سیاست کو اپنا اہم ترین ترجیحی ایجنڈا بنارکھا ہے اوراسی دوقطبی سیاست کو اپنی حکومت کی بنیاد بنارہے ہیں۔ ماضی میں کانگریس کے منافقانہ رویے نے ملک میں دوقطبی سیاست کو قبول کیا تھا، بلکہ عملا اسے ۱۹۲۰ء سے سری طورپر کانگریسی اپنی سیاست کی بنیادبنائے ہوئے تھے اور سری طورپر اس ایجنڈے پر کام کرتے رہے۔ پچیس سال بعدکھل کر اسے سیاسی صورت حال کا حل تسلیم کر لیا بلکہ کانگریس کی عاملہ نے اسے منظورکرلیا اوراس کی منافقانہ سیاست نے جناح کو بھی اس پر اکسایا اورتقسیم کی راہ پر انھیں سرپٹ دوڑادیا۔ اس کے نتیجے میں اہنسا کے پیامیوں کی ناک کے نیچے شرمناک خونریزی، آب روریزی ہوئی، املاک کی تباہی ہوئی، اس کے نتائج برصغیر میں اتنے بھیانک ثابت ہوئے کہ اب تک اس کا سلسلہ رکا نہیں، اتنا نقصان جنگ عظیم اول میں نہیں ہوا۔
سنگھی سیاست بھی عملا دوقطبی سیاست ہے پہلے دوقطبی سیاست منافقت کی دلدل میں پروان چڑھی، موجودہ دوقطبی سیاست جارحیت کی گودمیں پرورش پارہی ہے لیکن اس کا بھی انجام تباہی ہے۔ کسی بھی ملک میں کثیر القومیات کثیر المذاہب ملک میں دوقطبی سیاست صرف تباہی لاسکتی ہے دوقطبی سیاست ملک کے دستورکے کلیتا خلاف ہے ۔ بروقت دوقطبی سیاست کرنے والے ایسے بے حس ناعاقبت اندیش، اورزعم باطل کے شکارہیں کہ یہ خود اپنے ہاتھوں سے غیر شعوری طورپر ملک برباد کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔ دہشت گردانہ رویہ فردی ہو یا اجتماعی ہمیشہ تباہی لاتاہے۔ سارے سنگھی دہشت گردی کی راہ اپنا چکے ہیں اورملک کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں اورعجیب بات ہے اپنے غیر دستوری دہشت گردانہ اعمال وافکار کے باوجود خود کو محب وطن کہتے ہیں اگریہی حب الوطنی ہے توہرطرح کی دہشت گردی حب وطنی قرار پائے گی۔
موجودہ حکومت اپنی انتخابی کامیابی سے اس قدر مدہوش ہے اوراس کے اندر اتنا غرور آگیا ہے کہ ملک کا سارا سیاسی معاشی تعلیمی اورتہذیبی تانا بانا جسے دستور کی روشنی میں اگلے حکمرانوں نے استوار کیا ہے حقارت کی نظرسے دیکھی ہے اوراسے ادھیڑکر رکھ دینا چاہتی ہے۔ اب اس کی نگرانی میں تاریخ جغرافیہ ثقافت ، تہذیب اورتعلیم کا بھگوا کرن ہورہا ہے ، معیشت کو بھگوا تجارکی چرنوں میں ڈالا جارہاہے ۔اب ان کا عمل اس محاورے پر ہورہاہے ’’اندھا بانٹے ریوڑی گھرگھرانہ کھائے‘‘ ابھی یہ ملک اوراسباب ملک کو ریوڑی بنائے سنگھیوں میں بانٹ رہے ہیں اوراس کی ریوڑیاں سب سے پہلے دوقطبی سیاست کے نرغے میں آئے میڈیا کو ملیں۔
ملک اور اہل ملک کے خلاف سنگھیوں کی ریشہ دوانیاں بری طرح جاری ہیں ۔ اب تک جیت کا نشہ ان پر سوارہے، انھیں ہر محاذ پر ناکامیاں ہی ہاتھ آرہی ہیں ۔ بیرون ملک بھاجپائی ٹٹو سربراہ حکومت کو خوب سیر کراتے ہیں اورپھر شور کا ایسا سماں باندھتے ہیں کہ جیسے شیر آگیا ہے اور سارے غیرملکی سربراہوں کو چت کرآیا اوران کی دولت کو ہندوستان میں آنے کار راستہ مل گیا جبکہ یہ سارے شورہنگامے فقط بھاجپائی ٹٹوؤں کے ہوتے ہیں غیر ممالک کے میڈیا کے لئے عموما وہ درخوراعتناء ہوتے ہی نہیں۔
اس نادان حکومت کو زبردست طمانچہ یہاں کے سیکولر سائنس دانوں، فلم سازوں ادیبوں اور سیاست دانوں نے لگایا ہے، تقریباً چالیس ادیبوں نے اپنے ایوارڈ لوٹادےئے ہیں، ریٹائرڈ فوجیوں نے انھیں ان کی اوقات بتلادی ہے اورموجودہ حکومت کی دوقطبی سیاست کے مکروہ چہرے سے پردہ ہٹا دیاہے۔ہیروؤں نے اپنے ایوارڈ لوٹادےئے ہیں۔ اور ۱۵۰ملکوں کے فلم کاروں نے ان کا ساتھ دیا ہے سنگھیوں کی دہشت گردیوں نے انھیں ایسا کرنے پر مجبورکیا ۔اس سے ساری دنیا میں ان نافہموں کی سخت رسوائی ہے اورملک بدنام ہوا ہے یہی ہے نادان سیاست کاری کا انجام جس سے ملک کو نقصان ہواہے اوریہ انتہاپسند کینہ پرور اپنی نادان سیاست سے ملک کو نقصان پہنچاتے رہیں گے۔
اپوزیشن بہت کمزورہوگئی ہے کانگریس کی بچکانہ قیادت اتنی مایوس کن ہے کہ ملک کو دستوری راستے پرلوٹانا مشکل ترین کام لگ رہاہے۔ کانگریس کی بچکانہ قیادت نے اسے کھوکھلا کردیا ہے اورجس کا ناجائزفائدہ موجودہ دہشت پسند پارٹی حکومت چلانے میں اٹھا رہی ہے۔(ملت ٹائمز)