عامر ظفر قاسمی
مولانا سلمان ندوی کی پہچان ایک جذباتی عالم دین کے ساتھ منتازع شخصیت کے طور پر ہوگئی ہے ،سرخیوںمیں رہنے کیلئے حق گوئی اور بیباکی کے نام پر اکثر وہ ایسا کچھ بول جاتے ہیں،کچھ لکھ دیتے ہیں یا کوئی کام کر بیٹھتے ہیں جس پر خود انہیں بھی بعد میں افسوس ہوتاہے اور سابقہ باتوں سے رجوع کرتے ہیں،افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے کچھ شاگرد بھی ان کے ہی نقش قدم پر گامز ن ہیں جو ان کی ہر بات کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں مولانا سلمان ندوی ایک مرتبہ پھر سرخیوںمیں ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ تین طلاق پرمودی سرکار کے مجوزہ بل کی انہوں نے حمایت کی ہے ،گذشتہ دنوں رامپور کے ایک اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ” حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تین طلاق دینے والوں کو کوڑا لگاتے تھے اس لئے مودی سرکار اگر تین طلاق دینے والوں کے خلاف بل لارہی ہے اور تین سال کی سزا تجویز کررہی ہے تو یہ کوئی مضائقہ نہیں ہے “۔یہ جملے مولانا کے ہیں جس میں واضح طور پر بی جے پی اور مودی سرکار کی حمایت کی جارہی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ خبر جب ملت ٹائمز نے شائع کی تو مولاناکے کچھ ہم مزاج شاگرد آگ بگولاہوگئے اوراپنی جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے ،ان لوگوںنے حضرت الاستاذ پر ہونے والے اعتراض کا جواب دینے کیلئے ملت ٹائمز کو ٹارگٹ کرنا شروع کردیا ، مولانا کی شخصیت کو داغدار ہونے سے بچانے کیلئے ملت ٹائم پر گھٹیا صحافت اور جھوٹی خبر یں شائع کرنے کا الزام عائد کردیا،عقیدت مندوںنے تاویل کرتے ہوئے یہ بھی لکھ ڈالا کا مولانا کا یہ موقف پراناہے ،ہمیشہ وہ یہ بات کہتے ہیں ، ان پر مودی سرکار کے بل کی حمایت کا الزام غلط ہے ۔ حالاں کہ ممبئی اردو نیوز میں بھی مولانا کے حوالے یہ بات آج شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے حمایت کی ہے ۔مولانا کے عقیدت مندوں سے سوال یہ ہے کہ اگر مولانا کا یہ موقف پراناہے تو اب تک انہوں نے یہ بات کیوں نہیں کہی ۔ایک سال سے مسئلہ زیر بحث ہے کیوں انہوں نے بورڈ میں یہ تجویز نہیں رکھی ،مولانا ٹوئٹر اور فیس بک پر بھی بہت فعال ہیں وہاں بھی انہوں نے اس بارے میں کبھی کچھ نہیں لکھا،قانون بنائے جانے اور بل پیش کئے جانے کی خبروں کے بعد اس طرح کا بیان دینا حمایت نہیں کہلائے گا تو اور کیاکہاجائے گا ۔مولانا اپنی تقریر میں فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کوڑے لگاتے تھے،مولانا کے اس جملے سے ثابت ہوتاہے کہ یہ مستقل سزا تھی جبکہ فقہاءکا اتفاق ہے کہ یہ سزا حاکم وقت کی صوابدید پر مبنی ہے ،نیز فقہاءیہ بھی فرماتے ہیں کہ تین طلاق پر سزا دینے کا اختیار صرف مسلم حکمرانوں کو ہوسکتاہے کسی غیر مسلم کو نہیں ۔ان کے ماضی کے ریکاڈ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اگر کہاجائے کہ ان کا یہ بیان حکومت کے اشارے پر ہے تو بھی جھوٹ نہیں ہوگا ،قارئین کو یادہوگا کہ چند ماہ قبل عمان میں مولانا کے داخلہ پر پابندی عائد کردی گئی تھی تو ای ٹی وی اردو کو انٹر ویو دیتے ہوئے انہوں نے واضح طور پر مودی سرکار کی تعریف کرتے ہوئے کہاتھاکہ سعودی عرب اور دیگر کئی ملکوں کے مقابلے میں ہندوستان کی بی جے پی سرکار بہتر ہے ،مولانا کے ظفر سریش والا سے بھی گہر ے تعلقات ہیں ،آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو یادہوگا ،جے پور کے اجلاس میں ظفر سریش والا تشریف لائے تھے جس کی بنیاد پر بورڈ کوشدید تنقید اور رسوائی کا سامنا کرناپڑا،بعد میں پتہ چلاکہ وزیر اعظیم نرنیدر موی کے انتہائی قریبی ظفر سریش والاکو بورڈ کے اجلاس میں مولانا ندوی ہی لیکر آئے تھے ۔ بات بھی بہت ساروں کو معلوم ہے کہ ظفر سریش والاکے واسطے سے مولانا ندوی نریندر مودی تک اپنی رسائی رکھتے ہیں ۔
ایسے موقع پر جب بورڈ ،تمام مسلم تنظمیں اور علماءتین طلاق پر مجوزہ بل کی مخالفت کررہے ہیں ، اس بل کے سنگین نتائج سے عوام کو آگاہ کررہے ہیں،اس کے تعلق سے بیداری مہم چلارہے ہیں ایسے میں مولانا ندوی کا اس بل کی حمایت کرنا سرکار کی حمایت کرنا نہیں کہلائے گا تو اور کیا کہلائے گا ،یا پھر اس مفہوم کی تعبیر کو بیباکی کا نام دیا جائے گا ۔
اس معاملے میں بورڈ کی قیادت بھی ذمہ دار ہے اور وقت آگیاہے کہ ان کے خلاف ایکشن لیا جائے ، ان کی رکنیت منسوخ کی جائے ۔کیوں کہ یہ بیان بیحد خطرناک ہے اور اس کے اثرات بہت مضر ہوں گے ۔کیوں کہ مسئلہ صرف تین کی سال کی سزا کا نہیں بلکہ کرائم ایکٹ میں شامل کرنے کا ہے اور کرائم ایکٹ میں شامل ہونے کے بعد شوہر کے ساتھ بیو ی کی زندگی بھی تباہ وبرباد ہوجائے گی ۔
خلاصہ یہ کہ مولانا سلمان ندوی کے حوالے سے ایسے واقعات کی لمبی فہرست ہے جس میں انہیں بعد میں رسوائی کا سامناکرناپڑا ہے ،خواہ مولانا ارشدمدنی اور مولانا اصغر علی مہدی سلفی کو مباہلہ کی دعوت دینے کا معاملہ ہو ،یاکسی کو امیر المومنین کا لقب دینے کا ۔
المیہ یہ ہے کہ مولانا کے کچھ شاگرد بھی ان کے نقش قدم پر گامزن ہیں ، جذبات کی انتہاءکو پہونچے ہوئے ہیں،جب جس کو چاہتے ہیں گالیاں دیتے ہیں،برا بھلا کہتے ہیں ،اس کی اہمیت پر سوال قائم کرتے ہیں ۔مولانا کے یہ شاگرد سوشل میڈیا پر ہی سرگرم رہتے ہیں،ہر مسئلہ کا حل وہ ہیش ٹیگ میں تلاشتے ہیں ،انہیں ایسا لگتاہے کہ ہیش ٹیگ کا استعمال ہی اس وقت کی سب سے بڑی طاقت ہے اور ٹوئٹر پرشکایت حل کرنے کے بارے میں کسی وزیر کی طرف سے چلائی گئی پیڈ نیوز کو حقیقت مانتے ہوئے یہ سمجھ چکے ہیں کہ وہاں جس مسئلہ پر شکایت کی جاتی ہے قانونی پر اس بارے میں ایکشن لیا جاتاہے اور مولانا سلمان ندوی صاحب اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں ۔
بات مولانا سلمان ندوی کی ہورہی تھی ،اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مجوزہ بل کی حمایت امت مسلمہ کے متحدہ موقف کے خلاف ہے ،بی جے پی اور اسلام بیزا ر خواتین کو اس بیان سے تقویت بھی ملے گی ،اس لئے بہتر ہوگا کہ مولانا اپنے بیان سے رجوع کرلیں یا پھر بورڈ کی قیادت ان کے خلاف ایکشن لے ۔