راہل پانڈے
امریکہ میں کام کر رہے پانچ لاکھ سے زیادہ آئی ٹی پروفیشنلز پر گھر واپسی کی تلوار لٹک رہی ہے، لیکن مودی حکومت امریکہ سے اس سلسلے میں آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی ہے۔
ایسے وقت میں جب کہ ہند نڑاد ستیہ نڈیلا مائیکرو سافٹ اور سندر پچائی گوگل کے سربراہ ہیں، اس وقت ٹیکنالوجی سیکٹر میں کام کرنے والے پانچ لاکھ سے زیادہ ہندوستانیوں پر ملازمت ختم ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ان لوگوں کو امریکہ سے نکالنے کا حکم مل سکتا ہے کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ ایچ1بی ویزا ضابطوں میں بدلاو کر رہی ہے۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ ستم ظریفی مزید بڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہے جب امریکی صدر کی بیگم بھی امریکہ سے باہر کی ہوں جنھیں 2001 میں امریکہ میں رہنے کا گرین کارڈ ملے محض 16 سال ہی ہوئے ہیں۔ اس کے لیے بھی انھیں 5 سال انتظار کرنا پڑا تھا۔حالانکہ وزیر خارجہ سشما سوراج نے گزشتہ سال ستمبر میں اس ایشو کو امریکہ کے سامنے مضبوطی سے اٹھایا تھا لیکن اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ ہندوستانی ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر اور آئی ٹی سروس کمپنیوں کے ادارہ نیسکام نے بھی امریکہ میں لابی کرنے والوں پر کروڑوں خرچ کیے لیکن یہ کوشش بھی ناکام ہی ثابت ہوئی۔ ایسے میں نیسکام کو شاید حکومت سے براہ راست بات کرنے میں وقت لگانا چاہیے تھا۔ ہو سکتا ہے کہ امریکہ میں کام کرنے والے سبھی ہندوستانی پروفیشنل سشما سوراج کو ٹیگ کر کے اپنی صورت حال سمجھائیں۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ صورت حال بہت سنگین ہے اور اس سے بے حد سنگین مسائل سامنے آ سکتے ہیں۔ ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ایک خبر میں امریکی وزارت داخلہ کے ایک اسفر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ امریکہ کی منشا یہ ہے کہ ایسا ماحول بنایا جائے جس سے ہندوستانی پروفیشنل خود ہی امریکہ چھوڑ کر چلے جائیں اور ان کی جگہ امریکیوں کو ملازمتیں مل سکیں۔ اس سے یہ ہوگا کہ نیا ایچ1بی ویزا ملنا بے حد مشکل ہو جائے گا اور جو لوگ امریکہ میں رہ کر گرین کارڈ کا انتظار کر رہے ہیں انھیں گھر واپس جانا ہوگا۔ان سب باتوں سے معیشت پر تو اثر پڑے گا ہی، لیکن پہلے سے آرٹیفیشیل انٹلیجنس اور آٹومیشن کے دباو میں آئے آئی ٹی اور سافٹ ویئر سروسز صنعت کی تو اس سے کمر ہی ٹوٹ جائے گی۔ حکومت کو اچھی اچھی باتوں سے آگے جا کر مضبوطی کے ساتھ ڈپلومیٹک طریقے اختیار کرنے ہوں گے تاکہ ان لاکھوں لوگوں کا مستقبل محفوظ ہو سکے کیونکہ ان کی وطن واپسی سے ان کے مسائل ختم ہونا تو دور مزید بڑھ جائیں گے۔ متبادل کے طور پر حکومت امریکہ سے دفاع سے متعلق اشیاءخریداری بند کرنے کی دھمکی دے سکتی ہے تاکہ امریکہ پر اس محاذ پر کچھ دباو بن سکے۔امریکہ کے اس قدم سے ہندوستانی آئی ٹی سیکٹر اور ہندوستانی معیشت پر زبردست اثر پڑے گا۔ اس سیکٹر کا زیادہ تر کاروبار بیرون ملکی آپریشنز سے ہی آتا ہے۔ امریکہ کے اس قدم سے نہ صرف ہندوستانی ٹیک پروفیشنلز کو گھر واپس لوٹنا ہوگا بلکہ ٹی سی ایس، انفوسس اور کاگنیجنٹ ٹیکنالوجی جیسی ہندوستانی آئی ٹی کمپنیوں کا منافع بھی بے حد گھٹ جائے گا۔ یہ وہ کمپنیاں ہیں جن کا کاروبار اور منافع ایچ1بی ویزا پر منحصر ہے۔اس قدم کا بالواسطہ اثر ہندوستانی معیشت کو پہنچے گا اور بڑے نقصان سے بچنا مشکل ہوگا۔ ہندوستان میں بیرون ممالک سے آنے والا کل پیسہ تقریباً 65 سے 68 ارب ڈالر ہے جس میں سے تقریباً 10 ارب ڈالر امریکہ سے ہی آتا ہے۔ اس میں بھی بڑا حصہ ایچ1بی ویزا ہولڈر سے آتا ہے۔ وسط مشرق میں تیل معیشت میں سستی کے سبب 2016 میں بیرون ممالک سے آنے والے پیسے میں پہلے ہی 5 فیصد کی کمی ہو چکی ہے۔ امریکہ کے حالات کے بعد تو یہ مزید خطرناک شکل اختیار کر لے گی۔ امریکہ سے لوٹے کچھ پروفیشنلز کو گھریلو کمپنیوں میں جگہ دی جائے گی جس کے سبب یہیں کام کرنے والے لوگوں پر ملازمت سے ہٹائے جانے کا خطرہ منڈلائے گا۔ہندوستانی آئی ٹی سیکٹر کی حالت یوں بھی کوئی بہت اچھی نہیں ہے۔ اس سیکٹر میں تقریباً 40 لاکھ لوگ جڑے ہوئے ہیں اور آئندہ تین سال تقریباً 6 لاکھ لوگوں کی ملازمتیں ختم ہونے کا خطرہ ہے۔ ایسی صورت میں ایچ1بی ویزا کے سبب آئی ٹی کمپنیوں کے منافع میں کمی اور پانچ لاکھ پروفیشنلز کی گھر واپسی سے پورے سیکٹر کی حالت خستہ ہو جائے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ حالت اچانک پیدا ہوئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعہ تقریباً ایک سال قبل برسراقتدار ہونے کے ساتھ ہی اس کا امکان ظاہر کیا جانے لگا تھا لیکن ہندوستانی سفیر اس ایشو پر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے۔ ستمبر 2017 میں وزیر خارجہ سشما سوراج کی امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے ساتھ ملاقات کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ میڈیا رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ سال جون میں ملاقات ہوئی تھی تو ایچ1بی ویزا کا ایشو بات چیت کا حصہ ہی نہیں تھا۔ بعد میں سشما سوراج نے صفائی پیش کی کہ ایچ1بی ویزا پر دونوں لیڈروں کے درمیان بات ہوئی تھی، لیکن یہ نہیں پتہ چل پایا کہ یہ بات چیت مودی اور ٹرمپ کے گلے ملنے سے پہلے ہوئی تھی یا بعد میں۔سشما سوراج نے وزیر اعظم کی موجودگی میں راجیہ سبھا میں کہا تھا کہ ”مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر ہو رہا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے کامیابی کے ساتھ ٹرمپ کو یہ احساس دلایا کہ ہندوستانی پروفیشنلز کا امریکی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار رہا ہے۔“ لیکن ان کے بیان میں ایچ1بی ویزا کا تذکرہ نہیں تھا۔ یہ درست ہے کہ امریکہ اپنی پالیسیاں بنانے کے لیے آزاد ہے لیکن حکومت ہند کی ذمہ داری ہے کہ ان پالیسیوں میں وہ ملک کے مفاد کا دفاع کرے اور وہاں مقیم ہندوستانیوں کے مفاد کو بھی دیکھے۔ مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت امریکہ کے ساتھ اس ایشو پر ٹکراو نہیں کرنا چاہتی، یہاں تک کہ وہ اسے مضبوطی کے ساتھ اٹھانے میں بھی ڈرتی ہے۔جہاں تک امریکی صدر ٹرمپ کا سوال ہے، وہ ’بائی امریکن، ہائر امریکن‘ کی پالیسی اختیار کر سکتے ہیں لیکن وہ ہمیں امریکی مصنوعات نہ خریدنے سے روک نہیں سکتے۔ حال ہی میں اسپائس جیٹ نے امریکی کمپنی بوئنگ سے طیارہ خریدنے کا 22 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدے کے سبب امریکہ میں 1.32 لاکھ بڑی تنخواہ والی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ حکومت ہند بھی تقریباً 8 ارب ڈالر کے سودے میں امریکہ سے اوینجر پریڈیٹر ڈرونس خریدنے والی ہے۔ڈپلومیسی کا پرانا اصول ہے کہ بین الاقوامی تعاون دوطرفہ ہوتا ہے اور گلے ملنے سے صرف تصویریں تو اچھی بنتی ہیں، ڈپلومیسی نہیں۔ اس لیے ضرورت آنکھیں دِکھا کر اپنا مفاد حاصل کرنے کی ہے۔ لیکن کیا مودی حکومت ایسا کرے گی؟۔
(بشکریہ قومی آواز)
Home مضامین و مقالات سدا بہارمضامین ٹرمپ سے گلے ملنے والے مودی جی !ان پانچ لاکھ ہندوستانیوںکو بچا...