محمد عمران
حقیقت سے راہ فرار اختیار کرنا ممکن نہیں ہے۔یہ ایک ایسا جملہ ہے جو ہمیں بچپن میں خوب اچھی طرح یاد کراگیا تھا،اوراس کی اہمیت اس قدر ذہن ودل میں بٹھادی گئی تھی کہ موجودہ نامساعد حالات میں اورمشتعل کردینے والے جذبات کے بڑھتے ہوئے دائرے میں بھی یہ سبق ہم بھول نہیں پائے ہیں۔غالباًاسی لئے بے انتہا فکرمند بھی ہیں۔اکثر ہی ہم یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہوجاتے ہیں کہ بھلا کیونکرکوئی حقیقت کی اس طرح پردہ پوشی کرسکتا ہے اوربھلاکیوں کوئی عوامی جذبات کواس قدر متاثر کرنے کی جی توڑ محنت کرسکتا ہے کہ حقیقت سے وابستہ چیزوں کے بجائے جذبات سے وابستگی کوہی زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگے ۔ ہمیں تو یہ بتایاگیاتھا کہ جھوٹ کے پاؤں ہی نہیں ہوتے ہیں ،اوروہ زیادہ دور اور دیر تک نہیں چل سکتا ہے پھر آج ہم جھوٹ کی تیز رفتاری کو حقائق کی رفتار چھینتے ہوئے کیوں اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ہمیں تو یہ سبق پڑھایاگیا تھا کہ اگر کوئی کسی کو فریب دے گا تو اس کا فریب بہت جلد سب پر ظاہر ہوجائے گا اور اس کو شرمندہ بھی ہونا پڑے گا۔لیکن آج فریب کو ہی فخر سمجھنے کی تہذیب مخالف روایت بننے لگی ہے اور شرمندگی کاہر احساس اپنی معنویت کھوتا ہوا نظر آرہا ہے،اورشاید اسی لئے آج حقیقت بھی جذبات میں کھونے لگی ہے۔اور شاید اسی لئے دلوں میں احساس زیاں کا بھی پاس نہیں رہ گیا ہے۔لیکن اس کے باوجود بھی ہم مایوس نہیں ہوسکتے کیونکہ حقائق کی اہمیت ہماری تہذیبی وتمدنی خصوصیات کی بناپر بچپن سے ہی ہمارے دل میں پیوست ہے اور وہ دل آج بھی اس بات کوماننے کیلئے قطعی تیار نہیں ہے کہ جھوٹ اور فریب کوجذبات کاچولہ پہناکرحقائق کو مٹادینے کی کوشش کامیاب ہوسکے گی۔
وطن عزیز کے تناظر میں یہاں کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہاں انسانیت کو اہمیت دی جاتی ہے،یہاں کی تہذیب گنگاجمنی تہذیب ہے،یہاں مذہب اور ذات ونسل کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جاتی ہے،یہاں یکسانیت کاسبق پڑھایاجاتا ہے اور اسی پر عمل پیرا ہوا جاتا ہے۔تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ دنیاکی تہذیبی روایتیں یکے بعد دیگرے دم توڑتی گئی ہیں لیکن ہند کی تہذیب وقت کی رفتار کے ساتھ پروان چڑھتی گئی ہے،اوریہی یہاں کی حقیقت ہے،جس کو مٹانے کی کوشش کرنے والے تو مٹ جاتے ہیں لیکن یہاں کی تہذیبی روایتیں نہ صرف یہ کہ زندہ رہتی ہیں بلکہ اور بھی مستحکم ہوجاتی ہیں۔حالانکہ یہ افسوس ناک امر ہے کہ موجودہ وقت میں اعلیٰ سطح پر قوم پرستی کے عنوان سے وطن کے اقدار کو پامال کرنے کی کوشش ہورہی ہے اوراس وجہ سے ملک کوبڑے بڑے نقصانات کا سامنا بھی کرناپڑرہا ہے ،حالیہ دنوں میں دہلی کے بیگم پور کے ایک مدرسے کے چند معصوم طالب علموں کو بھارت ماتا کی جئے کانعرہ لگانے کیلئے مجبور کرنے کی انتہا پسندانہ کوشش کی جاتی ہے اورجب ملک کے آئین کے ذریعے دی گئی مذہب وعقیدے کی آزادی کے حق کا استعمال کرتے ہوئے وہ معصوم طلبا عقیدہ مخالف نعرہ لگانے سے منع کرتے ہیں تو انہیں اس قدر پیٹا جاتا ہے کہ وہ بری طرح زخمی ہوجاتے ہیں اورانہیں علاج کیلئے اسپتال میں داخل ہوناپڑتاہے۔سیاست کی دنیا ایک بار پھر گرم ہوجاتی ہے،اسمبلی اور پارلیمنٹ میں بھی اس کی گونج سنائی دینے لگ جاتی ہے،ملزمین کی گرفتاری بھی عمل میں آجاتی ہے،لیکن ان پر آپسی لڑائی جھگڑے کی دفعات لگاکر معاملے کو ہلکاکردینے کی کوشش سے بھی باز نہیں آیاجاتا ہے۔دہلی اقلیتی کمیشن جیسے کچھ فعال اداروں کے ذریعے اس سنگین معاملے کی تحقیقات کرنے اور حقائق کو سامنے لانے کا مطالبہ بھی کیاجاتا ہے۔
اگر غور کریں تو معلوم ہوگاکہ ایسے مطالبات ہوتے توہیں لیکن اس کے باوجود بھی مذہبی تعصب کی بنیاد پر مشتعل کردینے والے جذبات کی چنگاری کو ہوا دینے اور آباد چمن کو خاکستر کردینے کی اشتعال انگیزی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔پولیس کا محکمہ ہو یاوزارت کا محکمہ ایسے معاملات میں کچھ ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ جذبات بھڑکانے والوں کوموقع بھی دستیاب ہوجاتا ہے اور وہ جو چاہتے ہیں کر بھی گزرتے ہیں۔اگران میں سے کوئی بھارت ماتاکی جئے کا نعرہ نہ لگانے والوں کیلئے ملک بدر ہوجانے کا غیرآئینی بیان جاری کرتاہے تو اس موضوع کا مثبت پہلو تلاش کرنے کی کوشش میں اس کومباحثے کاعنوان تجویز کردیا جاتا ہے اور اگر کوئی ممبر اسمبلی یہ نعرہ لگانے سے انکار کرتاہے تو اس کو فوری طور پراسمبلی سے معطل بھی کردیاجاتا ہے۔اسی عنوان پر مدرسے کے معصوم بچوں کی پٹائی بھی کردی جاتی ہے اور ہرفرد پربزور اس نعرے کوبلند کرنے کا دباؤ بھی بنایاجاتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اس پریوٹرن بھی لے لیا جاتا ہے لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بار پھر اس پریوٹرن لے لیا جاتا ہے۔اس طرح ملک کو مختلف انداز میں مذہبی منافرت اور تعصب سے جوڑکر باربار جذبات کی اشتعال انگیزی کوجنم دیا جاتا ہے ،اس کی وجوہات اور اس کے نتائج کو مسائل کی طرح کھڑاکردیاجاتا ہے۔پھرحکمران،حزب مخالف ،سرکاری ادارے ،مختلف فلاحی تنظیمیں اور حتیٰ کہ ملک کی عدالتیں بھی اسی میں الجھ کررہ جاتی ہیں،عوام کا تو پوچھناہی کیا۔ابھی محمد اخلاق کامعاملہ سلجھتانہیں ہے کہ لاتیہار کا معاملہ سامنے آجاتا ہے۔بار بار مخصوص نظریات کو تھوپنے کیلئے عوام کے جذبات کوبھڑکایاجاتا ہے اورفرقہ وارانہ فسادات کرائے جاتے ہیں۔دہلی میں ایک ڈاکٹر کااچانک ہوجانے والا قتل عوام کوغمگین کررہاہوتا ہے لیکن افسوسناک امریہ ہے کہ اس کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے کی منظم طور پر سازش رچی جاتی ہے۔لیکن جب ذمہ داران بروقت مثبت رویہ اپناتے ہیں تو حقائق پر جذباتیت کو حاوی ہونے کا موقع نہیں ملتاہے۔اور پولیس آفیسر کا یہ قابل تقلید رویہ اپنے ڈھب میں ایک بہترین مثال بن جاتا ہے۔اگر ہراس مقام پر جہاں مذہب یاکسی تفریق کی بنیاد پر جذبات کی اشتعال انگیزی کو ہوادینے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے اور وہاں کے ذمہ داران کا بھی ایسا ہی مثبت رویہ رہے تو ایسے لغو،بے بنیاد اور ترقی میں مانع بننے والے جذباتی مسائل کو سر اٹھانے کاموقع ہی نہیں ملے گا۔اور اس طرح عوام سے لے کر حکومت کی سطح تک ہرایک کا حقیقی مسائل کی جانب توجہ مرکوز کرنا آسان ہوجائے گا۔
آج ہم یقینی طور پر اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ مذہبی تعصب اور تفریق کی بنیاد پر جذباتی مسائل کو مسلسل اور منظم طریقے سے ایک سازش کے طور پر جنم دینے اور دیتے رہنے کاہی نتیجہ ہے کہ وطن عزیزکے حقیقی مسائل جیسے ملک کے عام شہریوں کے بنیادی مسائل، ا قلیتوں کے حقوق کے مسائل، مسلمانوں،دلتوں اور پسماندہ طبقات کے مسائل، بنیادی حقوق اور فرائض سے وابستہ مسائل،آئینی مسائل،قانونی مسائل،تہذیب وتمدن سے متعلق روزبروز معاشرے میں جنم لینے والے مسائل،سماجی ومعاشرتی مسائل،جمہوری اصولوں سے ٹکرانے والے انگنت مسائل،نوجوانوں کے مسائل،خواتین کے مسائل ، بچوں کے مسائل، کسانوں کے مسائل،غربت کے مسائل ،تعلیم کے مسائل،سڑک ،پانی وبجلی کے مسائل اور ترقی وغیرہ کی راہ میں مانع بننے والے سیکڑوں ہزاروں طرح کے ان تمام مسائل پر دھیان دینے کا کسی بھی سطح پر کسی بھی ذمہ دار شخص،تنظیم اور ادارے کو اتنا موقع نہیں ملتا ہے جتنا کہ اس کا حق ہے اور جتنا موقع ملنالازمی ہے ۔جس سے کہ ہرمسئلے کا سدباب سہل ہوجائے اورہمارا ملک اپنی فطری اور اصولی رفتار سے ترقی کے ان منازل کو چھوسکے جس کا خواب مجاہدین آزادی اور آئین کے معماروں نے دیکھاتھا ۔یہاں یہ دیکھاجانا بھی ضروری ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونے کے لئے جن اشیاء کی فراہمی اورضروریات کی تکمیل لازمی ہوتی ہے ان کی بھرپائی ہوبھی پارہی ہے یانہیں ۔اوراس کیلئے یہ بھی دیکھاجاناضروری ہے کہ تمام شہریوں کوہرطرح کی تفریق سے بالاتر ہوکر اپنی اپنی صلاحیتوں کوبروئے کار لانے کا آئین کے دائرے میں آزادانہ طور پر بھرپور موقع مل رہا ہے یانہیں۔موجودہ وقت میں یہی تشویش ہرخاص وعام کوکھائے جارہی ہے کہ ہرچیز پر صرف جذبات کوغالب کرنے کی کوشش ہورہی ہے جس کے نتیجے میں حقیقی اور بنیادی مسائل دھرے کے دھرے رہ جارہے ہیں،نہ تو ہندوستان کی مٹی کی زرخیزی ترقی کی نئے پودوں کوپروان چڑھانے میں کامیاب ہوپارہی ہے،نہ کوئی مجاہدین آزادی کی طرح کاتناوردرخت اپنی مکمل آب وتاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوپارہاہے اور نہ ہی آئین کے معماروں کے اصولی خواب کو شرمندۂ تعبیرہونے دیاجارہا ہے۔
اگر جذباتیت کی رو میں بار بار، ملک کے ہرطبقے اور سرکاری مشینری کو لوجہاد ،گھرواپسی،بیف،روہت ویمولا،کنہاکمار اور بھارت ماتاکی جئے وغیرہ کے عنوان سے، بہانے کی کوشش نہ کی جائے تو کسانوں کی خوکشی کاسلسلہ دراز نہ ہو،تعلیم کے حصول اور ملازمت وتجارت کے راہ دشوار نہ ہواورمذاہب کی تفریق کو بڑھاوا نہ ملے ۔آج کے اس کالم کے عنوان کے حوالے سے جذباتی اور حقیقی مسائل کو کچھ اس طرح بھی سمجھاجاسکتاہے کہ اگر کبھی گھریادفتر میں جذبات کو برانگیختہ کرنے والی کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے تواس وقت دفتر کاکام نہ تو کسی کویاد رہتا ہے اور نہ ہی فوری طور پروہاں کسی کام کاہوپانا ممکن ہوتا ہے۔اسی طرح گھر میں جب ایسے حالات کاسامنا ہوتا ہے تو گھرمیں رہتے ہوئے بھی آرام کرنے اور کھانے پینے کی فکر کہیں دور چلی جاتی ہے۔اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اسی طرح ملکی سطح پر بھی جب مسلسل نفرت وعداوت ،بغض وکینہ اور فرقہ واریت کو ہوادینے والے اور محض جذبات سے مغلوب ہوکرشرانگیزی کی ماحول سازی کرنے کاطریقہ اپنایا جاتارہے گا ،اورصرف یہی موضوع ہرمحاذ پر بحث کاعنوان بنارہے گا ،اورعوام بھی بس اسی کی گفتگوکررہے ہوں گے ،اخبارات میں بھی زیادہ تر اسی موضوع پر لکھاجارہاہو گا،ہرٹی وی اینکر اپنے اپنے انداز میں اکثر وبیشتر اسی حوالے سے بات کرہا ہوگا،اسمبلی اور پارلیمنٹ میں بھی یہی عنوان موضوع بحث بناہوا ہوگا،عدالتوں میں بھی ایسے ہی مقدمات کی شنوائی ہورہی ہوگی اورکابینہ کی میٹنگ میں بھی ایسے ہی ایجنڈوں پر گفتگو ہورہی ہوگی تو بتائیے بھلا حقیقی مسائل کی جانب توجہ کب مرکرکوز ہوسکے گی اورکب سب کی ترقی کا خواب پورا ہوسکے گا۔ اس لئے ہرسطح پر یہ ضروری ہے کہ جذباتی مسائل کوسراٹھانے کا موقع ہی نہ دیاجائے اور حقیقی مسائل کے سدباب کی مخلصانہ کوشش کی جائے۔ (ملت ٹائمز)
(مضمون نگار اینگلو عربک اسکول کے استاذ ہیں )