مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
ایسے مریض جن میں زندگی کی رمق مصنوعی آلات کے سہارے باقی ہواور زندگی کی طرف لوٹ آنے کے امکانات ختم ہو چکے ہوں، معاملہ صرف اتنا سا ہو کہ مصنوعی آلات ہٹا دیے جائیں تو سانس رک جائے، اور انسان موت کی نیندسوجائے، اس صورت حال میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلہ میں چند شرطوں کے ساتھ مصنوعی آلات کو ہٹانے کی اجازت دیدی ہے، یہ فیصلہ چیف جسٹس دیپک کمار مشرا ، جسٹس اے کے سیکری ، جسٹس اے ایم کھانڈ ویلکر ، جسٹس ڈی وائی چند ر چون اور جسٹس اشوک بھان پر مشتمل ایک آئینی بینچ نے اپنے اکثریتی فیصلہ میں دیا ، جس میں چار جج مصنوعی آلات ہٹانے کے حق میں اور ایک جج اس کے خلاف تھے، جن کا کہنا تھا کہ کسی کی زندگی کے فیصلے کا حق دوسروں کو نہیں دیا جا سکتا ، باقی چار ججوں نے با عزت زندگی گذارنے کے حق کے ساتھ با عزت موت کو بھی جوڑ کر اسے بنیادی حق کا حصہ بنا دیا ہے ، عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ غیر سرکاری تنظیم کامن کاز(Common Cause) کی عرضی پر سماعت کے بعد سنایا،فیصلہ کے مطابق ایسا خود مریض کی وصیت یا پھر اہل خاندان اور ڈاکٹروں کے باہمی مشورہ کے بعد کیا جا سکتا ہے تاکہ گھٹ گھٹ کر زندگی گذارنےکے بجائے اس کی موت ہو جائے، البتہ یہ صرف لائف سپورٹ سسٹم (مصنوعی آلات) کو ہٹا کر ہی کیاجا سکتا ہے ، مریض یا اہل خاندان کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ زہریلے انجکشن یا کسی اور ذریعہ سے مریض کو موت کی نیند سلادے، اس کا مطلب ہے کہ عدالت نے ایکٹیو یوتھینزیا کو اس فیصلہ سے الگ رکھا ہے اور اجازت صرف پیسیویوتھینیزیا کی دی ہے ، اس طرح ہندوستان دنیا کا بائیسواں ملک بن گیا ہے ، جہاں لوگ اپنی خواہش کے مطابق پیسیو یوتھینیزیا کا فیصلہ کر سکیں گے ، لیکن قانون بننے تک سپریم کورٹ کی گائد لائن کے مطابق ہی اس پر عمل ہو سکے گا۔
عدالت کے اس فیصلہ کے بعد ۱۰۰۲ءسے ہندوستان میں چلی آ رہی ”مرضی سے موت“ کی بحث کا خاتمہ ہو گیا ہے ، اس بحث کا آغاز ۱۰۰۲ءمیںبہار سے ہی ہوا تھا ، جب کنچن دیوی کے لیے اس کے شوہر نے مرضی کی موت دینے کے لیے پٹنہ ہائی کورٹ میں عرضی لگائی تھی ، کنچن دیوی سولہ ماہ سے کو ما میں تھی ، اسپتال میں بچہ کی پیدائش کے وقت انیستھیا کی زیادہ مقدار دینے کی وجہ سے ۹۹۹۱ءمیں اس کی یہ حالت ہوگئی تھی ، عدالت نے موت کی اجازت تو نہیں دی البتہ حکومت کو حکم دیا کہ وہ اس کا علاج کرائے اور اس کا خرچ دے، ۹۰۰۲ءمیں سپریم کورٹ میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک کارکن اور قلم کار پنکی ویرانی نے ارونا شان باگ کے لئے بھی مرضی سے موت دینے کی درخواست کی تھی کیوں کہ وہ بیالیس سالوں سے کوما میں تھی اور مصنوعی آلات کے سہارے ایک لاش کے انداز میں جی رہی تھی اس کی یہ حالت زنا بالجبر کے نیتجے میں ہوئی تھی، اس معاملہ میں بھی عدالت نے مرضی کی موت دینے سے انکار کر دیا تھا ۔لیکن عدالت کے حالیہ فیصلے نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔
اس فیصلہ پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے، انسانی حقوق سے جڑی تنظیموں نے مختلف قسم کے جو سوالات کھڑے کیے ہیں، ان میں سے کئی غور طلب ہیں، مثلا یہ کہ مریض کی وصیت اگر خاندان والوں کے پاس ہی رہتی ہے تو اس کی قانونی حیثیت اور اس کے مندرجات کے ہوبہو باقی رکھنے پر کس قدر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ اسی طرح اگر کوئی وصیت نامہ میں یہ درج کرے کہ مجھے لائف سپورٹ سسٹم پر رکھا جائے اور اہل خاندان اور ڈاکٹروں کی رائے اس کے خلاف ہو تو کس کی مانی جائے گی ؟ وصیت کرنے والے کی یا اہل خاندان کی ، عدالت کے اس فیصلہ کا غلط استعمال نہ ہوگا ، اس کی کیا ضمانت ہے ؟ کئی لوگ مورث کے مال کو ہتھیانے کی غرض سے جبرا ایسی وصیت لکھوا سکتے ہیں ؛تاکہ وہ جلد مال ودولت پر قابض ہو جائےں، اسی طرح جن معاملات میں وصیت نہیں ہے اور فیصلہ اہل خاندان نیز میڈیکل ٹیم کو کرنا ہے، یہ میڈیکل ٹیم عدالت بنا دے گی ، لیکن اس فیصلہ کے لیے اہل خاندان کا متفق ہونا ضروری ہوگا، تو اہل خاندان میں کون کون شامل ہوگا، اور اس کا دائرہ کیا ہوگا؟ یہ وہ سوالات ہیں، جس کی وضاحت فیصلے میں نہیں ہے ۔
جہاں تک اسلام کا سوال ہے،اس میں انسانی جان کی بہت اہمیت ہے، اس کے نزیک زندگی اللہ کی امانت ہے، اس امانت کی حفاظت آخری حد تک خود اس شخص کا اور دوسروں کا فریضہ ہے، اسے اپنی موت کے فیصلے، خواہش اور وصیت کا کوئی حق نہیں ہے ،اللہ تعالیٰ نے جان کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا ہے ، جان کی امانت ہونے کے اس تصور کی وجہ سے ہی خودکشی ممنوع ہے اور اس کی اجازت شرعا اور قانونا نہیں دی جاتی ہے، زندگی تو بڑی چیز ہے ، ہمارے جسم کا ہر عضو بھی اللہ کی امانت ہے اور اسے اللہ کی مرضی کے خلاف استعمال کی اجازت نہیں ہے او راگر کوئی اس کے خلاف کرتا ہے تو سخت اخروی عذاب کا مستحق ہوگا، ہو سکتا ہے کہ اس کی بد عملی کی سزا دنیا میں ہی مل جائے۔
اسلامک فقہ اکیڈمی کے سولہویں سیمینار منعقدہ اعظم گڈھ میں اس مسئلہ پر بحث وتمحیص کے بعد دوصورتوں کا الگ الگ حکم بیان کیاگیا تھا ، یوتھینیزیا کے سلسلہ میں یہ تجویز پاس ہوئی تھی کہ ” کسی مریض کو شدید تکلیف سے بچانے یا اس کے متعلقین کو علاج اور تیمار داری کی زحمت سے نجات دلانے کے لیے عمدا ایسی تدبیر کرنا کہ جس سے اس کی موت واقع ہوجائے، حرام ہے اور یہ قتل نفس کے حکم میں ہے ، ایسے مریض کو گومہلک دوانہ دی جائے، مگر قدرت کے باوجود اس کا علاج ترک کر دیاجائے، تاکہ جلد سے جلد اس کی موت واقع ہوجائے، یہ بھی جائز نہیں ہے“
مصوعی آلات تنفس کے بارے میں اسلامک فقہ اکیڈمی نے جو تجویز پاس کی تھی، اس میں طے پایا تھا کہ
”اگر مریض مصنوعی آلہ تنفس پر ہو ، لیکن ڈاکٹر اس کی زندگی سے مایوس نہ ہوئے ہوں اور امید ہو کہ فطری طور پر تنفس کا نظام بحال ہوجائے گا تو مریض کے ورثہ کے لئے اس وقت مشین کا ہٹانا درست ہوگا، جب کہ مریض کی املاک سے اس علاج کا جاری رکھنا ممکن نہ ہو، نہ ورثہ ان اخراجات کو بر داشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور نہ اس علاج کو جاری رکھنے کے لیے کوئی اور ذریعہ میسر ہو ، (اسی طرح) اگر مریض آلہ¿ تنفس پر ہو اور ڈاکٹروں نے مریض کی زندگی اور فطری طور پر نظام تنفس کی بحالی سے مایوسی ظاہر کر دی تو ورثہ کے لیے جائز ہوگا کہ مصنوعی آلہ تنفس علاحدہ کردیں۔ ان تفصیلات کی روشنی میں ضرورت سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے تجزیہ کی ہے ، تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ فیصلہ کس قدر اسلامی تعلیمات واحکام سے ہم آہنگ ہے اور کس قدر صراط مستقیم سے ہٹا ہوا ہے۔
(مضمون نگار امارت شرعیہ بہار، اڑیسہ وجھارکھنڈکے نائب ناظم اور وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ کے ناظم ہیں)





