شاہ اجمل فاروق ندوی
مسلمانان ہند کا سب سے موقر، سب سے مستند اور سب سے متفق علیہ ادارہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈاپنے وجود کے ۵۴ سال مکمل کرچکا ہے۔ اس مدت میں اس مبارک کارواں نے جو کارنامے انجام دیے، وہ دنیا کی تمام اقلیتوں کے لیے روشن مثال ہیں۔ تقریباً نصف صدی پر محیط اس مقدس ادارے کی حصول یابیاں تمام مسلم فرقوں، مسلکوں ، جماعتوں اور اداروں کے بزرگوں کی دعاو¿ں اور مشترکہ جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار داخلی اور خارجی فتنہ پروروں اور تخریب کاروں کی شرارتوں کے باوجود ملت کا یہ مشترکہ سرمایہ محفوظ ہے اور پوری ایمانی فراست، دانش مندی اور عزم و حوصلے کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
پس منظر
ہندستانےوں کی مشترکہ جدوجہد کے نتیجے مےں ۷۴۹۱ مےں ہندستان انگرےزوں کی غلامی سے آزاد ہوا۔ آئےن ہند مےں اس بات کی مکمل آزادی دی گئی کہ ہندستان مےں ہر مذہب کا ماننے والا، اپنے مذہبی شعائر و امتےازات کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہے۔ اےک طرف آئےن کی تشکےل ہو رہی تھی، تو دوسری طرف وہ طاقتےں اپنے پنجے جما رہی تھےں، جنھوں نے بابائے قوم موہن داس کرم چند گاندھی (۹۶۸۱ ۔ ۸۴۹۱) کو خون مےں نہلاےا تھا۔ اس کا نتےجہ ےہ ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ملک کے ہر شعبے مےں دو نظرےات پائے جانے لگے۔ وطن سے محبت اور آئےن کا مکمل احترام کرنے کا نظرےہ اور دوسرا تمام اقلےتوں اور نےچی ذاتوں کو کچل کر ہندستان کو ہندو راشٹر بنانے کا نظرےہ۔ مقتنہ، عدلےہ اور انتظامےہ سے متعلق تمام شعبوں مےں ےہ دونوں نظرےات اپنا اپنا اثر دکھانے لگے۔ اقلےتےں خود کو غےر محفوظ محسوس کرنے لگےں۔ بالخصوص مسلمانوں کے خلاف چلنے والی خون آشام لہر نے انھےں ہر لحاظ سے نقصان پہنچاےا۔ مسلمانوں سمےت تمام اقلےتوں اور ہندو نچلی ذاتوں کو اپنا ہی ملک اجنبی اجنبی سا لگنے لگا۔ افسوس! ےہ صورت حال آج بھی باقی ہے۔ بلکہ ےہ دور، جس مےںیہ سطریں لکھی جا رہی ہیں، ےہ آزاد ہندستان کا سب سے نازک اور سےاہ دور ہے۔ مرکزی حکومت کی شہ پر مسلم پرسنل لا کو نشانہ بناےا جارہا ہے۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلے کو بنےاد بناکر ےکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہم وار کی جارہی ہے۔ مےڈےا تو حکومت کی سرپرستی مےں کام کر ہی رہا ہے، خود وزےراعظم بھی مسلم عورتوں پر ہونے والے ”مظالم“ کے” غم مےں گھلے “جارہے ہےں۔ ےہ صورت حال کوئی نئی نہےں۔ آزادیِ وطن کے بعد بار بار اےسے حالات پےدا کیے گئے ہےں، جن کے مقابلے کے لےے ۵۴سال پہلے مسلمانان ہند نے متحد ہوکر آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ کو قائم کرنے کا فےصلہ کےا تھا۔ الحمدﷲ موجودہ حالات مےں بھی بورڈ پوری طرح سرگرم عمل ہے اور موجودہ فتنوں کے مقابلے کے لےے مےدان مےں اترا ہوا ہے۔
تاسےس
۲۷۹۱ مےں ہندستانی پارلےمنٹ مےں لے پالک بل پےش کےا گےا۔ اس بل کی رو سے منہ بولے بےٹے کو حقےقی بےٹے کی حےثےت حاصل ہوتی تھی۔ اس وقت کے وزےر قانون اےچ آر گوکھلے (۵۱۹۱۔ ۸۷۹۱) نے اس بل کو ےونےفارم سول کوڈ کی تدوےن کی طرف پہلا قدم قرار دےا تھا۔ (آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ- سرگرمےوں کا اےک خاکہ، از: محمد عبدالرحےم قرےشی، سہ ماہی خبرنامہ بورڈ، شمارہ: جنوری تا جون ۵۰۰۲، ص:۲۲) ےہ بل عمومی حےثےت کا تھا۔ تمام ہندستانیوں کو اس کا پابند بناےا جارہا تھا۔ ےہ چےز اسلامی تعلےمات کے خلاف تھی۔ اسلامی شرےعت کے مطابق منہ بولا بےٹا، سگے بےٹے کی حےثےت اختےار نہےں کرسکتا۔ چناںچہ مولانا سےد منت اﷲ رحمانی(۲۱۹۱۔ ۱۹۹۱) کی تحرےک پر ۳۱،۴۱مارچ ۲۷۹۱ کو مولانا قاری محمد طےب قاسمی (۷۹۸۱۔ ۳۸۹۱) نے دےوبند مےں اےک اجلاس بلاےا۔ اجلاس کے شرکاءمےں ان دونوں بزرگوں کے علاوہ مفتی عتےق الرحمن عثمانی (صدر مسلم مجلس مشاورت)، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (۶۳۹۱۔ ۱۰۰۲)، ڈاکٹر فضل الرحمن گنوری (علی گڑھ مسلم ےونےورسٹی، علی گڑھ)، مولانا اسعد مدنی (۸۲۹۱۔ ۶۰۰۲)، مولانا عامر عثمانی(۰۲۹۱۔ ۵۷۹۱) اور مولانا سعےد احمد اکبر آبادی (علی گڑھ مسلم ےونےورسٹی، علی گڑھ) وغےرہ شرےک ہوئے۔ اس اجلاس مےں طے ہوا کہ چوں کہ مسلم پرسنل لا کی آواز سب سے پرزور طرےقے سے ممبئی سے اٹھ رہی ہے، اس لےے وہےں اےک بڑا اجلاس منعقد کرنا چاہےے۔ (سہ ماہی خبرنامہ بورڈ، شمارہ: جنوری تا جون ۵۰۰۲،، ص:۹۲) چناںچہ ۷۲،۸۲ دسمبر ۲۷۹۱ کو ممبئی مےں اےک تارےخ ساز اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس مےں مسلمانوں کے تمام فرقوں، مسلکوں اور جماعتوں کی بھرپور نمائندگی تھی۔ طے کےا گےا کہ آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تاسےس عمل مےں آنی چاہےے۔ لہٰذا ۷اپرےل ۳۷۹۱ کو حےدرآباد مےں بورڈ کی تاسےس عمل مےں آئی۔ مولانا قاری محمد طےب قاسمی اس کے صدر اور مولانا سےد منت اﷲ رحمانی جنرل سکرےٹری مقرر ہوئے۔
مقاصد
بنےادی طور پر بورڈ کے نو مقاصد طے کےے گئے:
l ہندستان مےں ”مسلم پرسنل لا“ کے تحفظ اور شرےعت اےکٹ کے نفاذ کو قائم اور باقی رکھنے کے لےے مو¿ثر تدابےر اختےار کرنا۔
l بالواسطہ، بلاواسطہ ےا متوازی قانون سازی جس سے قانون شرےعت مےں مداخلت ہوتی ہو، علاوہ ازےں کہ وہ قوانےن پارلےمنٹ ےا رےاستی مجلس قانون ساز مےں وضع کیے جاچکے ہوں ےا آئندہ وضع کیے جانے والے ہوں ےا اس طرح کے عدالتی فےصلے جو مسلم پرسنل لا مےں مداخلت کا ذرےعہ بنتے ہوں، انھےں ختم کرانے ےا مسلمانوں کو ان سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کی جدوجہد کرنا۔
l مسلمانوں کو عائلی و معاشرتی زندگی کے بارے مےں شرعی احکام و آداب، حقوق و فرائض اور اختےارات و حدود سے واقف کرانا اور اس سلسلے مےں ضروری لٹرےچر کی اشاعت کرنا۔
l شرےعت اسلامی کے عائلی قوانےن کی اشاعت اور مسلمانوں پر ان کے نفاذ کے لےے ہمہ گےر خاکہ تےار کرنا۔
l مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی تحرےک کے لےے بہ وقت ضرورت ”مجلس عمل“ بنانا، جس کے ذرےعے بورڈ کے فےصلے درآمد کرنے کی خاطر پورے ملک مےں جدوجہد منظم کی جاسکے۔
l علماءاور ماہرےن قانون پر مشتمل اےک مستقل کمےٹی کے ذرےعے مرکزی ےا رےاستی حکومتوں ےا دوسرے سرکاری و نےم سرکاری اداروں کے ذرےعے نافذ کردہ قوانےن اور گشتی احکام (Circulars) ےا رےاستی اسمبلےوں اور پارلےمنٹ مےں پےش کیے جانے والے مسودات قانون (بل) کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لےتے رہنا کہ ان کا مسلم پرسنل لا پر کےا اثر پڑتا ہے۔
l مسلمانوں کے تمام فقہی مسلکوں اور فرقوں کے مابےن خےرسگالی، اخوت اور باہمی اشتراک و تعاون کے جذبات کی نشوونما کرنا اور ”مسلم پرسنل لا“ کی بقا و تحفظ کے مشترکہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لےے ان کے درمےان رابطہ اور اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانا۔
l ہندستان مےں نافذ ”محمڈن لا“ کا شرےعت اسلامی کی روشنی مےں جائزہ لےنااور نئے مسائل کے پےش نظر مسلمانوں کے مختلف فقہی مسالک کے تحقےقی مطالعے کا اہتمام کرنا اور شرےعت اسلامی کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کتاب و سنت کی اساس پر ماہرےن شرےعت اور فقہ اسلامی کی رہنمائی مےں پےش آمدہ مسائل کا مناسب حل تلاش کرنا۔
l بورڈ کے مذکورِبالا اغراض و مقاصد کے حصول کے لےے وفود کو ترتےب دےنا، Study Tearms تشکےل دےنا، سمےنار، سمپوزےم، خطابات، اجتماعات، دوروں اور کانفرنسوں کا انتظام کرنا، نےز ضروری لٹرےچر کی اشاعت اور بہ وقت ضرورت اخبارات و رسائل او رخبرناموں وغےرہ کا اجراءاور اغراض و مقاصد کے لےے دےگر ضروری امور انجام دےنا۔
طرےقہ¿ کار
آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ آئےن ہند کے دائرے مےں کام کرتا ہے۔ بلاوجہ کی جذباتیت، شعلہ باری، ہنگامہ خےزی، حکومت سے بے جا ٹکراﺅ اور سطحی طرےقے اختےار کرنا، اس کا مزاج نہےں ہے۔ بورڈ کی پوری توجہ رہتی ہے کہ وہ اپنے دائرے ”مسلم پرسنل لا“ سے باہر نہ نکل پائے۔ ےہی وجہ ہے کہ مسلم پرسنل لا کے علاوہ بڑے سے بڑے معاملے مےں بورڈ خاموشی اختےار کرتا ہے۔ ہاں! مسلم پرسنل لا پر کوئی ضرب پڑتی ہے تو بورڈ شمشےر براں بن کر سامنے آجاتا ہے۔ بابری مسجد کا مسئلہ اصولی طور پر پرسنل لا کے دائرے مےں نہےں آتا تھا۔ لےکن اےک طرف معاملے کی نزاکت اور دوسری طرف بورڈ کا مقام و مرتبہ۔ بورڈ پر دباﺅ بڑھنے لگا کہ جےسے بھی ہو بورڈ اس مسئلے کو اپنے ہاتھ مےں لے۔ چناںچہ امت کی ضرورت اور مطالبے کو دےکھتے ہوئے اےک الگ کمےٹی بنادی گئی۔ وہ کمےٹی ہی بابری مسجد کے مقدمے کی پےروی کر رہی ہے اور بورڈ اس کمےٹی کی کارکردگی پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
تنظیمی ڈھانچہ
بورڈ مےں ۲۰۱ارکان اساسی ہوتے ہےں۔ جب کہ ۹۴۱ارکان مےقاتی ہوتے ہےں۔ سب سے اہم ارکان کی مجلس ”مجلس عاملہ“ ہوتی ہے۔ اس مےں ۱۵ارکان ہوتے ہےں۔ خواتےن کی نمائندگی کے لےے ۰۳خواتےن بھی ہوتی ہےں۔سب سے بڑا اور مرکزی عہدہ صدر کا ہوتا ہے۔ پندرہ برس سے مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی اس منصبِ جلیل کے لیے منتخب ہو رہے ہیں اور ملت کی کشتی کی ناخدائی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کے لےے پانچ نائب صدور ہوتے ہےں۔ اس وقت حلقہ¿ دےوبند کی نمائندگی کے لےے مولانا محمد سالم قاسمی(دیوبند)، حلقہ برےلی کی نمائندگی کے لےے مولانا سےد شاہ فخرالدےن اشرف (کچھوچھہ شریف) ، حلقہ شےعہ کی نمائندگی کے لےے مولانا ڈاکٹر سےد کلب صادق (لکھنو¿)، حلقہ اہل حدےث کی نمائندگی کے لےے مولانا کاکا سعےد احمد عمری (مدراس) اور حلقہ¿ جماعت اسلامی کی نمائندگی کے لےے مولانا سےد جلال الدےن عمری (نئی دہلی)نائب صدور کی حےثےت سے خدمات انجام دے رہے ہےں۔ اس کے بعد ایک جنرل سکرےٹری کا عہدہ ہوتا ہے،جو عملی اعتبار سے سب سے سرگرم عہدہ ہوتا ہے۔ آج کل یہ اہم ذمے داری مولانا سےد محمد ولی رحمانی (پٹنہ) انجام دے رہے ہیں۔مختلف امور کی انجام دہی کے لیے کچھ (کم سے کم تین) سکریٹری ہوتے ہیں۔ اِن دنوں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی(حیدرآباد)، مولانا محمد فضل الرحیم مجددی(جے پور)، ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی (لکھنو¿) اور مولانا عمرین محفوظ رحمانی (مالیگاو¿ں) سکریٹری کی حیثیت سے اپنی اپنی ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں۔ایک خازن ہوتا ہے، آج کل یہ ذمے داری پروفےسر رےاض عمر(دہلی) کے سپرد ہے۔حسب ضرورت ترجمان بھی ہوتے ہیں، جس کے لیے اِن دنوں مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کو نام زد کیا گیا ہے۔
ذیلی کمیٹیاں
اس وقت بورڈ میں مختلف کمےٹےاں کام کر رہی ہےں:
(۱) اصلاح معاشرہ کمےٹی، کنوےنر: مولانا سےد محمد ولی رحمانی
(۲) تفہےم شرےعت کمےٹی، کنوےنر: مولانا خالد سےف اﷲ رحمانی
(۳) دارالقضا کمےٹی، کنوےنر: مولانا عتےق احمد بستوی
(۴) لےگل سےل، کنوےنر: اےڈووکےٹ ےوسف حاتم مچھالا
(۵) بابری مسجد کمےٹی برائے مقدمات، کنوےنر: اےڈووکےٹ ظفرےاب جےلانی
(۶) آثار قدےمہ کمےٹی، کنوےنر: پروفےسر شکےل صمدانی
(۷) لازمی نکاح رجسٹرےشن کمےٹی، کنوےنر: ڈاکٹر سےد قاسم رسول الےاس
بعض غلط نقطہ ہائے نظر
بورڈ کے اس اصولی طرےقہ¿ کاراور بنیادی مقصد سے مکمل وابستگی کی وجہ سے بہت سے ناسمجھ لوگ بورڈ سے بدظن ہوجاتے ہےں۔ سوچتے سمجھتے نہےں۔ کہےں بم دھماکے کا مسئلہ ہو، کسی مسلمان پر ظلم و ستم کا معاملہ ہو، وہ چاہتے ہےں کہ بورڈ ہر معاملے مےں بولے اور ہر معاملے میں تحرےک چلائے۔ حالاںکہ ےہ انداز غےرمنطقی اور غےراصولی ہوگا۔ ہر ادارے اور تنظےم کا اےک دائرہ کار ہوتا ہے۔ بورڈ کا دائرہ کار ”مسلم پرسنل لا“ ہے۔ بورڈ کو اسی دائرے مےں کام کرنا چاہےے اور ےہی وہ کرتا ہے۔
اسی طرح بہت سے جذباتی لوگ سمجھتے ہیں کہ جو وہ سوچ رہے ہیں، وہی درست ہے۔ افہام و تفہیم سے انھیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ ترتیب و تنظیم کا مزاج نہیں رکھتے۔ سوچتے ہیں کہ جو اُن کی زبان سے نکل گیا، وہی حرف آخر ہے۔ اجتماعی مشورے میں اُن کی بات منظور نہیں کی جاتی تو مختلف وسائل استعمال کرکے بورڈ کے خلاف ماحول بناتے ہیں۔ بورڈ کا کچھ بگاڑ سکیں یا نہ بگاڑ سکیں، اپنی عاقبت ضرور بگاڑ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ بورڈ باہمی مشورے اور کاموں کی منظم تقسیم کار کے مطابق کام کرتا ہے۔ اصول و ضوابط کے مطابق جو بات طے ہوتی ہے، اُسی پر عمل کیا جاتا ہے۔ چاہے وہ بات کسی بڑے عہدے دارکی رائے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
کچھ لوگ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بورڈ کی کارکردگی کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کہیں کوئی ایسی بات پڑھ لی، جس میں بورڈ کی کارکردگی کو نشانہ بنایا ہو تو فوراً بورڈ کو غلط سمجھنے لگتے ہیں۔ اللہ کے بندے اس بات کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ بورڈ کی ویب سائٹ یا سوشل میڈیا پر اس کے اکاو¿نٹس ہی کو دیکھ لیں۔ کسی ذمے دار یا ممبر سے تفصیلات معلوم کرلیں۔ عام تجربہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ذرا سی تفصیلات بتائی جاتی ہیں تو فوراً اپنی غلطی مان لیتے ہیں اور بورڈ کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔
بہت سے لوگ اپنے فرقے، مسلک اور جماعت سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ عہدے داروں کے انتخاب، ذمے داریوں کی تقسیم اور عملی اقدامات ، غرض یہ کہ ہر معاملے میں اپنے فرقے، مسلک اور جماعت کا چشمہ لگا کر دیکھتے ہیں۔ نتیجتاً بورڈ سے بدگمان ہوتے بھی ہیں اوربدگمانی پھیلاتے بھی ہیں۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہ چاروں نقطہ ہائے نظر غلط ہیں۔ ان تمام لوگوں کو بورڈ کے دستور کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ مقدس ادارہ ہر مسلمان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کو کسی بھی طرح کا چھوٹا بڑا نقصان پہنچانا، فرقہ پرست طاقتوں کو مضبوط کرنا اور ہندستان میں شریعت کی جڑ کھودنا ہے۔
چار ادوار
آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ اپنے وجود کے پےنتالےس سال مکمل کرچکاہے۔ ےہ مدت چارزمانی ادوار مےں تقسےم کی جاسکتی ہے:
۱۔ دورِ اول:
پہلا دور دس سال پر محےط ہے۔ اس دور کا آغاز ۷اپرےل ۳۷۹۱ سے ہوا اور اختتام ۷۱جولائی ۳۸۹۱ کو ہوا۔ ۳۷۹۱ مےں مولانا قاری محمد طےب قاسمی کو بورڈ کا پہلا صدر منتخب کےا گےا۔ اپنی وفات تک وہی صدر منتخب ہوتے رہے۔ مولانا سےد منت اﷲ رحمانی جنرل سکرےٹری کی حےثےت سے ان کے دست راست بنے رہے۔ ۳۸۹۱ مےں قاری صاحب کی وفات کے ساتھ بورڈ کا دورِ اوّل ختم ہوگےا۔
۲۔ دورِ ثانی:
مولانا قاری محمد طےب قاسمی کی وفات کے بعد ۸۲دسمبر ۳۸۹۱ کو مدراس مےں بورڈ کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس مےں مولانا سےد ابوالحسن علی مےاں ندوی کو بورڈ کا دوسرا صدر مقرر کےا گےا۔ اس کے بعد مولانا بھی بار بار صدر منتخب ہوتے رہے۔ بالآخر ۱۳دسمبر ۹۹۹۱ کو ان کی وفات ہوگئی۔ بورڈ کا ےہ دوسرا دور سولہ برسوں پر محےط ہے۔ اس دور مےں مولانا منت اﷲ رحمانی کے بعد مولانا سےد نظام الدےن کو بورڈ کا جنرل سکرےٹری مقرر کےا گےا۔
۳۔ دورِ ثالث:
بورڈ کا تےسرا دور سب سے مختصر ہے۔ مولانا علی مےاں ندوی کی وفات کے بعد ۳۲اپرےل ۰۰۰۲ کو لکھنو¿ مےں منعقدہ اجلاس مےں مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کو بورڈ کا تےسرا صدر منتخب کرلےا گےا۔ قاضی صاحب کی عمر تو زےادہ نہ تھی، لےکن وہ مختلف مہلک بےمارےوں مےں گھرے ہوئے تھے۔ ان ہی بےمارےوں سے جوجھتے ہوئے وہ صرف ڈھائی سال کی مدت مےں اس دنےا سے رخصت ہوگئے۔ اُن کے دور مےں بھی مولانا سےد نظام الدےن جنرل سکرےٹری کے فرائض انجام دےتے رہے۔
۴۔ دورِ رابع:
قاضی صاحب کی وفات کے بعد ۳۲جون ۳۰۰۲ کو حےدرآباد مےں اجلاس منعقد کےا گےا۔ اس اجلاس مےں بالاتفاق مولانا سےد محمد رابع حسنی ندوی، صدرِ رابع منتخب ہوئے۔ صدرِ رابع کے عہدے کے لےے سےد محمد رابع کا انتخاب عےن فطری تھا۔ اس کے بعد سے مولانا بار بار صدر منتخب ہوتے رہے اور الحمدﷲ تا حال ملت کی قےادت کا فرےضہ انجام دے رہے ہےں۔ اس دور کے تےرہ برس مولانا سےد نظام الدےن ہی جنرل سکرےٹری رہے۔ گزشتہ برس ۵۱۰۲ مےں ان کی وفات کے بعد مولانا سےد محمد ولی رحمانی کو جنرل سکرےٹری منتخب کرلےا گےا ہے۔ الحمدﷲ ےہ چوتھا بھی دور پوری سرگرمی کے ساتھ جاری ہے۔
خدمات
آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ کی خدمات کادائرہ بہت وسےع ہے۔ ہم ےہاں مختصراً نکات کی شکل مےں مختلف ادوار کی خدمات پےش کر رہے ہےں۔ تاکہ بات زےادہ واضح انداز مےں سامنے آسکے۔ البتہ دو خدمات اےسی ہےں، جن کا تعلق کسی خاص دور سے نہےں۔ بل کہ ےہ بورڈ کے قےام کے پہلے دن سے آج تک کے تقرےباً ۵۴ سالہ عرصے کی مشترکہ و متحدہ خدمات ہےں:
۱۔ اتحادِ امت
آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے قےام کے ذرےعے اس بات کو ےقےنی بنادےا کہ مسلمان اپنے مختلف فےہ مسائل سے اوپر اٹھ کر متحد ہوسکتا ہے۔ اس اتحاد کی بنےاد قرآن و سنت کے وہ احکام ہےں، جن مےں کوئی اختلاف نہےں۔ اﷲ کے فضل سے پہلے دن سے لے کر آج تک بورڈ مےں شےعہ سنی، برےلوی دےوبندی، حنفی شافعی، مقلد غےرمقلد، داو¿دی بوہرے سلےمانی بوہرے سب شامل ہےں۔ ان کے علاوہ تنظےموں اور جماعتوں مےں بھی کوئی قابل ذکر جماعت اےسی نہےں، جس سے وابستہ افراد بورڈ کے رکن ےا عہدے دار نہ ہوں۔ ۲۷۹۱ مےں ممبئی کے اجلاس کے بارے مےں کہا جاتا ہے کہ سرزمےن ہند پر پوری تارےخ مےں اےسا اتحاد اور اےسا عظےم الشان متحدہ و مشترکہ مجموعہ کبھی دےکھنے مےں نہےں آےا۔ ےہ آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ کا اےسا کارنامہ ہے، جو تنہا اس کی اہمےت و افادےت ثابت کرنے کے لےے کافی ہے۔
۲۔ احساسِ تحفظ
آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے قےام کے فوراً بعد سے مسلم پرسنل لا کے معاملے مےں پوری سرگرمی دکھانی شروع کردی۔ ہمارے پرسنل لا پر کوئی بھی حملہ ہوا، تو بورڈ امت مسلمہ ہندےہ اور اس فتنے کے درمےان آہنی دےوار بن کر حائل ہوگےا۔ اس کا نتےجہ ےہ ہوا کہ پرسنل لا کا تحفظ بھی ہوا اور مسلمانوں مےں پرسنل لا کے متعلق احساسِ تحفظ بھی پےدا ہوا۔ ےہ اطمےنان ہوگےا کہ کوئی مسئلہ درپےش ہوگا، تو ان شاءاﷲ بورڈ نمٹ لے گا۔ ےہ احساسِ تحفظ بڑی عظےم نعمت ہے۔ اس سے بے شمار خےر جنم لےتا ہے۔ عام مسلمانوں کے دل و دماغ مےں شرےعتِ مطہرہ کے متعلق ےہ احساس تحفظ پےدا کرنا بورڈ کا دوسرا عظےم کارنامہ ہے۔
۳۔ نفاذِ شریعت
آئےے! اب مختلف ادوار کے لحاظ سے بورڈ کی خدمات کا جائزہ لےتے ہےں۔
دورِ اوّل کی اہم خدمات
آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قےام کے بعد اس کے پہلے صدر مولانا قاری محمد طےب قاسمی منتخب کیے گئے تھے۔ ےہ ۲۷۹۱ کا زمانہ تھا۔ اسی سال پارلےمنٹ مےں لے پالک بل پےش کےا گےا تھا۔ ہندوﺅں کے لےے اس سلسلے مےں اےک قانون ۲۵۹۱ مےں بناےا جاچکا تھا۔ ۲۷۹۱ کا لے پالک بل کسی مذہب کے لےے خاص نہ تھا۔ اس کے تحت تمام مذاہب کے پےروکار آتے تھے۔ اسلامی شرےعت کے لحاظ سے لے پالک ےا منہ بولے بےٹے کو سگے بےٹے والے اختےارات نہےں مل سکتے۔ چنانچہ آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس مسئلے پر سخت اےکشن لےا۔ بورڈ نے تحرےک چلائی اور اپنا نقطہ¿ نظر حکومت کے سامنے پےش کےا۔ بالآخر ۸۷۹۱ مےں حکومت نے ےہ بل واپس لے لےا۔ پھر ۰۸۹۱ مےں دوبارہ بل پےش کےا گےا تو بورڈ کے ردّعمل پر مسلمانوں کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دے دےا گےا۔
جون ۵۷۹۱ مےں اس وقت کی وزےر اعظم اندراگاندھی نے ملک مےں اےمرجنسی نافذ کر دی تھی۔ کسی کو زبان کھولنے اور قلم ہلانے کی اجازت نہ تھی۔ ان نازک حالات مےں اندرا گاندھی کے بےٹے سنجے گاندھی کے اشارے پر جبری نس بندی کا سلسلہ شروع ہوگےا۔ اس فتنے کا نشانہ بالخصوص مسلمان تھے۔ اےسے نازک حالات مےں بورڈ نے پوری جرا¿ت و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دارالسلطنت دہلی مےں مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد کےا۔ پوری بے باکی کے ساتھ اعلان کےا گےا کہ نس بندی حرام ہے۔ مسلمانوں کے لےے جائز نہےں کہ وہ عام حالات مےں نس بندی کرائےں۔ اپنے اس اعلان کو ہزاروں کی تعداد مےں چھپواکر ملک بھر مےں عام کےا گےا۔ بورڈ کی اس جرا¿ت کا نتےجہ ےہ ہوا کہ دونوں ظالم ماں بےٹے سوائے خون کا گھونٹ پےنے کے کچھ نہ کرسکے۔
۸۷۹۱ مےں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو¿ بنچ کے اےک فےصلے کے مطابق حکومت کو اس بات کا حق دے دےا گےا تھا کہ وہ جہاں چاہے مفادِ عامہ کی وجہ سے عبادت گاہوں اور قبرستانوں کی زمےن گھےر لے۔ اس فےصلے کے آتے ہی لکھنو¿ کی دو مسجدوں، اےک قبرستان اور جے پور کی اےک مسجد کو مےونسپل کارپورےشن نے اےکوائر کرلےا۔ اس خطرناک فےصلے کے خلاف بورڈ نے تحرےک چلائی۔ حکومت اور اپوزےشن دونوں سے ملک کر سخت احتجاج کےا۔ جس کے نتےجے مےں ےوپی اور راجستھان کی حکومتوں نے اےسی زمینیں اےکوائر کرنے کے احکامات واپس لے لےے۔
۰۸۹۱ مےں جناب وےنکٹ رمن (سابق صدر جمہورےہ ہند) نے مرکزی وزےر خزانہ کی حےثےت سے انکم ٹےکس کے قوانےن مےں کچھ تبدےلےاں کےں۔ ان ترمےموں کے بعد اوقاف پر ےہ لازم ہوگےا تھا کہ وہ اپنی تمام غےرمنقولہ جائے دادےں فروخت کرےں اور ان سے حاصل ہونے والی رقم بےنکوں مےں جمع کرائےں ےا سرکاری ےا نےم سرکاری اداروں کی سےکیورٹی مےں لگادےں۔ اس کا منفی اثر ےہ پڑ رہا تھا کہ مسلم اوقاف اپنے ائمہ، خطباءاور دےگر مسلم خدمت گاروں کو سود کی رقم سے مشاہرہ دےنے پر مجبور ہوتے۔ جب کہ اسلام مےں سود کا لےنا دےنا حرام ہے۔ آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس مسئلے کو سنجےدگی سے لےا۔ بار بار کے احتجاج اور نمائندگی کے بعد آخرکار ےہ ترمےم واپس لے لی گئی۔
دور ثانی کی اہم خدمات
۶۸۹۱ مےں شاہ بانو کےس پےش آےا۔ نےو سی آر پی سی کی دفعہ ۵۲۱ مےں ےہ بات کہی گئی تھی کہ طلاق کے بعد جب تک مطلقہ کا دوسرا نکاح نہ ہوجائے، اُسے پہلا شوہر نفقہ دےتا رہے گا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے مطالبے پر دفعہ ۷۲۱ کا اضافہ کےا گےا۔ اس دفعہ کے مطابق طلاق دےنے والا شوہر اگر واجبات ادا کردے تو نفقہ منسوخ ہوجاتا ہے۔ اس دفعہ سے دفعہ ۵۲۱ کا برا اثر کچھ کم ہو رہا تھا۔ لےکن مختلف عدالتوں کے غلط فےصلوں نے اس اثر کو بھی ختم کردےا۔ چناںچہ آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ نے زبردست ملک گےر مہم چلائی۔ اےڈووکےٹ محمد عبدالرحےم قرےشی کے مطابق :
”آزاد ہندستان کی تارےخ مےں اس سے پہلے اےسا کوئی پروگرام نہےں ہوا اور اےسی کوئی مہم نہےں چلی، جس مےں قصبات اور دےہات تک کے مسلمانوں نے حصہ لےا ہو اور جس مےں مسلمانوں کے تمام طبقات اور مسالک شانہ بہ شانہ ساتھ رہے ہوں۔ کئی قصبات مےں عمر رسےدہ اصحاب نے ےہ کہا کہ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ مسلمانوں مےں اےک بے داری پےدا ہوئی اور شرےعت کے تحفظ کے لےے ان مےں عزم و حوصلہ پےدا ہوا۔“ (سہ ماہی خبرنامہ بورڈ، شمارہ: جنوری تا جون ۵۰۰۲، ص:۴۲)
چنانچہ ۶مئی ۶۸۹۱ کو ”قانون حقوق مسلم مطلقہ بل“ پاس ہوا۔ ےہ بورڈ کی بڑی کام یابی تھی۔ لےکن افسوس کہ اس قانون کے بعض الفاظ و تعبےرات سے فائدہ اٹھاکر عدالتےں اب بھی شرےعت مخالف فےصلے کردےتی ہےں۔ اس کی اصلاح کی جدوجہد جاری ہے۔
بابری مسجد کا مسئلہ اےک عرصے سے ملک کے لےے ناسور بنا ہوا ہے۔ اس مسئلے کو لے کر ہر دور مےں سےاست دانوں نے اپنے اپنے مفادات کی خاطر انصاف کا خون کےا اور ملک کو تباہی کے غار مےں دھکےلا ہے۔ ۸۴۹۱ مےں بابری مسجد مےں کچھ مورتےاں رکھ دی گئی تھےں۔ ۶۸۹۱ مےں ناجائز طور پر مسجد کا تالا کھلواےا گےا اور مورتےوں کی پوجا شروع کی گئی۔ بابری مسجد کی بازےابی کے لےے کئی کمےٹےاں قائم ہوئےں، لےکن اپنی بے اثری، محدودےت اور امت مےں عدم اعتماد کی وجہ سے وہ کوئی اثر نہ دکھا سکےں۔ دوسری طرف آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ پر عوامی دباﺅ بڑھتا گےا کہ بورڈ اس مسئلے کو اپنے ہاتھ مےں لے لے۔ ےہ مسئلہ اصولی طور پر پرسنل لا کے دائرے مےں نہےں آتا تھا۔ اس لےے بورڈ کو تردد تھا۔ لےکن جب مسجد کے بقاءکا مسئلہ درپےش ہوگےا تو بورڈ نے اےک کمےٹی بنادی اور اس کمےٹی کو اپنے ماتحت رکھا۔ اس سے پہلے ۳دسمبر ۰۹۹۱ کو بورڈ نے اپنے عاملہ کے اجلاس کے بعد ےہ اعلان کےا تھا کہ ےہ جگہ ہمےشہ کے لےے مسجد ہے۔ اس کی حےثےت تبدےل نہےں کی جاسکتی۔ اس کے بعد ۶دسمبر ۲۹۹۱ کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد بورڈ نے اےک کمےٹی بناکر معاملہ اپنے ہاتھ مےں لےا۔ ہائی کورٹ مےں بورڈ کی مذکورہ کمےٹی ہی بابری مسجد کا مقدمہ لڑتی رہی ہے۔
مسلم پرسنل لاکے بےشتر مسائل کا تعلق خواتےن سے ہے۔ دوسری طرف مسلم خواتےن کا حال ےہ ہے کہ وہ ان مسائل سے تقرےباً ناواقف ہےں۔ لہٰذا بورڈ نے خواتےن کو باشعور بنانے کی طرف توجہ کی۔ ۹۸۹۱ کے کان پور اجلاس مےں ”مسلم خواتےن سےل“ قائم کرنے کا فےصلہ کےا اور اُس سال ۹۸۹۱ کو ”خواتےن کے سال“ کے طور پر مناےا گیا۔
دورِ ثالث کی اہم خدمات
پےچھے ےہ بات عرض کی جاچکی ہے کہ بورڈ کے تےسرے صدر مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کو اﷲ تعالیٰ نے عمر بھی طوےل نہےں دی اور بورڈ کی صدارت کی مدت بھی بہت مختصر رہی۔ صدر بننے کے بعد جتنی زندگی رہی، اس کا بڑا وقت مہلک امراض سے لڑتے ہوئے اسپتالوں مےں گزرا۔ اس لےے ان کے مختصر دور مےں کوئی قابل ذکر خدمت انجام نہےں دی جاسکی۔ البتہ اےک کارنامے نے ان کے دور کو علمی لحاظ سے دقےع بنادےا۔ وہ کارنامہ ہے ”مجموعہ¿ قوانےن اسلامی“ کی اشاعت۔
عرصے سے قوانےن اسلامی کے اےسے مجموعے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی، جس مےں دفعات کے انداز مےں عائلی قوانےن بےان کیے گئے ہوں۔ چناںچہ مولانا منت اﷲ رحمانی نے ےہ کام بورڈ کے دورِ اوّل ہی سے اپنی نگرانی مےں علماءو انش واران کی اےک ٹےم سے کرانا شروع کردےا تھا۔ دوسرے دور کے آخر ےعنی ۹۹۹۱ مےں اس کی ترتےب مکمل بھی ہوگئی تھی۔ لےکن ےہ شرف بورڈ کے صدرِ ثالث قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے حصے مےں لکھا تھا کہ ان کے مختصر دور مےں ےہ مجموعہ اشاعت پذےر ہو۔ چناںچہ بورڈ کے دورِ ثالث مےں اس پر نظر ثانی وغےرہ کا کام مکمل ہوا اور ۹۱اگست ۱۰۰۲ کو قاضی صاحب نے اس کا اجراءکےا۔ خود قاضی صاحب کے بہ قول:
”ہندستان مےں تدوےن فقہ کے سلسلے مےں فتاویٰ عالم گےری کے بعدےہ ہندستان مےں دوسری اجتماعی کوشش ہے۔“
(سہ ماہی خبرنامہ بورڈ، شمارہ: جنوری تا جون ۵۰۰۲، ص:۶۲)
دورِ رابع کی اہم خدمات
۴۰۰۲ مےں آر اےس اےس کے اشارے پر کاچی کاما کوٹی پےٹھ کے شنکرآچارےہ نے بابری مسجد کا مسئلہ گفتگو کے ذریعے حل کرنے کے لےے صدرِ بورڈ سے خط و کتابت کا سلسلہ شروع کرنا چاہا۔ مےڈےا مےں دھوم مچادی گئی کہ شنکراچارےہ نے بابری مسجد کے مسئلے کا بہترےن حل لکھ کر بورڈ کے صدر کو ارسال کردےا ہے۔ ےہ دراصل آراےس اےس کا اےک حربہ تھا۔ موصوف شنکرآچارےہ کے آر ایس ایس سے روابط جگ ظاہر ہیں۔ لکھنو¿ میں بورڈ کی مجلس عاملہ کی ایک میٹنگ میں شنکر آچاریہ کا خط کھولا گےا۔ اس مےں موجودہ بے تکی تجاوےز کو ماننے سے سختی کے ساتھ انکار کردےا گےا اور مےڈےا کے سامنے اےک بار پھر دوٹوک الفاظ مےں اعلان کردےا گےا کہ مسجد فرش سے عرش تک مسجد ہی رہتی ہے۔ اس سے دست برداری کا سوال ہی پےدا نہےں ہوتا۔ اس اقدام سے فرقہ پرستوں کے حوصلے بہت پست ہوگئے۔
حکومت ہند عرصے سے نکاح کے لازمی رجسٹرےشن کا قانون لانے کے فراق مےں تھی۔ اس لےے بورڈ نے پہلے ہی اےک جامع ترےن نکاح نامہ مرتب کرنے اور اسے عام کرنے کا فےصلہ کےا۔ ۵۰۰۲ کے بھوپال اجلاس مےں اس نکاح نامے کو منظوری دی گئی۔ مےاں بےوی اگر اس نکاح نامے پر دستخط کردےں تو انھےں باہمی اختلافات نپٹانے کے لےے عدالت جانے کی ضرورت نہےں پڑے گی۔ دارالقضا ےا شرعی پنچاےت کے ذرےعے مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ےہ اےک بڑی حصول ےابی تھی۔
اسی بھوپال اجلاس مےں اےک اہم قدم اٹھاتے ہوئے بورڈ نے ”تفہےم شرےعت کمےٹی“ تشکےل دی۔ تاکہ اس کمےٹی کے ذرےعے عام مسلمانوں اور غےرمسلم قانون دانوں کو شرےعت کے احکام اور ان کی حکمت سمجھائی جاسکےں۔ ےہ کمےٹی عوام میں بھی تفہےم شرےعت کے پروگرام کرتی ہے اور وکلاءاور قانون دانوں کے درمےان بھی۔
۵۰۰۲ ہی مےں بورڈ نے مسلمانوں کو اپنی سرگرمےوں سے واقف کرانے کے لےے اےک سہ ماہی خبرنامے کا اجراءکےا۔
۶۰۰۲ مےں حکومت ہند نے دےنی مدارس کے سامنے ”مرکزی مدرسہ بورڈ“ کی تجوےز رکھی، تاکہ مدارس کو حکومت سے مربوط کےا جاسکے اور مدارس کو سرکاری اسکےموں سے فائدہ پہنچاےا جاسکے۔ لےکن بورڈ نے اس تجوےز کو قبول کرنے سے انکار کردےا اور حکومت اس سے دست بردار ہوگئی۔
راجستھان کے اےک اسکول مےں اےک طالب علم کو داڑھی رکھنے پر اسکول سے نکال دےا گےا تھا۔ لڑکے نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاےا۔ اس مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے کہا کہ ”ہم طالبانی کلچر کو عام کرنے کی اجازت نہےں دے سکتے“۔ مزےد ےہ کہ مسلمانوں کو ”دقےانوسےت“ سے بچنے کی نصےحت بھی کرڈالی۔ اس سماعت کے خلاف بورڈنے صاف اعلان کےا کہ جسٹس صاحب کی بات کسی صورت مےں قابل قبول نہےں۔ مزےد ےہ کہ ان کے غلط تبصرے کے خلاف مراسلاتی مہم چلائی۔ اس کے نتےجے مےں جسٹس صاحب کو اپنا تبصرہ واپس لےنا پڑا۔
حکومت کے اشارے پر اچانک تےن پرسنل لا بورڈ مےدان مےں آئے۔ شےعہ پرسنل لا بورڈ، برےلوی برسنل لا بورڈ اور خواتےن پرسنل لا بورڈ۔ سب کو مےڈےا نے خوب شہ دی اور ےہ باور کراےا جانے لگا کہ بورڈ تقسےم ہوگےا ہے۔ الحمدﷲ بوڈر کی حکےمانہ قےادت سے سب اپنی موت آپ مرگئے۔
ہندستان کی کئی رےاستوں نے ”سورےہ نمسکار“ اور ”وندے ماترم“ کو لازمی کرنے کی بات کہی۔ آل انڈےا مسلم پرسنل بورڈ نے سخت اےکشن لےا اور اسے قطعاً نامنظور کردےا۔ متعلقہ حکومتوں پر اس کے واضح اثرات محسوس کیے گئے۔
گود لےنے کے مسئلے پر اےک مرتبہ پھر اےک مقدمہ سپرےم کورٹ مےں دائر کےا گےا۔ جس مےں ےہ مطالبہ بھی کےا گےا تھا کہ منھ بولا بےٹا ہر مذہب کے پےروکار کے لےے سگے بےٹے جےسا ہونا چاہےے۔ بورڈ نے فوراً ردعمل ظاہر کےا۔ سپرےم کورڈ مےں فرےق بن کر مقدمہ لڑا اور الحمداﷲ مقدمہ جےت لےا۔
آر اےس اےس کے اشارے پر اےک فرقہ پرست شخص نے سپرےم کورٹ مےں تمام دارالقضا اور دارالافتاءبند کرانے کا دعویٰ داخل کےا تھا۔ بورڈ اس معاملے مےں بھی فرےق بنا اور الحمداﷲ بورڈ کو کام ےابی ملی۔
Right to Education (تعلےم کا حق) کے عنوان سے حکومت ہند نے اےک قانون بناےا تھا، جس کے تحت پرائمری تک تمام بچوں کو لازمی تعلےم کا حق ملنا تھا۔ بہ ظاہر ےہ بہت اچھی خبر تھی۔ لےکن اس مےں اسلامی مکاتب کے وجود کے لےے بڑا خطرہ پوشےدہ تھا۔ بورڈ کی قےادت نے خطرے کو بھانپ لےا۔ آئےن حقوق بچاﺅ مہم چھےڑ کر کام شروع کےا۔ الحمدﷲ حکومت ہند کو بورڈ کے مطالبات تسلےم کرنے پڑے۔
ہم جنسی کی حماےت پر سپرےم کورٹ مےں اےک مقدمہ دائر کےا گےا تھا۔ بورڈ نے معاملے کی نزاکت دےکھتے ہوئے خود فرےق بن کر مقدمہ لڑا۔ الحمدﷲ اس مسئلے مےں بھی فےصلہ بورڈ کی حماےت مےں ہوا۔
اےک ”لےگل سےل“ تشکےل دےا گےا۔ ےہ سےل مسلم پرسنل لاکے خلاف ہونے والے فےصلوں پر بھی نظر رکھتا ہے اور بورڈ کے تحت لڑے جانے والے مقدمات مےں قانونی مدد بھی فراہم کرتا ہے۔
بابری مسجد کے مقدمے مےں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے جب اپنا فےصلہ سناتے ہوئے مسجد کی زمےن کو تےن حصوں مےں تقسےم کردےا تو بورڈ نے اس فےصلے کے خلاف چھ اپےلےں فائل کرائےں۔ اس فےصلے کے خلاف حکم التواءحاصل کےا اور اب سپرےم کورٹ مےں مسلمانوں کی طرف سے مقدمہ لڑ رہا ہے۔
قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے دور مےں مجموعہ¿ قوانےن اسلامی کی اشاعت ہوچکی تھی۔ موجودہ صدر مولانا سےد محمد رابع حسنی ندوی نے اپنے دور مےں اس مجموعے کے ساتھ فقہ شافعی، فقہ اہل حدےث اور فقعہ جعفری کے ضمےمے لگانے کا بھی فےصلہ کےا۔ تاکہ ےہ مجموعہ پوری امت کا متفقہ مجموعہ بن جائے۔ ساتھ ہی اس مجموعے کی دفعہ وار ترتےب پر نظر ثانی اور انگرےزی ترجمے کا کام سابق جج جسٹس شاہ محمد قادری کے سپرد کےا گےا۔ الحمدﷲ ےہ عظےم کام تقرےباً مکمل ہوچکا ہے۔
وقف اےکٹ ۰۱۰۲ مےں بعض دفعات نامناسب تھےں۔ بورڈ کو ان پر اعتراض تھا۔ چناں چہ بورڈ نے ”رائٹ ٹو اےجوکےشن“ کے خلاف آئےنی حقوق بچاﺅ مہم شروع کی تو اس اےکٹ کو بھی اپنے دائرہ عمل مےں داخل کرلےا۔ چنانچہ حکومت کو اس بل مےں ترمےم کرنی پڑی۔ حکومت نے وقف ترمےمی بل ۳۱۰۲ پےش کےا۔ ےہ بل لوک سبھا اور راجےہ سبھا دونوں اےوانوں مےں پاس ہوا اور اےک قانون کی شکل اختےار کرگےا۔ اسی کے تحت حکومت نے تارےخی اعلان کرتے ہوئے دہلی مےں ۳۲۱ وقفےہ جائے دادوں کو غےرقانونی قبضے سے چھڑانے کا اعلان کےا ۔
جون ۶۱۰۲ مےں آر اےس اےس کے اشارے پر کام کرنے والی اےک نام نہاد مسلم خاتون تنظےم نے طلاق ثلاثہ کے خلاف مےڈےا کے سامنے ہوّا کھڑا کےا اور اپنے ساتھ ہزاروں خواتےن کے ہونے کا جھوٹا دعویٰ کےا۔ ہر طرف خاموشی تھی اور مےڈےا شور مچائے جارہا تھا۔ آل انڈےا مسلم پرسنل لا بوڈر نے اےکشن لےا۔ بورڈ کا شعبہ¿ خواتےن پوری سرگرمی کے ساتھ کام مےں لگ گےا۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں مےں بہت کام ےاب پرےس کانفرنسےں کی گئےں۔ اسلام کا نظامِ طلاق بھی واضح کےا گےا اور موجودہ جھوٹے پروپےگنڈے کی قلعی بھی کھولی گئی۔ مےڈےا کا اُن پرےس کانفرنسوں کی طرف متوجہ ہونا تھا کہ بالکل سناٹا ہوگےا۔
اکتوبر ۶۱۰۲ مےں موجودہ فرقہ پرست مرکزی حکومت نے سپرےم کورٹ مےں طلاق ثلاثہ و تعدد ازدواج کے خلاف حلف نامہ داخل کےا۔ بورڈ نے اس کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا حلف نامہ بھی داخل کےا۔ اس درمےان لا کمےشن آف انڈےا نے حکومت کے اشارے پر اےک سوال نامہ بھی جاری کےا۔ تاکہ ےکساں سول کوڈ کے لےے راہ ہموار کی جاسکے۔ بورڈ نے دہلی کے پرےس کلب مےں تمام مسالک اور جماعتوں کی مشترکہ پرےس کانفرنس کی۔ لاکمےشن کے سوال نامے کا بائےکاٹ کےا۔ ےکساں سول کوڈ کے خلاف مسلم پرسنل لا کی حماےت مےں تحرےک چھےڑنے کا اعلان کےا۔ خود صدر بورڈ نے اس سلسلے مےں تحرےری اپےل جاری کی۔ ملک بھر مےں بے داری کی اےک لہر چل پڑی۔ گاﺅں دےہات سے لے کر شہروں تک دستخطی مہم چل پڑی۔ شاہ بانو کےس کے بعد عام بے داری کا ےہ پہلا موقع ہے۔ ابھی دستخطی مہم زور و شور سے جاری ہے اور لاکھوں دستخط کےے جاچکے ہےں۔ اﷲ نے چاہا تو اس مسئلے مےں بھی مرکزی حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پرے گا اور مسلم پرسنل لا بورڈ کی فتح ہوگی۔
ےہ آل انڈےا مسلم پرسنل لا بورڈ کی خدمات کا سرسری جائزہ ہے۔ الحمدﷲ گزشتہ ۵۴ برسوں مےں اتحاد و اتفاق کی برکت سے اﷲ تعالیٰ نے بورڈ سے جو عظےم کام لےے ہےں، وہ قابل اطمےنان بھی ہےں اور لائق نصےحت بھی۔ ان شاءاﷲ امت مسلمہ کا ےہ متحدہ، متفقہ اور معتبر ترےن ادارہ اسی طرح تحفظ شرےعت کا فرےضہ انجام دےتا رہے گا۔
(مضمون نگار نوجوان مصنف اور انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی میں اردو سیکشن کے انچار ج ہیں)





