اگر اس کی جگہ تبدیل ہوکر ہائر ایجوکیشن کمیشن ایکٹ نافذ ہوجاتاہے تو ہندوستان کے اعلی تعلیمی نظام پر حکومت کا کنٹرول ہوگا ۔یہ بات اب مکمل طور پر واضح ہوچکی ہے کہ بی جے پی حکومت تمام محکموں اور شعبوں میں آر ایس ایس ذہنیت کے لوگوں کو بحال کررہی ہے اور اس کیلئے ہر نظام میں وہ تبدیلی کررہی ہے
خبر درخبر (561)
شمس تبریز قاسمی
برطانیہ نے 1919 میں میں یونیورسیٹی گرانٹ کمیٹی تشکیل دیاتھا ۔اس کا مقصداس ادارے کے ذریعہ اعلی تعلیمی نظام کا کنٹرول اور یونیورسٹیز کیلئے فنڈ ریلیز کرنا تھا ۔ہندوستان میں اسی کو اختیار کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی ۔بنارس ہندو یونیورسیٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کیلئے 1945 میں یونیورسیٹی گرانٹ کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔1952 میں حکومت ہند نے یونیورسٹیز اور تمام اعلی تعلیمی داروں کا انتظام سنبھالنے اور اس کیلئے فنڈ ریلیزکرنے کا اختیار یوجی سی کو دینے کا فیصلہ کیا ۔1953 میں اس وقت کے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے اس کمیشن کاباضابطہ افتتاح کیا ۔تین سالوں بعد 1956 میں پارلمینٹ کے ذریعہ قانون پاس کرکے اسے مستقل ایکٹ کی شکل دے دی گئی اور اب اسے UGC Act 1956 کہاجاتاہے ۔ہندوستان کی موجودہ بی جے پی حکومت اس تعلیمی نظام کو تبدیل کرکے ایک دوسرا نظام لانے جارہی ہے جس کا نام ہائر ایجوکیشن کمیشن ہوگا ۔27 جون 2018 کو مرکزی وزرات برائے فروغ انسانی وسائل نے اپنی ویب سائٹ پر ہائر ایجوکیشن کمیشن ایکٹ 2018 کا مجوزہ مسودہ شائع کیا اور عوام کی رائے طلب کی ۔رائے پیش کرنے کیلئے صرف دس دنوں کا وقت دیاگیا تھا جس پر شدید اعتراض ہونے کے بعد اب اسے 7 جولائی سے بڑھاکر 20 جولائی کردیاگیا ہے۔بعض ذرائع سے یہ خبر مل رہی ہے کہ اسی سال کے مانسون سیشن میں یہ مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کرکے اسے مستقل ایکٹ کا درجہ دے دیاجائے گا اور یو جی سی ایکٹ 1956 کی جگہ ایچ ای سی ایکٹ 2018 نافذ ہوجائے گا ۔
یوجی سی کی جگہ نئے کمیشن کے منصوبہ سے عوام میں بے چینی ہے ۔ماہرین تعلیم اور تعلمی اداروں سے جڑے حضرات اسے حکومت کا غیر ضروری اور تعلیم کو نقصان پہونچانے والے قدم بتارہے ہیں ۔اسی سلسلے میں گذشتہ کل یعنی 5 جولائی کو ہندوستان کے معروف تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز نئی دہلی میں ایک مباحثہ کا انعقاد کیا گیاتھا جس میں ماہر تعلیم پروفیسر ایم اسلم سابق وائس چانسلر اگنو ۔پروفیسر فرقان قمر وائس چانسلر مرکزی یونیورسیٹی آف ہماچل پردیش کنگرا (ایم پی )۔ پروفیسر اشتیا ق دانش سابق صدر شعبہ اسلامیات ہمدرد یونیورسیٹی ۔ڈاکٹر تنویر اعجاز ایسوسی ایٹ پروفیسر رامجس کالج دہلی یونیورسیٹی ۔ فیروز بخت احمد چانسلر مولانا آاد نیشنل یونیورسیٹی حید ر آباد ۔ڈاکٹر ایم ڈی تھومس بانی وڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف ہارمنی اینڈ پیس اسٹڈیز ۔خالد محمود انصاری سکریٹری انڈین انسٹی ٹیوٹ آف نہرو ریسرچ منیجمیٹ نوئیڈا ۔ ڈاکٹر وبی راوت ۔ جناب وجے سمیت متعدد ماہرین اور پروفیسر حضرات تعلیم شریک تھے ۔
اس میٹنگ میں ماہرین تعلیم نے صاف لفظوں میں کہاکہ یوجی سی کی جگہ ایچ ای سی لانے کی کوئی اہم اور بنیادی وجہ سامنے نہیں آئی ہے ۔ اس مسودہ میں کئی ساری کمیاںاور خامیاں ہیں جیسے اس مجوزہ کمیشن میں یونیورسٹیز کو فنڈ دینے کا اختیار نہیں ہے جبکہ یوجی سی کے پاس فنڈ دینے کا اختیار تھا۔مجوزہ کمیشن میں صرف انتظامی ذمہ داریاں سنبھالنے کا حق ہوگا ۔ کہاگیاہے کہ وزرات سے یونیوسٹیز کو فنڈ جاری کیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ کس بنیاد پر وزارات فنڈ ریلیز کرے گی اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔مباحثہ میں شرکاءنے اس اندیشے کا بھی اظہار کیا کہ نئے کمیشن کے ممبران اور چیئر پرسن کا انتخاب کس بنیاد پر کیا جائے گا ؟کیا اہلیت طے کی جائے گی ؟اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے یعنی یہ بھی مشکوک ہے ۔مجوزہ کمیشن سے پرائیوٹ سیکٹر کو بھی بڑھاواے ملے گاجس سے تعلیمی نظام کے صحت پر برا اثر پڑے گا ۔شرکاءنے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس خدشے کابھی اظہار کیا کہ یہ نیا کمیشن تعلیمی نظام پر قابض ہونے اور حکومتی کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش ہے کیوں کہ مسودہ میں نہ تو پرانے کمیشن میں کوئی ایسی خامی بتلائی گئی ہے اور نہ ہی نئے کمیشن کی کوئی ایسی خوبی کا تذکرہ ہی جس کی بنیاد پر کمیشن کی تبدیلی کو درست کہاجاسکتاہے ۔
شرکا ءنے اس بات پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا کہ رائے پیش کرنے کیلئے بہت کم وقت دیاگیا ہے ۔ ہندوستان جیسے بڑے ملک میں رائے کا پیش کیا جانا تقریبا ناممکن ہے ۔27 جون 2018 کو یہ مسودہ ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے اور محض 7 جولائی 2018 تک کا وقت رائے پیش کرنے کیلئے دیاگیا ہے جوانتہائی کم ہے اور ایسا لگتاہے کہ یہ خانہ پوری کیلئے کیا گیاہے ۔حکومت وہی کرنا چاہتی ہے جو اس کے مزاج میں ہے ۔اس موضوع پر ہندوستان کے تعلیمی اداروں اور یونیوسٹیز میں مباحثہ کا انعقاد ہونا چاہئے ۔حکومت کو ماہرین کی رائے لینی چاہئے لیکن اتنے محدودو وقت میں یہ سب ناممکن ہے ۔نیز گرمی کی چھٹیوں کی وجہ سے اکثر لوگ اپنی جگہ پر نہیں ہیں جس کی بنیاد پر وہ انٹرنیٹ اور دیگر سہولیات سے محروم ہیں اور اپنی راءپیش کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر حکومت کو اتنی جلدی کس چیز کی ہے۔ بہر حال اس مدت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور اب 20 جولائی تک رائے بھیجنے کا وقت ہے ۔آپ سے بھی گزارش ہے کہ ایچ آر ڈی منسٹری کو اپنی رائے بھیجئے اور کوشش کی کیجئے کہ یوجی سی ہی باقی رہے کیوں کہ اگر اس کی جگہ تبدیل ہوکر ہائر ایجوکیشن کمیشن ایکٹ نافذ ہوجاتاہے تو ہندوستان کے اعلی تعلیمی نظام پر حکومت کا کنٹرول ہوگا ۔یہ بات اب مکمل طور پر واضح ہوچکی ہے کہ بی جے پی حکومت تمام محکموں اور شعبوں میں آر ایس ایس ذہنیت کے لوگوں کو بحال کررہی ہے اور اس کیلئے ہر نظام میں وہ تبدیلی کررہی ہے ۔حالیہ دنوں میں اس نے یو پی ایس سی کا نظام تبدیل کردیاہے ۔آئی اے ایس ۔آئی پی ایس اور آئی ایف ایس جیسے اہم عہدوں پر اب تک امتحان میں حاصل شدہ رینک کی بنیاد پر بحالی ہوتی تھی لیکن اب مستقل ٹرینگ ہوگی اور اس ٹریننگ میں حاصل شدہ نمبرات کی بنیاد پر افسران کی تقرری کا فیصلہ ہوگا ۔اسی طرح حکومت نے پرائیوٹ سیکٹر میں کام کرنے والوں کو بھی آئی اے ایس اور آئی پی ایس بنانے کا فیصلہ کیا ۔مقصد واضح ہے کہ سنگھی ذہنیت کے لوگوں بحال کرنے کیلئے حکومت یہ سب کررہی ہے ۔